قائد اعظم پلندری میں

Teacher

Teacher

تحریر: حاجی زاہد حسین خان
میانہ قد دبلا بدن سانولہ رنگ خشخشی داڑھی سر پر مراقلی ٹوپی عمر چالیس اور پچاس کے درمیان نام تھا قائد اعظم ۔ساٹھ کی دہائی تھی سدہنوتی پلندری شہر کے پرائمری سکول کی پہلی اور دوسری جماعت کے یہ استاد تھے جناب ماسٹر قائد اعظم کلاس میں آتے تو سب بچوں سے اپنی پہاڑی زبان میں مخاطب ہوتے اور پہاڑی زبان میں ہی سبق پڑھاتے صبح آتے ہی بچوں کو دعا کے لئے کھڑے کرتے پھر سبق اور تختی پڑھاتے لکھاتے اور چھٹی سے پہلے پہاڑ ے پڑھاتے سارا سکول اس آواز اک دونی دونی دو دونی چار سے گونج اٹھتا اللہ اللہ کیا ان استادوں کی زبان میں تاثیر تھی کیا مجال پورا دن ماسٹر صاحب اٹھ کر باہر جاتے اپنی مادری زبان میں گھروں میں مائیں سکھاتیں اور سکولوں میں ماسٹر صاحب پڑھاتے انکی اس طرز کی بنیادی تعلیم نے انکے بڑے بڑے کرنل جرنیل ،پروفیسر ز اور انجینئر شاگر د پیدا کئے جو آج بھی موجود ہیں۔

وہ اسادگی پسند محنتی رعب دبدبے والے نہ آج ماسٹر ز رہے اور نہ ہی استاد قارئین دراصل وہ اس وقت کا زمانہ ہی اپنی فطرت اور سادگی پر تھا۔ زندگی کا ہر شعبہ فطرت پر تھا۔ تعلیم و تربیت بھی رہن سہن کھانا پینا علاج معالجہ ایک برتن میں کھانا پکتا اور ایک ہی برتن میں کھایا جاتا ۔ مٹی کا انسان مگر مٹی کے برتن مٹی کی رکابیاں اورمٹی کے پیالے ، چٹ پٹے نہ مصالحے اور نہ کیمیکل کھادوالی سبزیاں ہمارے ہاں ساری ریاست کشمیر میں ہٹے کٹے لال سرخ رنگ دور دور نہ بیماری نہ نت نئے ڈاکٹر ز بخار پر چرائتہ پلایا جاتا اور دردوں پر میتھی کا باٹ یا گندم کا کاڑھ، آٹے کا حلوہ بخار درد ایک دو دن میں ہی چھو منتر ہو جاتا ۔ دیسی گھی دودھ اور گڑ شکر کا استعمال ہمارے گائوں کے اسی اسی سال کے بڈھے جوان صحت مند اولادیں پیدا کرتے میل جول ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے۔

حسد نہ بغض نوکری نہ چاکری جسم کی آزادی کے ساتھ زمینوں کی بھی آزادی کھیتی باڑی ہی پر گزارہ رہتا ۔ پڑھے لکھے لوگ مفت تعلیم دیتے گائوں کے ملاں مولوی صرف عربی قاعدہ پڑھاتے بس پھر تختی قلم دوات سے لکھائی پرائمری پاس لڑکے وکالت کا کام کرلیتے ملیشیا لباس اور اسی کے بستے اٹھائے تہذیب و تمدن یافتہ نسل تیار ہو کر آگے چلی جاتی ۔ گھروں میں ان پڑھ مائیں ادب سکھاتیں اپنا خالص دودھ پلاتیں ۔ اور مدرسوں سکولوں میں ہمارے ماسٹرز قائد اعظم جیسے اساتذہ علم سکھاتے اور ساتھ تہذیب بھی مگر صرف چند سالوں چند عشروں میں نہ وہ مائیں رہیں نہ ماسٹر قائداعظم نہ وہ سادگی رہی نہ تربیت اور وہ پرورش ، نہ وہ خلوص رہا نہ صحت مند معاشرہ اور تنو مند جوان نہ وہ آزادی رہی نہ تابعداری ۔ نوکریان ملازمتیں روپے پیسے کی دوڑ نے ہر شخص کو جسمانی بھی اور زہنی غلام بنا کر رکھ دیا دیکھا دیکھی برتن کانچ چینی سلور سٹیل کے آگئے ۔ ہر فرد کی اپنی اپنی پلیٹ تھالی۔

Fake

Fake

گلاس پیالی ، سبزیاں بازاروں سے گھی تیل بازاروں سے چینی چاول بازاروں سے اورتو اور ہلدی مرچی ، مرچ مصالحے وہ بھی پسے ہوئے بازاروں سے بدقسمتی سے یہ سب اشیاء ملاوٹ شدہ دو نمبر بس پھر کیا تھا دو نمبر معاشرے نے جنم لیا ۔ جس کے جوان بھی دو نمبر رنگ رنگ کی بیماریوں نے آن دبوچہ نت نئی بیماریاں نہ سمجھ آنے والی بیماریاں بچے مریل اور جوان بوڑھے ہونے لگے ۔ بیمار معاشرے میں غصہ تلخی احساس کمتری نہ ادب رہا نہ اخلاق گھر گھر لڑائی جھگڑے روحانی اعلاج رہا نہ جسمانی علاج۔ غضب خدا کا دوائیں دو نمبر ڈاکٹرز دو نمبر نہ تشخیص مرض نہ علاج مرض کورس پر کورس چندکورس کرنے والے موت کے منہ میں دھکیلے جانے لگے ۔ اوپر سے ہر مرد وزن خود ڈاکٹر اورحکیم بن گیا۔ آٹے سودے کی جگہ دوائیوں گولیوں کے گودام کھل گئے۔

جہاں سب کو ہر گولی پیٹ کے درد سے یرقان جریان جیسے امراض کی دوائیں خریدی جانے لگیں امراض اس قدر اللہ کی پناہ ۔ ہسپتال جہاں ڈاکٹر قصائی بن بیٹھے دوکاندار تاجر بن بیٹھے ہیں تو حکیم کے دوا خانے بھی آباد خانقائیں پر رونق اللہ کے یہ مظلوم بیمار بندے دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ کسی کو سمجھ نہیں آتی کیا کروں کہاں جائوں اللہ ہی جانے اب کے ہمارے موجودہ معاشرے کا کیا بنے گا۔ الامان والحفیظ ۔ خوراک کا دو نمبر دوائوں کا دونمبر حتی کہ نئی نسل ہی دو نمبر ۔ ڈبوں کا دودھ پینے والے بچے صحت گنوارہے ہیں۔ تو مائیں اپنے فگر بتا رہی ہیں۔ تعلیم کے نام پر نت نئے بیکن سکول، ہاورڈ اور پرائمری آکسفورڈ سکول ، تجارت کر رہے ہیں۔

ماں جیسی علاقائی بولی نہیں رہی۔ یورپی امریکی اور فرانسی طرز کی انگلش نے تو نہال بچوں اور ان والدین کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ فطرت رہی نہ فطرتی تعلیم ۔ اللہ تو اپنے بندوں پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا۔ گزشتہ زمانوں میں بھی نبی آتے رہے رسول آتے رہے۔ ان پر کتابیں نازل ہوئیں۔ مگر وہ بھی انکی مادری زبانوں میں ، کبھی عبرانی میں کبھی عربی میں حتی کہ ہمارے آخری نبی اور رسول ۖ پر قرآن اتارا تو انکی قومی آبائی زبان عربی میں مگر ہمارے آج کے دانشوروں مدبروں نے تعلیم کو بیگانا بنا دیا۔

Languages

Languages

معصوم بچے اپنے مادری زبانوں کی جگہ اردو انگلش کو مشکل زبان بنا کر چاٹ رہے ہیں۔ ہمارے بچے ہم سے پوچھتے ہیں بابا یہ اک دونی دونی دو دونی کیا ہوتا ہے ہم انہیں کیا جواب دیں ۔ یہ ایک گھرانے کا مسئلہ نہیں یہ تو آج ہمارے سارے معاشرے اور پاکستان کا مسئلہ بن چکا ہے۔ کوئی ہے جو ہمارے وہ ملک بنانے والے ۔ ملک چلانے والے۔ اور درختوں چٹایوں پر درس و تعلیم دینے والے قائداعظم کہاں سے لائیں آج ہمارے اس دو نمبر معاشرے میں قائداعظموں کا کیا کام ایک بڑے جہاد کی ضرورت ہے۔ جہاد صرف بندوق اٹھانے کا نام نہیں ہے۔ اپنے معاشرے کو درست کرنے کے لئے اپنے بچوں کو اس طرز کی تربیت دینے کے لئے تعلیم دینے کے لئے جدوجہد کرنے کا نام بھی جہاد ہے۔

آئو ہم سب ملکر اپنے معصوم بچوں کو ٹفن ٹوکری پینٹ کوٹ گدھے جیسے وزن کے بستوں سے جان چھڑائیں ہیلو ، ہائے ، یو ، می ،مام ، ڈیڈ جیسی بد تمیز زبان سے جان چھڑائیں اور انہیں واپس امی ابو بابا کی تمیز دار زبان سکھائیں ۔ اردو عربی ، ریاضی اور تاریخ اور جغرافیہ پڑھائیں۔ قلم دوات اور تختی سے خوشخط بنائیں ۔ سادگی ، عاجزی اپنائیں دیسی خوراک اور ادویات کا استعمال بڑھائیں مٹی کی تھالیاں اور پیالے واپس لائیں۔ ایک برتن میں پکائیں اور کھائیں۔

Mother

Mother

خدا کے لئے مائیں اپنے فطری دودھ سے اپنے بچوں کو پالیں اور نام نہاد دایوں سے انہیں واپس لے کر اپنی گود میں کھلائیں سلائیں۔ اور درختوں کے نیچے اور چٹایوں پر اک دونی دونی والے ہمارے دیسی قائداعظم جیسے ماسٹرز ڈھونڈ کے لائیں۔ تاکہ پھر سے نصف صدی پرانے والا ہمارا فطری معاشرہ واپس لوٹے اور نئی نسل پر وان چڑھ سکے۔ انشاء اللہ

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

تحریر: حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر
hajizahid.palandri@gmail.com