پنجاب میں گندم کی خریداری اور متعلقہ افسران کی لوٹ مار

Wheat

Wheat

تحریر : سید عبدالوہاب شیرازی
ان دنوں پنجاب میں گندم کا سیزن عروج پر ہے، کٹائی کے بعد خریداری کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اس سال حکومت نے گندم خریداری کا ہدف 40 لاکھ ٹن مقرر کیا ہے۔ گذشتہ روز وزیر اعلی کے کوارڈینیٹر رانا مبشر اقبال نے کہا کہ کاشتکاروں سے گندم کا ایک ایک دانہ خریدیں گے، گندم کی خریداری مہم میں کاشتکاروں کو ہر ممکن سہولت کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ خریداری مہم میں کسی بددیانتی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے اور حکومت پنجاب کی اس ضمن میں زیرو ٹالرینس پالیسی ہے۔

پنجاب میں گندم کی خریداری کے لئے حکومت کسانوں کو بوریاں فراہم کرتی ہے۔ فی ایکڑ 10 بوریاں دی جاتی ہیں اور انہیں بوریوں میں گندم خریدی جاتی ہے۔ گندم کی یہ بوریاں حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ کئی کئی دن لمبی لمبی لائنوں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ پھر کس نے کتنے ایکڑ پر گندم لگائی اس کا حساب کتاب پٹواری کرتے ہیں، اور وہ جس کے بارے لکھ دیتے ہیں کہ اس نے اتنے ایکڑ رقبے پر گندم لگائی ہے اسے ہی اتنی بوریاں ملتی ہیں۔ ہمارے ملک میں پٹواریوں کا جو حال ہے اس اندازہ ہوتا ہے کہ یقینا ایسا بھی ہوتا ہو گا کہ کوئی شخص ایک انچ بھی گندم کاشت نہ کرتا ہو لیکن پٹواری کو بھاری حصہ دے کر اپنے نام ہزاروں بوریاں وصول کرلیتا ہوگا اور پھر لوگوں سے سستے داموں گندم خرید کر 1300 یا جو بھی حکومتی ریٹ ہے اس کے مطابق حکومت کو گندم بیچ دیتا ہوگا۔جس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ غریب اور چھوٹے کسان حکومتی بوریاں حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اور مجبورا انہیں عام منڈی میں حکومتی ریٹ سے سو ڈیڑھ سو روپے کم ریٹ پر گندم بیچنی پڑتی ہے۔

گندم کی خریدای میں دوسرا بڑا فراڈ محکمہ فود کے افسران کرتے ہیں۔ یعنی وہ افسران جو گندم کی خریداری کے لئے متعلقہ سینٹرز پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ جب حکومت گندم خریدتی ہے تو گندم کی بوری 50 کلو تول کر لی جاتی ہے۔ یعنی حکومتی ریٹ چالیس کلو کا نہیں بلکہ پچاس کلو کا ہوتا ہے۔ اب جس وقت کسان اپنی گندم متعلقہ سینٹر پر جمع کروانے جاتے ہیں تو ہرہر بوری کا باقاعدہ وزن کیا جاتا ہے اور پچاس کلو کے ساتھ ایک پاو اضافی وصول کیا جاتا ہے۔ یہ ایک پاو اضافی لینا کسانوں کے ساتھ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ شریعت کے خریدوفروخت کے اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ ہم نے گندم سٹاک کرنی ہوتی ہے اس لئے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ کچھ گندم خراب ہو جائے۔ یا کسی بوری پر پانی ٹپک پڑے، یا گھن لگ جائے، یا کسی بوری میں معمولی سا سوراخ ہو اس طرح جو گندم ضائع ہوتی ہے اس کا حساب فی پچاس کلو پر ایک پاو اضافی لے کر ایڈوانس میں ہی پورا کردیا جاتا ہے۔

عقلا بھی یہ بوجھ فروخت کنندہ پر ڈالنا زیادتی ہے کیونکہ فروخت کنندہ آئندہ ہونے والے کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں۔ یہ المناک کہانی اگر یہیں ختم ہوجاتی تو اچھا ہوتا لیکن کیا کیا جائے ، اس سے بڑا ہی بھیانک فراڈ اور لوٹ مار کا بازار اس کے علاوہ بھی گرمایا جاتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حکومت نے تو ہر پچاس کلو پر ایک پاو اضافی وصول کرنے کا کہا ہوا ہے لیکن ان سینٹرز میں ہر کسان سے پچاس کلو پر ایک کلو اضافی گندم وصول کی جاتی ہے۔ یعنی ہر بوری اکیاون کلو تول کر لی جاتی ہے۔اب ذرا اس کا تھوڑا سا حساب کرلیتے ہیں کہ یہ اضافی گندم کی مقدار کتنی بنتی ہے۔ میں نے جب ایک کسان سے پوچھا کہ ایک ایکڑ میں کتنی گندم ہوتی ہے تو اس نے بتایا کہ تقریبا پینتیس من سے پچاس من کے درمیان ہوجاتی ہے۔

پچیس ایکڑ کا ایک مربع ہوتا ہے اور ایک مربع میں تقریبا ایک ہزار من سے پندرہ سو من تک گندم ہوجاتی ہے۔اور پنجاب میں اکثر کسانوں نے کم از کم ایک مربع پر تو کاشت کی ہی ہوتی ہے۔ تو اس اعتبار سے جس کسان نے ایک مربع پر کاشت کی ہے اگر اس کی کل گندم بارہ سو من بھی لگائیں تو گویا اسے فروخت کرتے وقت بارہ سو کلو(30من) گندم بغیر کسی حساب اور کھاتے کے محکمہ کے افسران کو دینی پڑتی ہے۔تیس من گندم کی قیمت تقریبا چالیس ہزار بنتی ہے۔ تو ہر وہ کسان جس نے ایک مربع گندم لگائی ہے، چالیس ہزار روپے کی گندم مفت میں بغیر کسی لکھت پڑت کے افسران کو دینے پر مجبور ہے۔ یہ تو ایک کسان کی بات ہوئی اسی طرح کے ہزاروں کسان ہیں اور کروڑوں روپے ان افسران کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اور ظاہر ہے صرف متعلقہ سینٹر پر متعین افسران اکیلے ہی اتنی جرات نہیں کرسکتے یہ نیچے سے اوپر تک اور اوپر سے اوپر وزیر اعلی تک سب کو حصہ ملتا ہوگا، تبھی بڑے آرام سے ہر سال یہ لوٹ مار جاری وساری ہے۔جس ملک کے حکمران ہی لٹیرے ہوں اس کا اللہ ہی حافظ۔

Syed Abdul Wahab Shirazi

Syed Abdul Wahab Shirazi

تحریر : سید عبدالوہاب شیرازی