بڑھو پنجاب پڑھو پنجاب ہمارا تعلیمی نظام

Parho Punjab

Parho Punjab

تحریر : منظور احمد فریدی

اللہ جل شانہ کی بے پناہ حمد وثناء اور خاتم المرسلین امام الانبیاء و المعلمین رحمة للعالمین کی ذات بابرکات پر درود سلام کے کروڑوں نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے تعلیمی نعرہ پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی نظام پر چند سطور ترتیب دی ہیں اپنے معزز قارئین کرام پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پچیس سالہ صحافتی زندگی میں تعلیم کو اتنا مقدس جانا کہ کبھی کسی سکول یا معلم کے متعلق اس انداز سے سوچا بھی نہیں کہ وہ کرپشن کرتا یا کسی قسم کی منفی سوچ رکھتا ہوگا اسکی سب سے بڑی وجہ تو یہ کہ مذہبی اور روحانی گھرانہ سے تعلق ہے اور ہماری گھٹی میں استاد کا احترام ڈال دیا گیا خوش قسمتی سے ہمیں استاد بھی وہ ملے جنہوں نے تعلیم و تدریس کو روزگار سمجھنے کے بجائے تبلیغ سمجھا اور تلامیذ کو اولاد سے بھی عزیز جان کر انکی اخلاقی روحانی اور تعلیمی تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور قانونی طور بھی ریاست اپنی رعایا کی بنیادی سہولیات کی ذمہ دار ہوتی ان میں سے تعلیم صحت اور خوراک بہت اہم ہیں اور اسلامی ریاست میں تو حکمران اس چیز سے غافل ہو ہی نہیں سکتا مگر وطن عزیز کی یہ بس قسمتی اس کے قائم ہوتے ہی ساتھ شامل ہوگئی کہ اس کی باگ ڈور ایسے طبقہ کے ہاتھ رہی جو اسلام اور اسلامی اقدار سے باغی رہا نتیجہ میں ملک اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کے بجائے ایک ایسی ریاست بن گئی کہ اب اسے اسلامی لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔

ر جمہوریہ تو فقط چند خاندانوں کے لیے ہے باقی سب کا پاکستان ہی بچا ہے اللہ اسے ابد آباد تک قائم و دائم رکھے ۔تعلیم صحت اور خوراک فی زمانہ ایسے بہترین بزنس بن چکے ہیں کہ ہر کوئی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے کوئی سرکاری سکول ہے یا پرائیویٹ تعلیمی ادارہ اخلاق تعلیم سے عاری ڈگریوں کے تاجر بن چکے ہیں ۔ہسپتالوں کی حالت بھی کسی ڈھکی چھپی نہیں خوراک کے معاملہ میں بھی یہ بات آن ائیر ہو چکی ہے کہ ہم کھوتے گھوڑے اور کتے کھا چکے ہیں اور ایسا کرنے والے ہمارے ہی معاشرہ کے لوگ ہیں بلکہ جو میرا ذاتی مشاہدہ ہے ایسے لوگ پکے نمازی حاجی صاحبان تہجد گزار اور جانے کیا کیا روپ بنا کر ایسا کررہے ہیں بہ ہر حال ہمارا آج کا موضوع صرف تعلیم ہے باقی دو شعبے موخر کرکے آج اسی پر لکھتے ہیں میرے دفتر میں چند دن قبل ایک بھٹہ مزدور آیا اور بتایا کہ اسکے بچوں کی یونیفارم جو کہ سکول سے ملتی ہے اس بار نہیں ملی اس نے کچھ تفصیل بھی فراہم کی دوچار دن بعد ایک اور مزدور پیشہ آدمی آیا اور بتایا کہ میری بچیوں کے تعلیمی وظائف کی رقم ادارہ کا سربراہ ڈکار گیا ہے اسی طرح کی متعدد شکایات موصول ہونے پر بندہ نے مختلف تعلیمی اداروں کا رخ کرکے جو کچھ دیکھا جو حقائق سامنے آئے وہ ایسے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے ان کا وقت ضائع کررہے ہیں اور اگر پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کروا رکھا ہے تو پھر ہم اس مافیا کے بزنس کو فروغ دے رہے ہیں کچھ احباب کو اس بات پر اعتراض بھی ہوگا اور وہ اپنے اعتراض پر ایک ہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ تمام ایک جیسے نہیں ہوتے کوئی شک نہیں کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے ایک ہی خاندان کے افراد کی سوچ مختلف ہوتی ہے نظریات مختلف ہوتے ہیں۔

برے لوگوں کی اکثریت میں چند اچھے ہوں تو یہ ازل سے ہوتا چلا آرہا ہے اور گیہوں کے ساتھ گھن پسنے کی طرح یہ اچھے کسی کام نہ آتے ہیں ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے تعلیمی اصلاحات کے نفاذ میں اپنے طور پر جو بیڑہ اٹھایا وہ لائق صد تعریف ہے مگر اسکے نفاذ میں محکمہ نے ان کے ساتھ جو تعاون کیا وہ صرف اتنا ہے کہ تنخواہوں کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کے فنڈز بھی ہضم کرلیے حمام میں سب ننگے کے مترادف انہیں کوئی پوچھے گا کیسے سب اپنا اپنا حصہ برابر وصول کرتے ہیں سرکاری سکولوں میں اساتذہ کرام کی بھرتی کے وقت صرف انکی تعلیمی ڈگریوں کو دیکھ کر بھرتی کرلیا جاتا ہے ایک استاد کی اخلاقی سطح ناپنے کا آلہ تو موجود نہیں مگر ایگزیکٹو سیٹ پر بیٹھا شخص اتنا تدبر تو رکھتا ہو کہ وہ نئے آنے والوں کی ذہنی تربیت کو دیکھ سکے مگر یہاں بھی سفارش رشوت اقرباء پروری نے اس شعبہ کا وہ حشر کیا ہوا ہے کہ ہمارے سرکاری سکولوں میں بھرتی ہونے والے نئے ٹیچر میٹرک پاس پرانے ٹیچرز سے کہیں گئے گزرے ہیں جبکہ انکی تعلیمی ڈگریاں ماسٹر اور ڈاکٹر لیول کی ہیں مگر انکا ذہنی امیج ایک کھلنڈرے نوجوان جیسا ہے میرے ذاتی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ٹیچر خود سارا دن موبائل فون پر چیٹ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتا اور محکمہ اسے پچاس ساٹھ ہزار روپے ماہانہ اسی کام کے دے رہا ہے اگر ان اساتذہ کی میٹرک کی سند سے لے کر ڈگریوں کی جانچ پڑتال کروائی جائے تو پچاس فی صد سے ذیادہ کی ڈگریاں بوگس نکل آئیں گی سکول میں لاکھوں روپے کے فنڈز موجود ہیں مگر صاف پانی کا بندو بست نہیں چاردیواری نہیں کئی سکول تاحال فرینچر سے بھی محروم ہیں اور کئی سکولوں کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے مگر وہاں نئی جماعتوں کے لیے تدریسی عملہ کئی سالوں سے تعینات نہ ہوا ہے محکمہ تعلیم کا اربوں روپے کا بجٹ آفیسرز کی عیاشی کے بعد باقی ماندہ میٹرو منصوبوں پر خرچ ہو رہا ہے۔

پنجاب کے جس ضلع سے میرا تعلق ہے ممکن ہے وہ پنجاب کا سب سے چھوٹا ضلع ہو مگر میرے علاقہ میں کئی سکول ایسے بھی موجود ہیں جنکے دروازے آہنی گیٹ کھڑکیاں اور اینٹیں تک کھوچل استاد گھر لے جاچکے ہیں مگر ضلع کی سطح پر بیٹھے آفیسرز کو سب معلوم ہونے کے باوجود کسی قسم کی کاروائی کا اخلاقی اختیار نہیں کیونکہ وہ اس کرپشن میں برابر کے حصہ دار ہیں حال ہی میں لیبر ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے ملنے والی رقم جو کہ بھٹہ مزدور وں کے بچوں کو وردیاں جوتے بیگ وغیرہ خرید کر دینے کے لیے ملتی ہے جنوری 2018 میں آنے والی گرانٹ سے اساتذہ نے اپنے مکان پلستر کروائے ہیں مگر اوپر کی سطح تک کمیشن ضرور پہنچ گیا ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب جو کہ ظاہری شکل و صورت میں فرشتہ سیرت نظر آتے ہیں سنت کے مطابق با ریش سر پہ عمامہ شریف ہاتھ میں ہر وقت تسبیح ہوتی ہے جنوری میں ملنے والی نوے ہزار روپے کی گرانٹ سے بچوں پر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کیا محکمہ کے دفتر میں بچوں کی وردیوں کے بل لگا کر فائل جمع کروادی گئی ہے انہیں کے ماتحت اساتذہ میں سے کئی جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے ہیں مگر کوئی چیک کرنے والا موجود ہی نہیں ۔یہ تو تھی سرکاری تعلیمی اداروں کی بات پرائیویٹ سکولوں میں ان لوگوں کے بھی سکول موجود ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمر کی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے تعلیمی ادارے کھولنے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔

اپنے پیسے کے بل بوتے پر بڑی بڑی بلڈنگز بنا لیں بڑی ڈگریوں والے استادوں کو نوکر رکھ لیا علاقہ سے بہت بڑی تعداد میں بچوں کو وظیفہ کا جھانسہ دے کر داخلہ کرلیا پھر ہوا کیا کہ اگر کسی غریب کے بچے نے اپنی محنت اور تعلیم میں لگن سے وظیفہ حاصل کربھی لیا تو اسے سرکار سے ملنے والی رقم دیتے وقت بھی انہیں اتنی ہی تکلیف ہوئی جتنی کہ دو نمبر دھندہ کرنے والوں کو خیرات کرتے ہوئے ہوتی ہے ۔ایسے اداروں میں مال دار طبقہ صرف اپنی عیاشی کے لیے تعلیمی ڈگریاں دیکھنے کے بجائے خوبصورت چہرے دیکھ کر فی میل ٹیچرز بھرتی کرتے ہیں پھر جب بات نکل جائے تو دور تک جاتی ہے بعض غریب والدین کی بیٹیاں اپنی غربت اور والدین کی عزت کے پیش نظر ان کا ہر ظلم برداشت کرتی چلی جاتی ہیں مگر پھر بھی کسی دن کوئی نہ کوئی سکینڈل سامنے آہی جاتا ہے ۔مڈل کلاس طبقہ کے پرائیویٹ سکولز میں مڈل پاس سٹاف تین تین ہزار تنخواہ پر قوم کے معماروں کی تربیت کرتا ہے ایک وباء آج کل معاشرہ میں اور پھیل چکی ہے مالدار طبقہ بڑے تعلیمی اداروں کے فرنچائز سسٹم کو اپنے علاقہ میں لانچ کرکے اپنے بزنس کو فروغ دے رہا ہے تعلیم بانٹنے والی کمپنیوں میں الائیڈ سکول ۔لائیسم۔دار ارقم ،دی ارقم ۔ایجو کیٹر ۔اور دیگر کئی ایسے نام ہیں جو اپنے وسیع نیٹ ورک کی بدولت ماہانہ لاکھوں روپے کا بزنس کرتے ہیں گویا تعلیم ان کے لیے ایک بہترین کاروبار بن چکا ہے انکی فرنچائز لینے کے بعد کتابیں انہی کی وردیاں انہی کی کوئی بھی فرنچائزی کسی قسم کے اعتراض کا حق ہی نہیں رکھتا جہاں پلے گروپ کے بچوں کی ٹیوشن فیس ماہانہ دو ہزار کے قریب پندرہ سو کی کتابیں دو ہزار کی وردی اور گھر سے بچوں کو لے کر جانے کا خرچہ تین ہزار ہو بھلا کوئی کم آمدنی والے ولادین اپنے بچوں کو ایسے سکولز میں داخل کروا نے سوچ بھی سکیں گے۔

افسوس کہ ہم اسلامی ملک کے باشندے ہونے کے باوجود اسلامی اقدار سے محروم ہیں اور دین سے دوری دین کی روح کو نہ سمجھنے سے کرپشن ہمارے خون میں شامل ہوچکی ہمارا کوئی بھی شعبہ اس سے پاک نہیں آج پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والی مسلمان قوم پوری دنیا میں رسوائی کا شکار ہے کیونکہ ہم نے اغیار کی اندھا دھند تقلید میں اپنے اللہ اور اسکے رسولۖ کے فرمودات کو بھلا کر غیروں کو اپنا آئیڈیل بنا لیا جس سے اللہ اور اللہ کے حبیبۖ نے صاف لفظوں میں دور رہنے کا حکم دیا ہم نے اسے سپر پاور سمجھ کر اسکے ہر حکم پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جس سے ہم غیرت دینی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آج صرف دنیا کے ہی ہو کر رہ گئے اللہ کریم ہمیں اپنے حبیب کے صدقہ میں ہدایت کی دولت سے سرفراز فرمائے والسلام۔

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی