قطر جنگ نہیں مذاکرات

Qatar

Qatar

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
امریکی صدر ڈولنڈ ٹرپ نے موسم گرما کی شدید گرمی میں سعودی عرب اور قطر کی گرما گرمی کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے ” شاہ سلمان کو فون کرکے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی بھر پور مدد کا ادا کیا۔ جبکہ امریکی وزیر دفاع جیم میٹرز نے اپنے قطری ہم منصب سے کہا کہ خطہ میں اس کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کیونکہ قطر ان کے دس ہزار افواج کی العبید بیس میں مہمان نوازی کرتا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ نے قاہرہ میں مشاورتی اجلاس کے بعد نیوزکانفرنس میں کہا ہے کہ قطر کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے گا مگر اس کے بارے میں مزید تبادلہ خیال جاری رہے گا اور اس کے خلاف مزید اقدامات کا نفاذ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔قطر کا بائیکاٹ کرنے والیچھ عرب ممالک مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بحرین کے وزرائے خارجہ نے اپنے اجلاس میں قطر کے جواب پر مایوسی کا اظہار کیا ہے لیکن انھوں نے تیرہ مطالبات کو پورا نہ کرنے پر اس کے خلاف نئی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے قطر کے ساتھ زمینی اور فضائی روابط بھی منقطع کررکھے ہیں۔ان ممالک نے قطر سے اخوان المسلمون سمیت دہشت گردوں سے ناتا توڑنے،ان کی مالی معاونت ختم کرنے، الجزیرہ نیوز چینل کو بند کرنے اور اپنے ہاں ترک فوج کے ایک اڈے کے قیام کا منصوبہ ختم کرنے سمیت مختلف مطالبات کیے ہیں۔ان چھ ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عاید کیا تھا جبکہ قطر نے اس الزام کی تردید کی تھی۔انھوں نے قطر پر ایران سے خلیجی ممالک کے تحفظات کے باوجود راہ ورسم بڑھانے کا الزام عاید کیا تھا اور اس سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران سے اپنے سفارتی تعلقات کا درجہ گھٹا دے۔عرب خطے کی سیاسی صورتحال ٹرمپ کے حالیہ دورے سے ہی کشیدہ چل رہی تھی لیکن تازہ ترین چھ ممالک کے قطری بائیکاٹ نے بڑی ہلچل مچادی ہے اور ایسا بحران گلف کوآپریشن کونسل کی تیس سالہ تاریخ میں پہلی بار اٹھا ہے۔

؟قطر دواعشاریہ چار ملین آبادی والا ملک ہے جس میں صرف دس فیصد قطری آبادی رہائش پذیر ہے اور باقی غیر ملکی محنت کش ہیں۔قطراوپیک کا اہم رکن اور دنیا کا ایل این جی گیس پیدا کرنے والے ملک کے ساتھ دنیا کے چند مضبوط معیشت والے ممالک میں شامل ہے۔عرب علاقائی سیاست میں پہلی بار سعودی عرب اور دیگر چھ ممالک نے مل کر دوحا حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے کچھ الزامات لگاتے ہوئے اس کا سفارتی بائیکاٹ کردیا۔ عرب ممالک کی شکایات ہیں کہ قطر دہشت گرد تنظیموں، داعش، اخوانالمسلمین اور حماس کی مالی و اخلاقی مدد کرتا ہے۔سعودی عرب کے نئے اتحاد پر دبے لفظوں میں تنقید اور قطری میڈیاکا عرب عوام کے ذہن بدلنے کی سازش کو نامنظور کرتا ہے اور ایران کی طرف جھکاؤ کے ساتھ ساتھ حودثی باغیوں کی مدد سے عرب خطیمیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش بھی ان کے الزامات کی فہرست میں شامل ہے۔

چھ عرب ممالک نے دوہاکا بائیکاٹ کرتے ہوئے زمینی، سمندری اور فضائی حدود پر مکمل پابندی لگا ئی ہے۔ قطرکی بڑی درآمد ایل این جی ہے۔ اس کی صرف دس فیصد گیس زمینی حدود سے مصر اور عرب امارات کو برآمد کی جاتی ہے جبکہ باقی سمندری راستوں کے ذریعے باقی دنیا تک پہنچتی ہے لہذا پہلا اثر تو اس کی فضائی کمپنی کو جھیلنا پڑے گا۔
جیساکہ ستر کی دہائی میں جو مقام پی آئی اے کو حاصل تھا۔ وہ آج قطر ایر لائن کے پاس ہے۔۔ یہ خطہ کا سب سے زیادہ مصروف ایر ٹریفک راستہ ہے۔اورراستے لمبے ہونے سے کرائے بڑھیں گے۔

قطر زرعی ملک نہیں ہے لہذا اس کو زرعی اجناس کے لیے پڑوسی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب سے سب سے لمبی سرحد ملنے کی وجہ سے ا س کی غذائی اجناس اور تعمیراتی سامان سعودی سرحد کے ذریعے ہوتا ہے۔اب اگر یہ سرحد لمبے عرصے کے لئے بند ہو گی تو یقیناً عوام پر اس کے معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گیکیونکہ دو ہفتوں میں قطری عوام ان چھ ممالک سے واپس قطر آجائیں گے۔

اللہ پاک خیر کرے ! اگر جلد یہ معاملہ نہیں سلجھا تو یہ چنگاری بھڑک کر آگ بن جائے گی اور پھر اس کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ خطے میں مذہبی منافرت کو فروغ حاصل ہوگا لیکن تازہ ترین خبروں سے محسوس یوں ہی ہے کہ دوسری بار کویت کے امیر کشتی کو اس طوفان سے نہیں بچا سکیں گے۔اور یہ کشیدگی بڑھے گی۔

امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو جس کا دوست بنا اسی کو نقصان اٹھانا پڑا ۔ امریکہ نے دوستی کے روپ میں وہ سب کیا جو دشمنی کے روپ میں بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک نظر ان ممالک پر جو امریکہ دوستی کے گن گاتے ہوئے نہیں تھکتے تھے جن میں بہت سارے اسلامی ممالک ہیں لیکن سمجھنے کے لئے صرف عراق کی بات کرتے ہیں ۔ عراق نے بھی امریکہ دوستی کی قیمت چکائی ہے۔ دنیا جو مرضی کہتی رہے کہ امریکہ نے غلط معلومات کے تحت ” عراق ‘[ کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے یا تیل کے زخائر پر قابض ہونے پر ۔ وجہ کوئی بھی ہو مگر ” قربانی عراق ” کو ہی دینا پڑی کیونکہ امریکہ دوستی کا کچھ تو انجام ہونا تھا۔ اسلامی دنیا واضح طور پر ابھی شش و پنچ میں ہے کہ کس کا ساتھ د ے اور کس کا نہیں۔ ترکی نے کھول کر قطر بائیکاٹ پر تنقید کی ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا تو لازمی طور قطر کا جھکاؤ مزید ایران کی طرف بڑھے گا۔ سمندی حدود میں بھی اس کے پاس صرف ایران اور اومان کی بند گاہ رہ جائے گی۔اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ نقصان امت مسلمہ کا ہوگا۔

امریکہ کی دوستی کے مطلق ایک بزرگ نے قصہ سنایا ہے کہ گاؤں میں ” ایک نورا ” ہوتا تھا۔ جو پورے گاؤں کے باسیوں کا دوست تھا۔ دوستی کے ناطے ہر گھر میں روک ٹوک کے بغیر آمدو رفت تھی۔ اور گاؤں والے نورا کو دوست سمجھتے تھے اس لئے ہر بات پر نورا سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ کسی بھی گھر میں نورا کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ دوسرے گاؤں کے چوروں سے نورا کے دوستانہ مراسم تھے۔ وہ بتاتا تھا چوروں کو کہ میرے فلاں دوست کے گھر چوری کر لوں اتنا مال اس اس جگہ پڑا ہوا ہے ۔ ۔ چوری کے بعد مزاکرات کے ذرئے چوری کا مال نورا دوست کی معرفت واپس ہوتااور کبھی کبھی نورا دوستی کی لاج نبھاتے ہوئے پہلے ہی بتا دیتا کہ آج فلاں گھر رات کو چوری ہونی ہے۔ جب چور پکڑا جاتا تو نورا تھانیداری کے فراہض سرانجام دیتے ہوئے ‘] اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعد معاملے کو حل کیا جاتا۔ گاؤں کے نورا چوہدری کی طرح دنیا کا نورا ” امریکہ ” ہے۔!

ابھی وقت ہے ۔ پاکستان اور ترکی کو آگئے بڑھ کر معاملے کو یہی پر ختم کروانا ہوگا ویسے بھی اب کویت نے مزاکرات کے لئے ” بات چیت ” کے فارمولے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ورنہ جنگی سازوسامان اور جنگی طیارے تیار ہیں وہ بھی مرنے اور مارنے کے لئے ” مسلمانوں ” کو مگر ریموٹ کا کنٹرول مسلمانوں کے دوست کے پاس ہے۔ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا ہو سکتی ہے۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا