رمضان المبارک اور آوز کشمیر

Kashmiri People

Kashmiri People

تحریر : محمد عبداللہ
وہ افطاری، سحری کے اوقات کے لیئے گھڑیوں اور ٹائم ٹیبل کو پاکستان سے منسلک رکھتے ہیں۔ عید پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں، روزہ پاکستان کے ساتھ رکھتے، افطار کرتے ہیں، انکی موبائل ٹیونز پاکستان کا قومی ترانہ اور پاکستانی ملی نغمے ہیں۔وہ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں، اپنے شہدا کی میتوں کی تدفین پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر کرتے ہیں۔وہ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں پاکستانی مخلص، نظریاتی عوام کے دل انکے ساتھ دھڑکتے ہیں، وہ پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگاتے ہیں۔مگر پاکستانی حکمران ، میڈیا انکی امنگوں پر زرہ برابر بھی پورا نہیں اتر رہے مگر وہ مایوس نہیں۔ وہ اپنے مقدمے کو نہتے لڑتے ہوئے اپنے عروج پر لے جا چکے ہیں ۔ اب پاکستان کو اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ رقم بالا سطور کشمیر ،کشمیری عوام کے جذبات پر مشتمل ہیں۔

بھارتی فوج کا ظلم اور کشمیریوں کی لا زوال جدو جہد ایک نا قابل فراموش داستان ہے۔ایک یاد گار دعوت افطار میں ندیم اعوان صاحب بھی اسی طرح کی باتوں، اطلاعات،رپورٹس سے آگاہ کر رہے تھے ، برادرم احمد اجمل صاحب کالم نگاروں ، بیورو چیف، ریذیڈنٹ ایڈیٹرز، رپورٹرز، اینکرز کا استقبال کرتے ہوئے انہیں مقامی میرج ہال کے مرکزی دروازہ سے لیکر ہال میں موجود مخصوص نشستوں تک ہمراہ آنے اور جانے میں مصروف عمل تھے کہ اس دوران ہال میں پروفیسر عبدالرحمن مکی صاحب کی آمد ہوئی وہ اپنی مخصوص نشست پر تشریف فرما ہوئے تو صحافیوں، کالم نگاروں سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہایت فکر انگیز، مبنی بر حقیقت گفتگو کی اور پاکستانی حکمرانوں، میڈیا کو خوب جھنجھوڑاکہ حکمران ، میڈیا پرسنز ملک کی شہہ رگ پر ہونے والی بر بریت سے پہلو تہی کیئے ہوئے اور آنکھیں بند کیئے ہوئے ہیں جوکہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔

رمضان المبارک میں ہر طرف افطار ڈنر کا دور دورہ ہوتا ہے مگر یہ مخصوص افطار ڈنر ایسا تھا کہ ایک فکری نشست کی حیثیت اختیار کر چکا تھا کیونکہ اس افطار ڈنر میں ایک حقیقی فکر کو عزم تجدید عہد اور توجہ، اعادہ کے لیئے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا تھا۔جنوبی پنجاب کے معروف ، سینئر فوٹو جرنلسٹ شیخ فیصل کریم کی ہمراہی میں میں یہاں تک پہنچا تھا کہ ہال میں جنوبی پنجاب بالخصوص ملتان کے قلم کاروں کا فخر، حق گو، نڈر کالم نگار محترم سجاد جہانیہ صاحب کی قرابت، رفاقت میں نشست میسر آئی ۔ محترم مکی صاحب کی جامع پر مغز گفتگو کے دوران جہانیہ صاحب کے ساتھ برجستہ جملوں کا خوبصورت تبادلہ خیال جاری رہا اور راقم نے ان سے خاصا استفادہ کیا۔جبکہ معروف دانشور پروفیسر علی سخن ور، جناب شوکت اشفاق صاحب، جناب مظہر جاوید صاحب ملتان کے سینئر ترین تجربہ کار صحافی،جناب عبدالجبار مفتی صاحب،اعجاز ترین ، نشید بھائی، صہیب بھائی، مظہر خان، رانا عرفان الاسلام،شفقت بھٹہ، عادل نظامی ،سمیت ملتان کے آسمان صحافت کے تقریبا تمام ماہتاب وآفتاب یہاں موجود تھے۔ محترم مکی صاحب نے امیر المجاہدین جناب پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب کا کشمیر کے حوالے سے موثر پیغام یہاں موجود صحافیوں تک پہچایا اور کشمیریوں کی آواز، انکی جدو جہد کو اپنے پروگرامز ،کالمز، رپورٹس ، فیچرزوغیرہ کا حصہ بنانے کی بجا طور پر بات کی۔یہ بجا طور پر اپنی نوعیت کی منفرد دعوت افطار تھی جس میں کثیر تعداد میں شرکا، مہمانوں کے با وجود منظم نظم وظبط قابل دید تھا۔ جوکہ انتظامیہ کے حسن انتظام کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ یہاں یہ بات بھی بجا طور پر قابل ذکر ہے کہ اس قدر منظم ، وسیع انتظامات، کامیاب دعوت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ محترم میاں سہیل صاحب انتہائی جانفشانی کے ساتھ تما م تر امور کی نگرانی خود کر رہے تھے اور ہر انتظامی موڑ پر دکھائی دیئے۔یقینا افطاریاں جاری وساری ہیں اور دعوتیں سارا سال جاری رہتی ہیں۔ مگر ایسے موقع پر اس قدر خوبصورتی کے ساتھ ایک اہم تحریک جوکہ اپنے اہم مور پر پہنچ چکی ہے اس کی جانب توجہ مبذول کروانا انتہائی مستحسن اقدام ہے۔ یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ جہاں مختلف اوقات میں بھارتی فوج معصوم کشمیریوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتی ہے وہاں رمضان المابرک میں اس قدر درندگی کا مظہارہ کیا جارہا ہے کہ نماز تراویح ادا نہیں کرنے دی جارہی، افطاری کا سامان نہیں لینے دیا جاتا نماز فجر ادا نہیں کرنے دی جاتی مگر اس سب کے با وجود پاکستان کی طرف سے مسلسل خاموشی افسوسنا ک امر ہے۔

اس ساری درندگی کے با وجود کشمیریوں کے جذبے ماند نہیں پڑے انہوں نے تحریک کو اپنے بام عروج پر پہنچا دیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی میڈیا کشمیریوں کی آواز بنے۔ یقینا حکومت نے اپنی مسئلہ کشمیرکے حل سمیت دیگر ذمہ داریوں کو ادا کیا ہوتا تو ملک صحیح ڈگر پر چل رہا ہوتا ۔کیونکہ کشمیر میں قدرتی وسائل کی بے بہا نعمتوں کے انبار موجود ہیں مگر یہاں تو خیر سے لیکس اور جے آئی ٹی سے فرصت نہیں ہے تو کوئی طوفان بد تمیزی کی سیاست کرتے ہوئے آج تک دھاندلی کا رونا رو رہا ہے۔ اور کوئی ختم شدہ پارٹی کے مسقبل نچانے کی فکر میں مداری پن کا مظاہرہ کر رہا ہے کشمیر کسی کو یاد نہیں۔ بڑی بڑی رمضان ٹرانسمیشن چل رہی ہیں مگر کشمیریوں کا رمضان میں کیا حال ہو را ہے اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔

اس ضمن میں رمضان میں بھی کشمیریوں کی آواز بننے والے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔یہ بات افسوسناک ہے کہ کشمیر ایشو پر جب بھی بات کی جاتی ہے تو دہلی اور اسلام آباد براہ راست اور ڈائریکٹ ہو جاتے ہیں کشمیر کو ، کشمیری نمائندگی کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ اور ہٹ دھرم بھارتی، امریکن لونڈی اقوام متحدہ کو اپنی ستائیس کے قریب قراردادوں میں سے ایک پر بھی عملدرآمد کرانے کی توفیق نہیں۔بلاشبہ مظفر برہان وانی شہید سمیت کسی بھی کشمیری شہید کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔کشمیر ضور پاکستان کا حصہ ہو گا اگر حکمران سنجیدہ ہو جائیں اور بانی پاکستان کے فرمان کشمیر شہہ رگ کو بچانے کے لیئے پر عزم اور مخلص ہو جائیں تو منزل دور نہیں کیونکہ کشمیر میں تو آٹھ سالہ بچے اور اسی )80) سالہ بوڑھے کی ایک ہی آواز ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ بار دیگر رمضان میں بھی آواز کشمیر کی بلندی، ترویج کرنے والوں کا شکریہ۔

Muhammad Abdullah

Muhammad Abdullah

تحریر : محمد عبداللہ
qmuhammadabdullah@gmail.com
03075922192