2014ء اور پاکستان

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

آج ہم نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں 1947ء والا کیلنڈر ایک بار پھر لوٹ آیا ہے اور تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے قوموں کی تاریخ تبدیل کرنے میں ہمیشہ قیادت کا کردار رہا ہے ہندوستان سے ہجرت کر کے اپنا مال واسباب لٹانے اور اپنے عزیزوں کی قربانی دے کر پاکستان آنے والے کروڑوں افراد کو مثبت قیادت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے آج ہر محب وطن پاکستانی اپنے آپ کو تیسرے درجے کا شہری سمجھ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے سفارش اور رشوت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ایک عام پاکستانی کو ملازمت سے لے کر تعلیم تک اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے آج جو ہم میں احساس محرومی پایا جارہا ہے وہ ایک دو دنوں کی بات نہیں ہے اور نہ ہی ایک دو سالوں میں پیدا ہوا ہے قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان پر حکومت کرنے والوں نے ملکی مفاد کی بجائے اپنا اور اپنے حواریوں کا مفاد زیادہ عزیز رکھا اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد جب لوگ پاکستان پہنچے تو انکے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں نے انہیں اس طریقے سے الجھایا کہ اکثریت کو انکا حق ہی نہ ملا اور جو وہاں انگریزوں کے غلام اور انکے مفادات کے محافظ تھے۔

انہوں نے پاکستان پہنچ کربھی انگریزوں سے وفاداری نبھائی اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنیکی بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں کردیا سفارش اور رشوت کا ایسا پودا پروان چڑھایا جو اب تناور درخت بن چکا ہے اور اسکی جڑین اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اب اسکو ختم کرنا ناممکن ہو چکا ہے حالات سے تنگ آئے لوگ اجتماعی خودکشیاں کررہے ہیں اور مائیں اپنے بچوں سمیت نہروں میں ڈوب رہی ہیں ہسپتال ہیں کہ جہاں مریض ٹرپ رہا ہے اور مسیحا کوئی نہیں ادویات کی قیمتیں کمیشن مافیا ایجنٹوں نے آسمان تک پہنچا دی ہیں روزگار کے دروازے غریب انسان پر بند ہو چکے ہیں افسران ہیں کہ اپنے سے اوپر والوں کی خوش آمد میں لگے ہوئے ہیں سیاستدان نے اپنے بچے اور اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کر لیے اور سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کی اجارہ داریاں قائم ہو چکی ہے دہشت گردی کی وباء نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور سیاسی جماعتوں کے سیاسی ماحول نے پورے ملک کو دائو پر لگا رکھا ہے عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں نے عوام کو ہی مذاق بنا کر انہیں فٹ بال بنا دیا ہے کبھی ایک ریلی نکلتی ہے تو کبھی دوسری ریلی نکالی جاتی ہے اور یہ بازیگر نما سیاستدان عوام کے جذبات سے خوب کھیل رہے ہیں۔

ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد بھی اپنے ہاتھوں میں ڈگڈی پکڑے اپناا پنا تماشا لگائے بیٹھے ہیں جب مطلب ہوا تو گدھے کو بھی باپ تسلیم کرکے مطلب نکال لیتے ہیں اور جب کسی سے مطلب ختم ہو جائے تو پھر سابق آرمی چیف جسے گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کیا گیاتھا اسے دودھ پینے والا بلا بنا دیا جاتا ہے گرمیوں میں ٹھنڈک کے اور سردیوں میں گرم ماحول کے مزے لینے والوں نے ایسی ایسی سیاسی دوکانداری سجا رکھی ہے کہ ایک ڈرامہ ختم ہوتا ہے تو دوسرے کے لیے اسٹیج تیار کرلیا جاتا ہے۔

Inflation

Inflation

عوام کو انہی چکروں میں الجھا کر بیوقوف بنایا جارہا ہے عوام دن رات مہنگائی اور غربت کی دلدل میں غرق ہونے کے بعد اب دوبارہ سر نکالنا شروع ہو چکی ہے اب اگر ضرورت ہے تو صرف ایک ایسے شخص کی جواسی غربت کی دلدل میں رہا ہومگر اس کے اندر ملک وقوم کا درد ہو خود بھی گرمیوں میں گرمی برداشت کرتا ہو اور سردیوں میں یخ بستہ ہوائوں کا عادی ہو عام آدمی کی بات کرنے والا عام آدمی ہی ہو حق دار کو حق دلانے والا ہو تو پھر ملک اور قوم کا مستقبل اچھا ہو سکتا ہے اوراب ایسے لگتا ہے کہ گذشتہ66سالہ محرومی کا دور ختم ہونے کو ہے اور جو کھیل قائد اعظم کی وفات کے بعد کھیلا گیا تھا اسکا اب اختتام عنقریب ہونے جا رہا ہے۔

کیونکہ اللہ تعالی نے 2014ء کو ایک بار پھر ہمارے لیے 1947ء بنا کر بھیجا ہے جس جذبے سے اس وقت ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی تھی اسی طرح اب ہم ایک بار پھر ان انگریزوں کے غلاموں سے نجات حاصل کرلیں گے جن کی وجہ سے ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں ہے سب سے اہم بات جو ہمیں اب سمجھ لینی چاہیے کہ کشکول ہاتھوں میں اٹھائے ہم کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جہاں خوشحالی ہو ،امن ہو اور ترقی کے مواقع ہر کسی کیلیے یکساں ہوں جہاں سفارش اور رشوت کا کلچر نہ ایسے ہی پاکستان کی تعبیر علامہ اقبال اور قائد اعظم چاہتے تھے مگر لوٹ مار اور مفادات کی سیاست کرنے والوں نے صرف اپنے خاندان کی سیاست کو پروان چڑھایا ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے عوام کا خون نچوڑکربیرون ملک اپنے اثاثے بنائے اور جن کے نام پر سیاست کی جاتی رہی انہیں خودکشیوں پر مجبور کیا جانے لگا مگر اب آزادی کا دور دور نہیں ہے بہت جلد ہم ان چوروں اور ڈاکوئوں سے جان چھڑوا کر دنیا میں اہم مقام حاصل کرلیں گے کرپشن اور اقربا ء پروری کا جو درخت اب تن آور ہو چکا ہے اسکی جڑیں کٹنے کو ہیںکیونکہ اب کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی قائد اعظم ثانی ملک وقوم کو ڈاکوئوں سے بچانے کے لیے منظر عام پر آسکتا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر ۔ روہیل اکبر
03466444144