پچاس سال پہلے کا رمضان

Ramadan

Ramadan

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
کمال کا رش پڑ گیا ہے بازاروں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں فروٹ کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے یہ رونا شائد ان چند سالوں میں ہوا ہے پہلے تو کبھی ایسا نہ تھا میں چند ایک ماہ میں باسٹھ برس کا ہو جائوں گا میرے سامنے میری یادداشت کم ازکم باون برس کی تو ہو گی روزے وہ لوگ بھی رکھتے تھے شائد اس زمانے میں پورا پاکستان ہی غریب تھا کھانا کو کم ہی ملتا تھا لیکن لوگ زندہ تو تھے یہ جو دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے یہ میں ان حالیہ چند سالوں میں دیکھ رہا ہوں اس میں بڑا ہاتھ ان ٹی وی چینلوں کا بھی ہے حرام ہے کہ کوئی چینیل بچیوں یا خواتین خانہ کو یہ بتا رہا ہوکہ سحری کے انتظام میں نماز قران کی تلاوت دن بھر کی مصروفیا ت میں اللہ کی کتاب سے لگائو غریبوں کا خیال کرنا یہ چیزیں کدھر گئیں دو بجتے نہیں ہیں کہ خواتین کو نت نئی ڈشوں کو سکھانے کی ترغیبات دینی شروع ہو جاتی ہیں ہم نے بھی روزے رکھے تھے پہلے پہل تو چڑی روزہ رکھا یہ چڑی روزہ ہے کیا؟یہ ہمارے بچوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ آپ بھی اٹھیں سحری کریں نماز پڑھیں اور سب کے ساتھ مل کر روزہ رکھیں دعائیں پڑھیں علموں بس کری او یار اب بتایا جاتا ہے جی وبصوم غدا نویت من شہر رمضان کی تو دعا ہی غلط ہے گویا ہم ایویں ای مغز ماری کرتے رہے۔

ماں جی جب پراٹھے بنا رہی ہوتیں تو دیسی گھی کی خوشبو نتھنوں میں گھس جانے پر آنکھ کھل جاتی ہم بھی سیڑھیوں کے نیچے بنے چولہے کے پاس پہنچ جاتے سخت سردیوں کے روزوں میں ہمارا بچپن گزرا کوشش ہوتی کہ چولہے کے پاس نمبر آ جائے بھائیوں میں کھینچا تانی لگی رہتی کہ پہلے ادھر کون بیٹھے گا۔جگہ مل جانے کے بعد پہلی روٹی کس کی پر تکرار ہو جاتی سب کو مل ہی جاتی قبلہ والد صاحب کے سامنے گول میز رکھ دیا جاتا وہ اکیلے کھاتے تھے چھوٹے سے اس گول میز پر ان کے لئے کھانا رکھ دیا جاتا رات کا سالن دہی اور پراٹھے چائے۔ہم سب کے لئے چائے الگ بنتی اور قبلہ والد صاحب کے لئے ایک چھوٹی سی گڈوی میں بنائی جاتی ہماری چائے گڑ کی ہوتی کافی پتلی ہوتی کبھی کبھار ہماری ڈیوٹی بھی لگا دی جاتی کہ چائے سے میل اتاری جائے اب یہ منحصر ہوتا کہ گڑ کون سا ہے جتنا میلا گڑ ہوتا اتنی میلی چائے۔چینی الگ سے رکھی جاتی جو کسی مہمان کے لئے استعمال کی جاتی تھی یہ تھی سحری دو پراٹھے رات کا سالن یا ماجھے کی دکان کا دہی اور اوپر سے چائے۔اب اس کے بعد نماز کے لئے مسجد جانا اور وہاں سے واپسی پر رضائی میں بیٹھ کر قران کی تلاوت کئی بار ایسا ہوا کہ رمضان میں تین تین بار قران پڑھا البتہ زندگی میں ریکارڈ اس وقت قائم ہوا۔

جب جدہ کی ترحیل جیل میں ہمیں جنرل اسد درانی نے مشرف دور میں بند کرایا ہم اس وقت دن میں دس سیپارے پڑھا کرتے تھے اور ایک لاکھ بار درود شریف ۔باہر آنے کے بعد ان پندرہ سالوں میں وہ عبادت نہ ہو سکی جو ان اکہتر دنوں میں ہوئی۔خیر میں بات کر رہا تھا ان دنوں کی بڑے بھائی اور بڑی بہن کے ساتھ مسابقت رہتی کہ کون زیادہ پڑھے گا بے جی بہت آہستہ پڑھتی تھیں پہاڑی طرز میں تلاوت کرتیں تو سماں بند جاتا بعد میں تبلیغی جماعت میں شامل ہوئیں تو دو بارہ قران سیکھا آج اللہ کے کرم سے بے جی کے نقش قدم پر ان کی پوتیاں چل رہی ہیں اور جو جدہ میں ہے اسے تو نکی بے جی کہتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ روز نیا پھڈہ رہتا ہے کہ کون کہاں کس پارے پر ہے ہم آگے پیچھے ہی تھے ایک دن فجر کی نماز کے بعد میں مسجد میں ایک کونے میں قران لے کر بیٹھ گیا سوچا یہ روز کی لڑائی سے جان چھٹے میں نے سردیوں کی اک اتوار کو دس سیپارے پڑھ ڈالے اگلے روز جب رضائیوں میں دھبک کر قران کھلے تو سب کی آنکھیں کھلی رہ گئیں مجھے چیلینج کیا جا رہا تھا کہ کہ تم غلط کر رہے ہو دھوکہ دے رہے ہو میں نے کہا میرا اللہ جانتا ہے اور قران ہاتھ میں ہے میں جھوٹ نہیں بولتا یو ں میں نے مقابلہ بازوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔سب کچھ محنت سے ہوتا ہے۔

میری زندگی میں کسی کو پیچھا چھوڑنے کے لئے اتنا گیپ ضروری ہے اور اس کے لئے محنت کرتا ہوں یہی چیز بچپن میں گجرانوالہ کے محلے باغبانپورے کا رہائیشی افتخار کرتا رہا۔افطاری کا شوق اپنی جگہ مگر سحری کے وقت جو رونق ہوتی اس کے کیا کہنے کوئی ڈھول والا آ جاتا کوئی ٹولی نعتیں پڑھتی نکل جاتیں افطار سے پہلے لوگ آتے عرش بریں تئے آ ذرا میرے محمد پیارایا یہ اب تک کانوں میں رس گھول رہی ہے۔والد صاحب بڑے مزے کی عادتوں کے حامل تھے سخت غصیلے مگر مزاح کی حس بھی سب سے اعلی تھی بڑے کھڑپینچ بی ڈی ممبر مصالحتی کمیٹیوں کے چیئرمین گھر میں ایک چھوٹی سی بیٹھک تھی ان کا روم وہی تھا ایک ٹین والا روز ان کی کھڑکی کے پاس آ کر ڈنڈہ ٹین میں گھما دیتا جس سے بڑی بے ہنگم آواز آ تی تھی ایک بار انہوں نے اسے سمجھایا کہ یہ نیک کام کسی اور جگہ کر لیا کر۔مگر وہ باز نہ آیا ایک دن انہوں نے اس سے ڈنڈا اور پیپا چھین لیابے جی بڑی نرم خو تھیں کہنے لگیں اللہ کا بندہ ہے لوگوں کو جگاتا ہے ایسا نہ کریں اللہ غصے ہو جائے گا کہنے لگے اللہ کو پتہ ہے میں ٹائم پر جاگ جاتا ہوں یہ لوگ جاگے ہوئوں کو کیوں جگاتے ہیں۔ہم پانچ بھائی اور ایک بہن ہیں ہر کوئی اپنے طور پر تیز و طرار اور شرارتی ہیں مگر سجاد کا جواب نہیں سجاد اور اس کا دوست ساجد محلے کے انتہائی شرارتی لڑکوں میں شمار ہوتے تھے۔

ایک بار والد صاحب کے سامنے افطار کا سامان رکھا ہوا تھا سامان کیا تھا کھجوروں کے چند دانے اور رنگیلا پانی وہ افطار کے بعد نماز کے لئے چلے جاتے ایک دن کیا ہوا سجاد چھت پر چلا گیا اور افطار کے منتظر والد صاحب کان لگائے اس بات کے منتظر تھے کہ کب اذان ہو ایسے میں اوپر سے آواز آئی بلکل محلے کی مسجد کے موء ذن کی طرح کی آواز مگر یہ سجاد نے کوئی افطار سے پانچ منٹ پہلے اذان دے دی والد صاحب نے روزہ کھول دیا جیسے ہی پتہ چلا سجاد کی آوازیں چھت سے آنا شروع ہو گئیں والد صاحب بائیں ہاتھ سے دھلائی کرنے میں بڑے ماہر تھے اگلا بندہ سمجھتا کہ دائیں سے پلٹیں گے مگر بائیں ہاتھ سے باٹا کا کورڈ برائون سلیپر بندے کی باں باں کرا دیتا تھا۔ایک رمضان میں ہوا یوں کہ ہم لوگ اپنی اپنی مسجد کی اذانوں پر روزہ کھولتے تھے کافی دیر ہو گئی اذان کی آواز نہ آئی غصے میں مسجد چلے گئے وہاں دیکھا کہ موء ذن چاول کھا رہا تھا اسے خوب سنائیں ۔ہم ان دنوں اس معاملے میں پھنسے رہتے اگر کھجور نہ ملے تو روزہ کس سے کھولنا ہے اکثر اوقات میز پر نمک رکھ کر پانی پی کر روزہ افطار ہو جاتا ایسے میں ہماری خواہش ہوتی کہ محلے کی مسجد میں روزہ کھولا کریں میں بھی غائب ہو جاتا وہاں چنے والے چاول آیا کرتے تھے آج بھی میری پسندیدہ ڈش میں وہ چاول ہیں ایک تو بالو کڑیو شیرینی ونڈی دی آواز اب بھی کوئی لگائے تو ہو سکتا ہے میں دوڑ پڑوں جھولی پھیلا کر اس میں اچھے خاصے چاول اکٹھے ہو جایا کرتے تھے ایک ڈائیلاگ میرے بھرا دی وی دے۔

یہی چیز ہمارے معاشرے کی جڑ میں بیٹھی ہوئی ہے لوگ اپنا حصہ بھی لیتے ہیں اور اقرباء کو بھی کھلانے پلانے میں مصروف رہتے ہیں کسی محفل میں جائیں ایک پر بیٹھیں ہوں گے دوسری پر موبائل چابی رکھ دیں گے کہ یہ میرے دوست کے لئے ہے یورپ میں ایسی کوئی خرافات نہیں چلتی فرسٹ کم فرسٹ۔ رمضان میں نمازیں قران اپنی جگہ لیکن پتنگیں چڑھانا ہمارا شوق تھا چھتوں پر اچھل کود معمولی بات تھی ایک بار افطار میں دیر ہو گئی میں پتنگیں لوٹنے گیا ہوا تھا رفیق شیخ کے کوٹھے پر شام کے وقت ایک گڈی آئی میں اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا مجھے بلکل احساس نہیں رہا کہ ساتھ میں خالی صحن ہے میں دوڑتا دوڑتا آگے بڑھا تو میں نے دیکھا اصغر شیخ ارشد اکرم بہن سیماں یہ لوگ چارپائی پر افطاری کی تیاری کر کے بیٹھے ہوئے ہیں گڈی ہاتھ لگ چکی تھی مگر میں فل سٹاپ نہیں لگا سکتا تھا میں نے چھت سے صحن میں چھلانگ لگا دی چاولوں والی کنالی میں گرا اور گرنے کے ساتھ ہی چارپائی بھی ٹوٹ گئی میں اٹھا اور گڈی لے کر بھاگ گیا اللہ تعالی خالہ شیخنی کو جنت میں جگہ دے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو کر شکائت لگانے آ گئیں والد صاحب گرامی نے حسب عادت باٹا کے سلیپر سے تواضح کی۔

نماز تراویح کے دوران لڑکے شرارتیں کرتے پہلی رکعت کے آخر میں دگڑ دگڑ کر کے شریک ہوتے آٹھ اور بیس تراویح کا پھڈہ چلتا رہتا وہابیوں کی مسجد میں کوئی بھی نہ جاتا پتہ نہیں کیا مدرسہ سے تربیت ملی کہ آج تک میں وہاں نہیں گیا البتہ دیوبندیوں کی مسجد میں جاتا رہا۔یہ لوگ بیس تراویح پڑھاتے۔اللہ قاری یوسف کو صحت اور تندرستی دے۔ان کے پیچھے قران سنتا رہا۔رمضان کے آخری عشرے میں عبادات پر بھی زور رہتا مگر صاحب لوگ اس معاملے میں اپنا زور پتنگ بازی اور اس سے جڑے معاملات میں لگانے میں مصروف رہتے ایک بار رمضان میں سوچا یہ جو بچے ہیں یہ بھی تو لکھتے ہیں میں نے ایک کہانی بچوں کے جنگ میں بھیج دی یہ غالبا ١٩٦٦ کی بات ہو گی بمشکل گیارہ سال عمر ہو گی چھٹی جماعت کا طالب علم ہوں گا کہانی چھپی تو میں محلے کے لڑکوں کو بتاتا رہا کوئی ماننے کو تیار نہ تھا عجیب و غریب فقرے کستے تھے۔میں نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ کام کرتے چلے جائو آپ کی ستائیش وہ ہے جو کوئی خود کرے کسی کو کہہ کر واہ واہ کروانا کوئی کام نہیں۔مجھے وہ لوگ ناپسند ہیں جو ہر وقت ستائیش کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔بات کہاں سے کہاں جا نکلی آج کل کے افطار کے دستر خوان اس قدر سجا دئے جاتے ہیں کہ ہر کوئی اپنی پسند کو میز پر دیکھنا چاہتا ہے کئی رنگوں کے مشروب دہی بھلے فروٹ چاٹ سوپ میرے اللہ انسان آج کے زمانے میں اور خاص طور پر رمضان میں تین گنا کھا جاتا ہے بمقابل عام دنوں کے کوئی مانگنے آ جائے تو جھڑک دیا جاتا ہے۔کیا ہمارے بچے قران خوانی میں ایک دوسرے کامقابلہ کر رہے ہیں کیا ہم سادہ کھا رہے ہیں؟سچ پوچھیں اگر ایک ہفتہ ہم وہی کھائیں جو عام دنوں میں کھاتے ہیں تو قیمتیں نیچے آ جائیں سپلائی چین کا بیلینس ہی قیمتوں کو مستحکم رکھتا ہے کوشش کریں ۔اللہ ہمیں اچھا بنا دے۔ آمین۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری