قطر میں پاکستانی فوجی تعینات کرنے کی خبریں من گھڑت ہیں۔ نفیس ذکریا

Nafees Zakaria

Nafees Zakaria

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان نے ان خبروں کو مسترد کیا ہے کہ وہ قطر میں اپنے فوجی تعینات کر رہا ہے۔

دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بعض غیر ملکی میڈیا میں سامنے آنے والی یہ خبریں قطعی طور پر “من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔”

ترجمان نفیس ذکریا نے بیان میں کہا کہ “یہ جھوٹی خبریں بدنیتی پر مبنی اس مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد پاکستان اور خلیج کے برادر اسلامی ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔”

گزشتہ ہفتے سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے تھے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرتا ہے۔

ایسے میں جہاں ان ممالک کی طرف سے قطر کو تنہا کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا وہیں ترکی نے تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کے تحفظ کے لیے اپنے فوجی بھیجنے کے لیے تیار ہے۔

بعض بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اسی تناظر میں یہ خبریں بھی سامنے آ رہی تھیں کہ پاکستان بھی تقریباً 20 ہزار فوجی قطر بھیجے گا۔

سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی ممالک کی ایران کے ساتھ کشیدگی اور اب قطر کے خلاف ان ملکوں کا یہ تازہ اقدام پاکستان کے لیے سفارتی سطح پر ایک مشکل صورتحال کا باعث بنا ہے۔

ایران، پاکستان کا پڑوسی ملک ہے جس کے ساتھ ایک عرصے تک سردمہری کے شکار رہنے والے دوطرفہ تعلقات میں حالیہ برسوں میں بہتری دیکھی گئی جب کہ سعودی عرب سمیت خلیجی عرب ریاستوں سے بھی پاکستان کے قریبی مراسم ہیں اوراس کے لاکھوں شہری وہاں روزگار سے وابستہ ہیں۔

بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں موجودہ صورتحال کو پاکستان کے لیے ایک چیلنج قرار دیا۔

“ابھی تک پاکستان یہ ہی فیصلہ نہیں کر پایا کہ وہ قطر کیمپ میں ہے یا ریاض کیمپ میں تو مشرق وسطیٰ سے متعلق ہماری خارجہ پالیسی میں مسائل نظر آتے ہیں۔”

پاکستان میں قانون ساز بھی یہ زور دیتے آ رہے ہیں کہ ان تنازعات میں فریق بننے سے اجتناب کیا جائے۔

سلامتی کے امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار سید نذیر کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے بھرپور سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے حل میں کردار ادا کرنا ہی واحد قابل عمل راستہ ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تنازعات میں فریق نہیں بنے گی اور ان ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے وہ اپنا سفارتی کردار ادا کرے گی۔ تاہم اس بارے میں کوئی واضح پالیسی فی الحال سامنے نہیں آئی ہے۔