حقیقت

Leader

Leader

تحریر : شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں ملک و قوم کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھ کر سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ رہا تھا کہ غیر مسلم ممالکوں کے حاکمین اپنے ملک و قوم کی بقا اور بالخصوص قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کیلئے اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں اور جب وہ اپنے اس اعلی عہدوں سے فراغت پاتے ہیں تو وہ واویلا کرنے کے بجائے عام انسانوں کی زندگی گزارنے میں مصروف عمل ہو کر رہ جاتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کا سابق صدر اوباما جب اپنے عہدے سے فارغ ہوا تو وہ کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہو کر ایک عام آ دمی کی زندگی گزارنے لگا جبکہ اُس کی بیٹی ایک ہوٹل میں نوکری کر کے اپنی بسرواوقات کرنے لگ گئی جبکہ دوسری جانب ہمارا ملک پاکستان جس کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے لاتعداد قربانیاں دی تھیں کے حاکمین جو ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک وقوم کا خون چوس کر ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہیں جن کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اگر انھیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا جاتا ہے تو یہ ان عہدوں کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر ملک کے تمام اداروں جس میں فوج اور عدلیہ سر فہرست ہیں سے ٹکرا جاتے ہیں۔

جبکہ ہمارے عوامی لیڈر ملک وقوم کی پاسبانی کرنے کے بجائے اسلام آ باد میں کروڑوں اربوں روپوں مالیت کے پلاٹس اور بالخصوص تعمیر و ترقی کی مد میں ملنے والے کروڑوں روپے از خود ہڑپ کرنے کے عوض ان مفاد پرست حاکمین کے در کے غلام بن کر ان حاکمین جو نہ صرف ملک وقوم بلکہ انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں کے ہر حکم کی تکمیل کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں یہی کافی نہیں یہ عوامی لیڈر جو لیڈر لفظ کے نام پر ایک بد نماداغ ہیں غریب والدین کے بچوں کو نوکریاں جو انھیں کوٹے میں ملتی ہیں نوٹوں کی چمک سے مرعوب ہو کر دیتے ہیں اور تو اور یہ وہ ناسور ہیں جو اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کیلئے اپنے آ قا حاکمین جو درحقیقت قومی لٹیرے ہیں کی خصوصی اجازت سے اپنے اپنے اضلاع میں من پسند اعلی افسران کو تعنیات کروا کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں غریب عوام بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر زندہ درگور ہو کر رہ گئی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان مفاد پرست حاکمین اور عوامی لیڈروں کی لوٹ کھسوٹ سے بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والا سر کاری و غیر سرکاری ملازم بجلی و گیس کے ماہانہ بل جو کہ آ ٹھ سے دس ہزار روپے تک ہوتے ہیں ادا کرنے میں قاصر ہو کر رہ گیا ہے۔

آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج جو ہمارے ملک کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہے یا پھر وفاقی کرپشن کی زد میں ہے تو اُس کا ذمہ دار کوئی ا ور نہیں اس ملک کے حاکمین اور ہمارے عوامی لیڈر ہیں جو نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو چکے ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو اکثر حاکمین حکومت یہاں کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو رنگین بنانے کیلئے اپنی اور اپنے خاندان کی رہائش غیر ملکوں میں رکھتے ہیں اور تو اور اگر انھیں اپنا معمولی سا علاج بھی کروانا پڑے تو یہ اپنا علاج غیر ملکوں میں کرواتے ہیں چونکہ انھیں اپنے ملک میں نہ تو کوئی اچھا ہسپتال نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر یہ تو بس اپنے آپ کو انسان سمجھتے ہیں جبکہ یہ عوام کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے ہاں البتہ ان انسانیت کی تذلیل کرنے والے حاکمین اور عوامی لیڈروں کو الیکشن کے دوران عوام انھیں انسان نظر آتی ہے۔

گزشتہ دنوں میں نے فیس بک پر ایک خبر پڑھی جس میں ایک عوامی لیڈر اپنے اضلاع کی عوام کو خوش خبری سناتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ حکومت پنجاب نے سیوریج کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز دے دیئے ہیں یہ پڑھ کر میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر سوچنے لگ گیا کہ جو عوامی لیڈر عوام کو بیوقوف بنا کر تین بار جیتنے کے باوجود اپنے اضلاع کیلئے کچھ نہ کر سکا ہو یہاں تک کہ اپنے اقتدار میں ملنے والی نوکریوں کے کوٹے میں سے کسی ایک غریب خاندان کے فرد کو نوکری نہ دے سکا ہو وہ بھلا عوام کو اب کیا دے گا ویسے تو تعجب اس بات کا ہے کہ الیکشن کے قریب یہ عوامی لیڈر ایسی سکیمیں کیسے اور کیوں پاس کروا لیتے ہیں الیکشن سے پہلے کیوں نہیں بحرحال یہ لوٹی ہوئی ملکی دولت سے اپنی شخصیت تو بدل لیتے ہیں لیکن اپنی خصلت نہیں تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ ایک فاتح بادشاہ جنگ جیتنے کے بعد واپس اپنے ملک آ رہا تھا کہ ایک جگہ اسے ایک خوبصورت عورت نظر آئی جس پر بادشاہ اُس عورت کو اپنے ساتھ اپنے ملک لے آیا محل میں پہنچ کر بادشاہ نے اپنے وزیر خاص کو حکم دیا کہ وہ اس عورت کی خوراک اور لباس وغیرہ کا خاص خیال رکھے وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن بادشاہ کو وہ عورت دکھائی دی جو اُسے کمزور دکھائی دی جس پر بادشاہ نے اس بارے میں وزیر خاص سے اس کمزوری کے بارے میں پو چھا تو وزیر خاص نے بادشاہ کو بڑی عزت و احترام سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس عورت کا تعلق کسی گھٹیا اور بھکاری خاندان سے ہے بس یہی وجہ ہے اس کے کمزور ہونے کی اگر آپ اسے تندرست دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ محل کے اندر جالے بنا کر وہاں پر اس کی خوارک رکھ دے تو یہ بہت جلد تندرست ہو جائے گی۔

یہ سن کر بادشاہ نے محل کے اندر مختلف قسم کے جالے بنوا کر اُس میں مختلف قسم کا کھا نا رکھنا شروع کر دیا یہ دیکھ کر وہ عورت ہر جالے کے پاس جاتی اور یہ کہہ کر جالہ دے نوالہ کھا نا اٹھا کر کھا لیتی کچھ دنوں کے بعد بادشاہ نے دیکھا تو وہ عورت پہلے سے بھی زیادہ تندرست اُسے نظر آئی بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کے متعدد حاکمین اور عوامی لیڈروں کی ہے جو حلال کی کمائی گئی دولت سے تندرست نہیں ہو سکتے لہذا ہمارے ملک کی پاک افواج کو یہ حق حاصل ہے کہ جو اپنے ملک کی بقا کے حصول کی خا طر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں کہ وہ ان مفاد پرست حاکمین اور عوامی لیڈروں کو بحری جہاز میں بٹھا کر سمندر میں کسی ایسی جگہ پر غرق کر دے جہاں پر یہ ابی جانوروں کی خوراک بن جائے چونکہ اس ملک و قوم کو بچانے کا بس یہی ایک طریقہ ہے۔

کٹ ہی جائے گی بالآ خر یہ ظلم و ناانصافیوں کی زنجیریں
میں تو بے رحم وقت کی تقدیر کو بدلنے کیلئے چلا ہوں

Sheikh Tauseef

Sheikh Tauseef

تحریر : شیخ توصیف حسین