قطری سرمایہ کاری کے بدلے لندن فلیٹس کا ملنا محض افسانہ ہے: جے آئی ٹی

 JIT

JIT

اسلام آباد (جیوڈیسک) جے آئی ٹی نے اپنی 256 صفحات پر مبنی رپورٹ میں شریف خاندان کے رہن سہن اور ذرائع آمدن کے درمیان عدم توازن کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، نواز شریف، حسن اور حسین کے مالی معاملات کا معاملہ نیب کے سیکشن 9 کے تحت آتا ہے۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتا سکے، بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی، ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی، یو اے ای کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں کے ذریعے کی گئیں، برطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبار سے کئی آف شور کمپنیز بھی لنک ہیں اور وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی ظاہر آمدن اور اثاثوں میں واضح تضاد ہے۔

رپورٹ میں جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی منی ٹریل پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ مریم نواز کی نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی ملکیت ثابت ہو گئی ہے، شریف خاندان کی بڑی رقوم اور تحائف میں بہت بے ضابطگیاں ہیں، وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی ظاہر آمدن اور اثاثوں میں واضح تضاد ہے۔

پانامہ کیس کی تحقیقات میں مصروف جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی اور نوے کی دہائی میں آف شور کمپنیاں بنانے کے وقت نواز شریف کے پاس سرکاری عہدہ بھی تھا، یو اے ای کی کمپنی ایف زیڈ ای سے بھی غیرقانونی ترسیلات کی گئیں، یہ کمپنیاں بینکوں اور دوسرے اداروں سے قرض لے کر بنائی گئیں، کمپنیوں کے قیام کے وقت معمولی رقم مالکان نے اپنی طرف سے دی، اکثر کمپنیاں مکمل طور پر فنکشنل نہیں ہیں یا خسارے میں جا رہی ہیں، ان کمپنیوں میں محمد بخش ٹیکسٹائل ملز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی، حمزہ بورڈ ملز، مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز شامل ہیں۔ خراب کارکردگی اور نقصان میں جانے کے باعث چند سالوں کے علاوہ ان کمپنیوں کے منافع کو ظاہر نہیں کیا گیا۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق، مریم نواز نیلسن اور نیسکول کی بینفشری مالک ہیں، شریف خاندان کے کاروبار سے کئی آف شور کمپنیاں منسلک ہیں، الانا سروسز لمیٹڈ، کومبر گروپ اور ہلٹن کے ذریعے پیسہ گردش کرتا رہا، سعودی کمپنی ہل میٹل، برطانوی کمپنی فلیگ شپ سے غیرقانونی ترسیلات کی گئیں۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف خاندان کی 3 مزید آف شورکمپنیز کا انکشاف بھی ہوا ہے جو کہ الانا سروسز، لینکن ایس اے اور ہلٹن انٹرنیشنل سروسز ہیں۔ اس سے قبل نیلسن، نیسکول اور کومبر گروپ نامی کمپنیز منظرعام پر آئی تھیں۔ آف شور کمپنیز برطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ آف شور کمپنیز برطانیہ میں موجود کمپنیوں کو رقم فراہمی کیلئے استعمال ہوتی ہیں، ان کمپنیز کے پیسے سے برطانیہ میں مہنگی ترین جائیدادیں خریدی گیئں، پیسہ برطانیہ، سعودی عرب، یو اے ای اور پاکستان کی کمپنیوں کو بھی ملتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف اور حسین نواز یہ فنڈز بطور تحفہ اور قرض وصول کرتے رہے، تحفے اور قرض کی وجوہات سے جے آئی ٹی کو مطمئن نہیں کیا جا سکا۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ طارق شفیع بی سی سی آئی کے 9 ملین درہم کے ڈیفالٹر تھے، یو اے ای حکومت نے طارق شفیع کے تمام ریکارڈ کو جھٹلایا، ال آحالی سٹیل کی فروخت کا معاہدہ جعلی ہے، 1980ء میں ال آحالی سٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا ریکارڈ موجود نہیں ہے، ڈیکلریشن آف ٹرسٹ سے متعلق خود ساختہ رپورٹس جمع کرائی گئیں۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں قطری شہزادے کی جانب سے سرمایہ کاری کی تفصیلات کو جعلی قرار دیدیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطری شہزادے کی فراہم کردہ تفصیلات خودساختہ ہیں، قطری دستاویزات شریف خاندان کی منی ٹریل کا خلاء پر کرنے کیلئے بنائی گئیں، مریم اور حسین نواز کے درمیان لکھی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی قرار دیدی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلاشبہ مریم نواز لندن فلیٹ کی مالک ہیں، حسین، حسن، مریم نواز کی فراہم کردہ دستاویزات خودساختہ ہیں، لندن فلیٹس 1993ء سے شریف خاندان کے زیراستعمال ہیں، لندن فلیٹس پر قبضے کے حوالے سے نواز شریف اور بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مؤقف بار بار تبدیل کرتے رہے، مریم نواز اور حسین نواز نے آف شور کمپنیوں کے بیرئر سرٹیفکیٹس کبھی دیکھے ہی نہیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ لندن کے فلیٹس قطری خاندان کی جائیدادیں نہیں تھیں، قطری سرمایہ کاری کے بدلے لندن فلیٹس کا ملنا محض افسانہ ہے۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بادی النظر میں 1981ء سے 2002ء کے دوران ٹیکس چوری کیا۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے انکم ٹیکس ریٹرنز ہی جمع نہیں کرائے۔ دو ہزار آٹھ اور دو ہزار نو کے درمیان ان کے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر انہوں نے اس عرصے میں اپنے ذرائع آمدن نہیں بتائے۔

جے آئی ٹی کے مطابق اسحاق ڈار نے اپنے ہی ادارے کو 169 ملین روپے خیرات کئے مگر یہ رقم اپنے پاس ہی رکھی اور ویلتھ سٹیٹمنٹ میں اس کو ذاتی خرچ ظاہر کیا۔ انہوں نے اتنی بڑی رقم پر ٹیکس استثنیٰ لیکر دراصل ٹیکس چوری کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز کے اثاثوں کے تجزیئے اور ایف بی آر ریکارڈ کے مطابق انہوں نے نہ صرف اثاثے چھپائے بلکہ ٹیکس چوری بھی کی۔ ذرائع آمدن کے بغیر کروڑوں روپے کا قرض بھی دیا۔ دو ہزار آٹھ میں کروڑوں روپے تحفے میں وصول کئے اور اس سے زرعی زمین خریدی۔ انہوں نے یہ کام فنڈز کو قانونی بنانے کیلئے کیا۔

جےآئی ٹی کے مطابق زرعی اراضی خریدنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے آمدن ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی کے اثاثے بادی النظر میں ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر پبلک کر دی گئی ہے۔ تاہم رپورٹ کا والیم 10 جو کہ دیگر ممالک سے متعلق ہے، اسے جے آئی ٹی کی درخواست کے مطابق، پبلک نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل اور دیگر ماہرین قانون نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ حکومت اور پی ٹی آئی کو فراہم کر دی گئی ہے۔