انجام گلستاں کیا ہو گا؟

Ramadan

Ramadan

تحریر : شاہ بانو میر

قیامت سے پہلے علم اٹھ جائے گا جہالت عام ہو جائے گی اور واقعی آج یہی کچھ ہو رہا ہے ماہ مبارک رمضان میں ٹی وی نشریات پر جس قسم کی بے ہنگم بے مقصد نشریات نشر کی جا رہی ہیں پوری دنیا میں پاکستان کو ہی نشر کر دیا ہے پورا سال گناہوں غلطیوں کا مرقع یہ انسان جب تھک کے چور ہو جاتا ہے تو اللہ رب ا لعزت کی دہلیز چاہیے جہاں سر ٹیک کر رو سکے دل ہلکا کر کے استغفار کی مدد سے ہلکا ہو سکے
ایسا ایک رحمتوں برکتوں کا مہینہ اور پھر اس مہینہ میں ایک رات لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر رات اللہ پاک عطا فرماتے ہیں
توبہ کرنے والے بندوں کیلئے
رمضان کو جس نے اخلاص کے ساتھ گزارا اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے
روزہ رکھ کر ہر روزہ دار محتاط ہو کر دن گزارتا ہے کہ اس کی مزدوری بہت مشکل ہے جس کا معاوضہ بہت حسین ہے
روزہ دار کے منہ کی بُو کو مشک سے زیادہ پسند کیا گیا ہے
ایسے ایک مہینے میں شیطان کو قید کیا جاتا ہے
اور
یہ انسان خود اپنے نفس پر ضبط کے پہرے لگا کر کرتا ہے
ہر بری سوچ سے برے عمل سے خود کو بچا کر روزہ سنبھالتا ہے
مگر
یہ باتیں تو اب فرسودہ ماضی بعید کے قصے ہو گئے
اب ہم جدت پسند ہو گئے
مگر یہ جدید جاہل نہیں جانتے کہ اللہ نے جو کہ دیا وہی ہوگا
اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں جاتا
لہٰذا
رمضان کو گزارنا عبادت کے ساتھ روزہ کے ساتھ اور اعتکاف کے ساتھ اللہ کے حکم ہیں
آج قرآن سے عاری اللہ سے بے خوف یہ نمائشی لوگ نجانے کس دنیا میں جی رہے ہیں
نہ روزے رکھنے کی سعادت نہ روزہ کی اہمیت سے واقف
ایسے لوگ ٹی وی پر اپنی چرب زبنانی کی وجہ سے نمائشی رمضان دکھا کر عوام الناس کو
گمراہ کر رہے ہیں
پیسے کے غلام جہنم کے داروغے کو دیکھ کر تھر تھر کانپیں گے کہ کیوں یہ ظلم اپنی جانوں پر کیا؟
میک سے مرصع چہرے بھڑکیلے چمکتے ملبوسات دلہنیں بنیں خواتین لٹک مٹک کر ادائیں دکھاتی ہوئیں
بغیر روزے کے ہی افطار کر رہی ہیں
ستم بالائے ستم
ا غیر شرعی مخلوط افطاری اور سحری کو جائز قرار دینے کیلئے ایک گستاخ کی یہ جرآت کہ وہ اسے حج سے تشبیہ دے ٌ
اس ظالم کو معلوم ہی نہیں
کہ
روزہ صبر آزما اور مشقت ہے جس میں انسان پیاس کی شدت حلال نعمتوں سے دور رہتا ہے
زبان کی حفاظت کرتا ہے
عمل پر نگاہ رکھتا ہے
رزق کے حصول کو حلال حرام سے پرکھتا ہے
جواب دینے اور سوچنے میں محتاط ہوتا ہے
رویّے میں تحمل اور عاجزی لاتا ہے
کہ اس کا روزہ محفوظ رہے اور اس کو کوئی ضرر نہ پہنچے
مگر یہ احتیاط اس کے لئے ہے جس نے حقیقی معنوں میں روزے کی روح کو سمجھ کر اس کو مکمل انداز سے رکھا ہو
وہ لوگ جو روزہ محض سیاسی فوائد حاصل کر کے اور نمائشی پزیرائی حاصل کرتے ہیں
ریٹنگ حاصل کرتے ہیں
وہ کیا جانیں
کہ
اس کے روحانی ثمرات حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں
وہ تو صرف شہرت نام پیسہ کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے ہر اسلامی رکن کو اپنی مرضی کے مطابق اپنا کر
مسلمان ہونے کی مہر ثبت کرنا چاہتے ہیں
قرآن!! ان کے متعلق سورت البقرہ میں فرماتا ہے
کہ
وہ ہر فاسقانہ عمل کو اسلامی قرار دے کردراصل اندھے بہرے ہیں

“”ان کے دلوں کانوں آنکھوں پر پردہ ہے
اور
اللہ کے عظیم عذاب میں مبتلا ہوں گے””
مخلوط افطار اور عمرہ حج کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟
دونوں کے مقاصد الگ
دونوں کی کوشش مختلف ہے
اللہ نے ایسے لوگوں کو دنیا میں ڈھیل دی ہوئی ہے
اللہ اکبر
عمرہ یا حج کیلئے لوگ سب کچھ اللہ کے سپرد کر کے گھروں سے نکلتے ہیں
اس وقت سے واپسی تک وہ اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں
فرشتوں کی دعاؤں میں رہتے ہیں
اللہ کی محبت زائرین عمرہ کو یا حاجیوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے
لبیک الھمہ لبیک کی صدائیں زبان سے ختم ہوتی ہیں تو دل کہ اٹھتا ہے
کعبہ نگاہوں کے سامنے اور سعی کیلئے حضرت ھاجرہ کی دوڑ رلا دیتی ہے
تھکاوٹ کا تاثر ابھرتا ہے تو زمزم تسکین راحت و جاں کا سامان بنتا ہے
بیت اللہ ہو یا مسجد نبوی جس سمت آنکھ اٹھے اجر ہی اجر درجات ہی درجات
ایسے میں کون بد بخت ہے
جو ان آفاقی مناظر سے سوچ کو موڑ کر گناہوں کی دلدل میں گرے کہ مرد اور عورت پر غور کرے ؟
اور وہ بھی نافرمان متکبر قارون کی طرح زمین میں دھنس جائے ؟
اللہ کی محبت اللہ کی اطاعت سے چُور انسان صرف رضائے الہیٰ کے حصول اور توبہ کی قبولیت کے سوا کچھ سوچ سکتا ہے؟
ماسوائے جو منافق ہو؟
اس ظالم اینکر کو کوئی سمجھائے کہ
حج عمرہ میں تو ہر عورت مرد ہر احساس سے بیگانے ہوتے ہیں کہ وہ ہیں کہاں اور ان کے ارد گرد کون ہے؟
وہاں انسان عورت اور مرد کی حیثیت سے نہیں اپنے رب کے عاجز بندے کی حیثیت سے معطاف میں داخل ہوتے ہیں
بخشش مغفرت اپنی ایک ایک غلطی طواف کرتے ہوئے انسان کی نگاہوں میں یوں گھومتی ہے اور ایسی ہچکیاں لگتی ہیں
کہ
نگاہ آنسوؤں سے اپنی خوش نصیبی پر دھندلا جاتی ہے کہ اللہ نے اپنا مہمان بنا لیا ہمیں؟
اس عظیم مقدس جگہ پر حاضری اور طواف کیلئے گھومتی ہر نگاہ کا مرکز وہ سیاہ چمکدار رحمتوں میں گھِرا ہوا گھر ہوتا ہے
اس عظیم روح پرور منظر کو اس شخص نےجس شیطانی انداز میں بیان کیا اور علمائے کرام کی توہین کی
وہ بھی اس مہینے میں قابل گرفت ہے
اس کی گفتگو اسکی ذہنی اوقات کی نشاندہی کرتی ہے ایسے ذہنی بیمار لوگ آج میڈیا پر مزید بیمار ذہن پیدا کرنے آ گئے
سوچیں
غیر اسلامی سوچ رکھنے والے بے دین صرف پیسے کے پجاری لوگ اب ہمارا معیار ہیں؟
سوچنا ہوگا ؟
رمضان ٹرانسمیشن جیسی با ادب ٹرانسمیشن کیلئے دینی علمائے کرام لانے چاہیے تھے
جو لوگوں کی اصلاح کرتے راہ دکھاتے
مگر افسوس دولت ریٹنگ کا بخار اس مہینے کے تقدس کو بھی شو بز والوں نے ورائٹی شو بنا دیا
سرکس کے جوکر جیسے افراد اور ان کی اچھل کود ذہنی اذیت کا باعث بن رہی ہے
زیادہ تر چینلز پے بیٹھے شو بِز سے تعلق رکھنے والے اسلام پے معلومات اور عمل زیرو رکھتے ہیں
یہی کہا جا سکتا ہے
ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہو گا ؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر