دینِ اسلام میں حج کی اہمیت و فضیلت

Hajj

Hajj

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔”بے شک سب میں پہلاگھرجولوگوں کی عبادت کو مقررہواوہ ہے جومکہ میں ہے برکت والااورسارے جہان کاراہنمااس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اورجواس میں آئے امان میں ہواوراللہ کے لئے لوگوں پراس گھرکاحج کرناہے جواس تک چل سکے اورجومنکرہوتواللہ پاک سارے جہانوں سے بے پرواہ ہے”۔(آل عمران٩٦،٩٧)حج دین ِاسلام کے بنیادی فرائض واراکین میںسے ایک اہم رکن ہے۔جن پر دین ِ اسلام کی عمارت قائم ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ آقاۖ نے فرمایا”اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پرہے۔”یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیںاویہ محمدۖاللہ تعالیٰ کے رسولۖہیں،اورنمازقائم کرنا،زکوٰة اداکرنا،حج کرنااوررمضان المبارک کے روزے رکھنا۔(متفق علیہ)یہ اسلام کے پانچ بڑے اصول اوراہم ارکان ہیں ۔آقاۖ نے اسلام کے اصول سمجھانے کے لئے ایک حسین وجمیل مثال بیان فرمائی کہ اسلام بمنزلہ ایک خیمہ کے ہے جوپانچ ستونوں سے قائم ہے ۔کلمہ شہادت خیمہ کادرمیانی ستون ہے۔

نماز،روزہ،زکوٰة ،حج بیت اللہ چارستون ہیں ۔جوخیمہ کے گوشوں پرہوتے ہیں ۔اگردرمیانی ستون نہ ہوتوخیمہ کاقیام متصورنہیں ہوسکتا۔اس طرح اگراللہ اور اس کے رسول ۖپرایمان نہ ہوتواسلام سرے سے ہی نہ ہوگااورنمازروزہ باقی اعمال کاکوئی فائدہ نہ ہوگا۔اگردرمیانی ستون قائم ہواورچاروں طرف میں سے کوئی ایک ستون نہ ہوتوخیمہ قائم ہوجائیگا۔مگرجس طرف کاستون نہ ہوگاوہ جانب گری ہوئی اورناقص ہوگی اس طرح اگرایمان موجودہے تومسلمان کہلایا جائیگا مگرجب نماز، روزہ، حج،زکوٰة سے کوئی چیزنہ ہوگی ۔تواسلام ضعیف اورناقص ہوجائیگا۔ہم لوگوں کواپنی حالت پرغورکرناچاہیے کہ کیااسلام کاخیمہ قائم ہے؟ اگرقائم ہوتوکسی جانب سے گراہواتونہیں ؟ حج کامنکرکافراورمرتدہے حج کی فرضیت پراور اس کے انکارسے کفرکے لازم آنے پراجماع امت ہے ۔ عربی زبان میں حج کے معنی کسی بڑے مقصدکاارادہ کرنے کے ہیں ۔اصطلاحی طورپرمکة المکرمہ کی طرف طواف،سعی، عرفات میں وقوف،مزدلفہ میںقیام اورمنیٰ میں قربانی وغیرہ ھم جیسے اعمال کی ادائیگی کی غرض سے سفر کرنایاسفرکاارادہ کرناحج کہلاتاہے ۔

کعبہ معظمہ اتنی برکت والا ہے کہ رب ذوالجلال ہرروزوہاں پرایک سوبیس رحمتیں نازل فرماتاہے چالیس رحمتیں ان نمازیوں کے لئے جوکعبہ میں نمازپڑھتے ہیں اور ساٹھ رحمتیں کعبة اللہ کا طواف کرنیوالوںکے لئے اوربیس رحمتیں کعبة اللہ کی طرف نظرکرنیوالوں کے لئے جہاں پررب کی رحمت کی برسات ہووہ جگہ رحمت والی کیوں نہ ہو۔تفسیرحسینی میں مرقوم ہے کہ کعبة اللہ کی طرف ایک نظرسے دیکھنااس قدراجروثواب کاحامل ہے جتناکہ مکة المکرمہ کے باہرسال بھرکی عبادت کاثواب ہوتاہے یعنی مکہ مکرمہ کے باہرسال بھرکی عبادت کاثواب اورکعبة اللہ کی جانب ایک نظردیکھنے کاثواب برابرہے جس نے ایک مرتبہ کعبة اللہ پرنگاہ ڈالی گویااس نے ایک سال کی عبادت کاثواب حاصل کرلیا۔حضرت مسیب نے فرمایا”جوکوئی ایمان اورقلبی تصدیق سے کعبة اللہ کادیدارکرے گناہوں سے یوں پاک ہوجاتاہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیداہواہو”۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپۖ نے ہم پرخطبہ پڑھاتوفرمایااے لوگو!تم پرحج فرض کیاگیاہے لہذاحج کرو!ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہۖ کیاہرسال؟ حضوۖ خاموش رہے حتیٰ کہ اس شخص نے تین بارکہاتوآپۖ نے فرمایاکہ اگرمیں ہاں کردیتاتوہرسال واجب ہوجاتااورتم نہ کرسکتے پھرفرمایا مجھے چھو ڑے رہوجس میں میںتم کوآزادی دوںکیونکہ تم سے اگلے لوگ نبیوں سے زیادہ پوچھ گچھ اورزیادہ جھگڑے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں لہذاجب میں تمہیں کسی چیزکاحکم دوں توجہاں تک ہوسکے کرگزرواورجب تمہیں کسی چیزسے منع کروں تواسے چھوڑدو۔(مسلم شریف)حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے فرمایااے لوگو!بے شک اللہ پاک کی جانب سے تم پرحج فرض ہے۔پس حضرت اَقْرَعَ بن حابس کھڑے ہوئے اورعرض کیایارسول اللہۖ ہرسال (آپۖخاموش رہے یہاں تک اس صحابی نے تین مرتبہ یہی سوال دہرایا) آپۖ نے فرمایا اگر میں ہاں کردیتاتوواجب ہوجاتا اگرواجب ہوجاتاتوتم اس پرعمل نہ کرتے اورنہ ہی اسکی طاقت رکھتے ۔

حافظ ابن حجرمکی اورنووی راقم طرازہیں ۔کہ اقرع بن حابس کے باربارسوال کی وجہ رسول اللہۖ کاحج کے بارے میں سخت ترین حکم تھاکہ”لوگو!اللہ پاک نے تم پرحج فرض کیاہے پس تم حج کرو”انہوں نے اس سختی کی بناء پرباربارسوال کیاکہ کہیں ہرسال کے لئے توایسانہیں ۔لیکن اللہ اوراسکے پیارے رسولۖ نے چندشرائط عائدفرمادیں تاکہ امت پرآسان ہو مشقت نہ ہو۔وہ شرائط درج ذیل ہیں۔١۔مسلمان ہو،مشرک یاکافرنہ ہوکیونکہ کافراورمشرک پراسلام کے احکام لاگونہیں ہوتے ۔مشرک اورکافرکا داخلہ بھی مسجدالحرام میں حرام ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اے ایمان والو!مشرک نرے پلیدہیں تواس برس کے بعد(فتح مکہ کے بعد)وہ مسجدحرام کے پا س نہ آنے پائیں ۔اوراگرتمہیں محتاجی کاڈرہے توعنقریب اللہ تمہیں دولت مندکردے گااپنے فضل سے اگرچاہے بے شک اللہ علم وحکمت والاہے ۔(سورة التوبہ ٢٨)٢۔بالغ ہو،بچہ پرحج فرض نہیں بلکہ عمرکی ایک خاص حدتک کوئی عبادت بھی فرض نہیں ۔ترغیب اورترتیب ضرورہونی چاہیے۔

آقاۖ نے فرمایا”تین انسانوں سے مواخذہ نہیں ہوگا۔١۔سویاہواآدمی جب تک وہ جاگ نہ جائے ٢۔بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے ٣۔اورپاگل جب تک کہ اس کی عقل کام نہ شروع کردے ٣۔عاقل ہویعنی اسکے ہوش وحواس قائم ہوں٤۔آزادی ،غلام پرحج فرض نہیں ٥۔صاحبِ استطاعت ٦۔زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے اس سے زیادہ نفلی ہے۔حدیث پاک میں ہے کہ”حج صرف زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے جس نے ایک دفعہ سے زیادہ کیاتووہ نفلی ہے۔(ابودائود،نسائی) حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آقاۖ کی خدمت اقدس میںایک دیہاتی حاضرہوااورعرض کیاکہ اللہ کے رسولۖ کیاآپۖ ہمیں اللہ پاک کی وحدانیت ،الوہیت اور اپنی رسالت کاحکم دیتے ہیں ۔آپۖ نے فرمایاہاں!پھراس نے سوال کیاکہ آپۖ ہمیںنمازکاحکم دیتے ہیں آپۖ نے فرمایاہاں اس نے جواباًعرض کیاکتنی نمازیںآپۖنے فرمایاکہ دن اوررات میں کل پانچ ،اس نے پوچھااس کے علاوہ کوئی نمازجوفرض ہو،آپ ۖ نے فرمایانہیں ہاں نوافل ہیں جس قدرتم اپنی طاقت سے ادا کرلو۔اس نے سوال کیاکہ”آپۖ ہمیں زکوٰة کاحکم دیتے ہیں “؟فرمایاہاں جب کہ تمہارے اموال کوسال گزرجائے تم پرزکوٰة فرض ہے اس نے پوچھا،اس کے علاوہ کوئی صدقہ؟(یعنی کوئی فرض صدقہ)؟آپۖ نے فرمایانہیں البتہ نفلی صدقہ ہے جوتم اپنی مرضی اورخوشی سے دے دو۔اس نے سوال کیاکہ آپۖ ہمیں سال میں 1ماہ روزے رکھنے کاحکم دیتے ہیں ۔آپ ۖ نے ارشادفرمایاہاں سال میں 1ماہ یعنی ماہ رمضان کے روزے تم پرفرض ہیں ۔اس نے سوال کیاکہ اس کے علاوہ کوئی روزہ(فرضی روزہ)؟آپۖ نے جواب دیانہیں مگرنفلی روزے ہیں جس قدرطاقت ہوان کاالتزام کرسکتے ہیں۔اس نے دریافت کیاکہ آپۖ ہمیں استطاعت ہونے پرزندگی میں ایک دفعہ حج کاحکم دیتے ہیں ؟آپۖ نے ارشادفرمایاہاں ۔وہ شخص اٹھااورباآوازقسم اٹھاکرکہنے لگا”کہ اللہ کی قسم میں نہ تواس سے زیادہ کچھ کروں گااورنہ ان میں کچھ کمی کروں گا”یہ کہہ کروہ شخص چل دیا۔آپۖ نے فرمایاکہ جوشخص زمین پراہل جنت میں سے کسی کودیکھناچاہتاہووہ اس شخص کودیکھ لے “۔(متفق علیہ)اللہ پاک کے احکامات کی پابندی اوربجاآوری انسان کے لئے جنت میں داخلہ کاسبب ہے ۔لیکن جوشخص بنی اسرائیل کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے چندپرعمل کریگااورچندکوضائع کردے توایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلااعلان ہے ۔کہ”ایسے شخص کی سزا(جوکتاب کے بعض حصہ پرایمان لائے اوربعض کاانکارکردے یاضائع کردے)دنیامیں ذلت ہے اورقیامت کے دن وہ ایک انتہائی سخت عذاب کی طرف لوٹادئیے جائیں اورجان لوکہ تمہارارب تمہارے اعمال سے غافل نہیں”۔نبی کریمۖ نے ارشادفرمایا”جس شخص نے اللہ پاک کے احکامات کوپوراکیااور اسلام کی عمارت کی حفاظت کی اللہ اسے عزتیں دے گااس کی حفاظت کریگا۔لیکن جس شخص نے اللہ کے احکامات کوپورانہ کیااسلام کی عمارت کونقصان پہنچایا۔اللہ پاک ایسے شخص کوضائع کردے گا ۔ اوردونوں جہانوں میں ذلت اوررسوائی اسکامقدرٹھہرے گی۔حضرت عمر سے روایت ہے کہ نبی کریمۖنے ارشادفرمایا”حج اورعمرہ باربارکیاکروکیونکہ ان کاباربارکرناغربت اورگناہوں کواس طرح مٹادیتاہے جیسے بھٹی لوہے کی میل دورکرتی ہے ۔

(ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہۖ کویہ فرماتے ہوئے سنا”جس شخص نے اللہ کی رضاکے لئے حج کیااورفحش کلامی نہ کی اورنہ فسق کی باتیں کیںجب (حج)کرکے لوٹے گاتوایساہوگاجیسے اسکی ماں نے اسے ابھی جناہو”(متفق علیہ )درج بالااحادیث میں واردہے کہ جوشخص ادائیگی حج اور حج کے دنوں میں گناہوں سے بازآجائے تواسکے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں حضورعلیہ الصلوٰة والسلام نے حضرت عمر کوارشادفرمایااے عمر! کیاتونہیں جانتاکہ اسلام لانااسلام قبول کرنے سے پہلے والے گناہوںکومٹادیتاہے اورہجرت پہلے کے گناہوں کو مٹادیتی ہے اوربے شک حج سابقہ گناہوں کوگرادیتاہے اس حدیث مبارکہ میں تین باتوں کی وضاحت کی گئی ہے ،اول یہ کہ اگرکوئی غیرمذہب اسلام قبول کرلے تواسکے زمانہ کفرکے گناہ معاف ہوجاتے ہیں،دوسرایہ کہ راہ خدامیں ہجرت کرنے سے پہلے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اورحج کرنے سے سابقہ گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ “حج گناہوں کویوں دھوڈالتاہے جیسے پانی میل کو”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آقاۖ نے ارشادفرمایاکہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے درمیانی گناہوں کومٹادیتاہے اورحج مقبول کی جزاصرف جنت ہے ۔حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمۖ کی خدمت اقدس میں حاضرہوااورعرض کی یارسول اللہ ۖ میری بہن نے حج کی منت مانی تھی اوروہ مرگئی تونبی کریمۖ نے فرمایااگراس پرقرض ہوتاتوتواداکرتاعرض کیا جی ہاں !آقاعلیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایااللہ پاک کاقرض بھی ادا کرووہ توزیادہ اداکرنے کے لائق ہے ۔(مسلم ،بخاری)ایک روایت میں ہے ”یہ گھر (کعبہ)مسلمانوں کامرکزہے جوکوئی اس کی طرف حج وعمرہ کی غرض سے نکلے یانکلنے کا ارادہ رکھتاہووہ بندہ اللہ پاک کی ضمانت میں ہے اللہ پاک کی نگرانی میں ہے اگروہ اس کوقبض کرلے (یعنی دوران حج مرجائے)تواس کی ضمانت ہے کہ وہ جنت میں داخل کردیگااوراگراس کوواپس کردے (یعنی بخیروعافیت واپس اہل عیال میں آگیا)تووہ اس کودنیااورآخرت کی بھلائیاں عطاکرے گا۔ (طبرانی فی الاوسط) حضرت عمروبن عاص بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی محبت میرے دل میں ڈال دی تومیں قبولیت اسلام کی غرض سے آقاۖ کی خدمت اقدس میں حاضرہوااورمیں نے کہاکہ اے اللہ کے رسولۖ اپنا ہاتھ پھیلائیے میں آپۖ کی بیعت کرناچاہتاہوں ۔آقاۖ نے اپناہاتھ آگے بڑھایاتو میں نے آپۖ کا ہاتھ پکڑلیا آپۖ نے فرمایاکیاچاہتے ہومیں نے عرض کیاکہ اللہ کے رسول ۖ ایک شرط پراسلام قبول کرناچاہتاہوں فرمایابولوکیاشرط ہے؟عرض کی بس اللہ تعالیٰ سے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی کاطالب ہوںآپۖ نے فرمایاکہ اے عمروجان لو!جب بندہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتاہے تواللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیتاہے ۔اس طرح ہجرت بھی سابقہ گناہوں کوختم کردیتی ہے اورحج بھی پچھلی زندگی کے تمام گناہوں کومعاف کردیتاہے ۔ (مسلم ،ابن خزیمہ ) ام المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی یارسول اللہۖ !عورتوں پرجہادہے فرمایاہاں ان کے ذمہ وہ جہادہے جس میں لڑنا نہیں حج وعمرہ (ابن ماجہ)اورصحیحین میں انہیں سے مروی ہے کہ فرمایاتمہاراجہادحج ہے ۔

ارشادنبویۖ ہے کہ”بے شک اللہ کی رحمت کے فرشتے حجاج سے معانقے کرتے ہیں ان سے مصافحے کرتے ہیں اورصرف یہی نہیں بلکہ حاجی کے ایک ایک قدم کے بدلے اللہ پاک اس کواجروثواب سے نوازتاہے ۔”ارشادنبویۖ ہے کہ ”وہ حاجی جوسواری پرسوارہوکرآتاہے اس کی سواری کے ایک قدم کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ70گنااورجوپیدل چل کرآتاہے ،اللہ پاک اس کوایک قدم کے بدلہ میں 700گنا تک اجروثواب عطافرماتاہے”۔(الطبرانی والبزار)اللہ رب العزت حاجی سے اتناخوش ہوتاہے کہ وہ اس کے گناہ معاف کردیتاہے ۔حجة الوداع کے موقع پرجب آپۖ مزدلفہ میں صبح کے وقت ذکرواذکارمیں مصروف تھے کہ اچانک آپۖ نے مسکراناشروع کردیا۔صحابہ کرام علہم الرضوان (خاص طورپرراوی حدیث حضرت عمر)نے کہاکہ :”اے اللہ کے رسولۖ اللہ پاک آپ کو یونہی مسکراتارکھے ۔آپۖ یونہی ہم میں اپنی مسکراہٹوں کے پھول اورمو تی بانٹتے رہیں لیکن آپۖ کے مسکرانے کاسبب ہمیں نظرنہیں آیاآپۖ کے مسکرانے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی کہ کس چیزنے آپۖ کومسکرایا،آپۖ نے فرمایا”بے شک تم لوگوں نے صحیح کہاہے ،جومیں دیکھ رہاہوں تم نہیں دیکھ سکتے ۔ میں دیکھ رہاہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میری دعاکی وجہ سے میری امت کومعافی دینے کااعلان فرمایا،تومیں دیکھ رہاہوں کہ اللہ کادشمن شیطان ابلیس واویلاکررہا ہے ،بین کر رہاہے اورکہہ رہاہے ہائے افسوس!ہائے افسوس! میری ساری محنت ضائع ہوگئی میں بربادہوگیامجھے اس کی یہ ذلت آمیزحالت دیکھ کے ہنسی آگئی۔(ابن ماجہ،احمد)

حاجی کی دعاکی فضیلت
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا”عمرہ اورحج کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اگروہ اللہ سے دعامانگیں تواللہ تعالیٰ ان کی دعاقبول فرمائے گااوراگروہ اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگیں توان کی بخشش فرمادے گا۔(ابن ماجہ)حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمۖسے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی توآپ ۖنے انہیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا”بھائی اپنی دعائوں میں ہمیں بھی شامل رکھنااوراپنی کسی دعامیں ہمیں نہ بھولنا”۔(ابن ماجہ)حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آقاۖنے ارشادفرمایا”حاجی کی مغفرت ہوجاتی ہے اورحاجی جس کے لئے استغفارکرے اس کے لئے بھی۔(طبرانی)
سفرپرروانگی اورسفرسے واپسی کی نماز
سفرکوجاتے وقت روانگی سے پہلے اپنے گھرمیں دورکعتیں نمازسفر(سفرکی نیت)پڑھناسنت نبویۖ ہے۔نبی کریم ۖ نے ارشادفرمایاکسی نے اپنے گھر والوںمیں دورکعتوں سے بہتر(نائب ومحافظ)نہ چھوڑاجن کووہ سفرکے ارادہ کے وقت اپنے گھروالوں پرپڑھتاہے۔(طبرانی)سفرسے واپس ہوکربھی مسجد میں دورکعت نفل پڑھناسنت مصطفیۖ ہے حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ سفرسے واپس دن میں چاشت کے وقت تشریف لاتے (رات میں تشریف نہ لاتے)اورواپسی پرپہلے مسجدمیں تشریف لاتے اوردورکعت نفل پڑھتے پھروہیںمسجدمیں (کچھ دیر)تشریف رکھتے ۔(مسلم شریف)
حج کرنے والے کوگھرمیں آنے سے پہلے ملنا
حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایاجب توحاجی سے ملے تواسکوسلام دے اس سے مصافحہ کراوراس سے کہہ کہ اپنے گھرمیں داخل ہونے سے پہلے تیرے لئے استغفارکرے کیونکہ وہ بخشاہواہے (رواہ احمد)
صاحب استطاعت ہونے کے باوجودحج نہ کرنا
حج نہ کرناسخت گناہ ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے ارشادفرمایاہے “اورجوانکارکرے تواللہ پاک سارے جہانوں سے بے پرواہ ہے ”۔حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشادفرمایاجوزاداورسواری کامالک ہوجواسے بیت اللہ تک پہنچاسکے اورحج نہ کرے تواسکے لئے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وہ یہودی ہوکرمرے یانصرانی۔(ترمذی)حضرت ابوامامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا جسکوظاہرحاجت یاظالم بادشاہ ،یاخطرناک مرض حج سے نہ روکے وہ مرجائے اورحج نہ کیاہوپس چاہے وہ یہودی ہوکرمرے چاہے نصرانی ہوکرمرے،۔یہودی اورنصرانی دوایسی امتیں ہیں جوشخص ان میں سے ہو کر مرے گااسکی نجات مشکل ہے اوراسکاٹھکانہ جہنم ہوگاامیرالمومنین حضرت عمرفاروق ِ اعظم نے فرمایاکہ میں نے ارادہ کیاہے کہ اپنی سلطنت کے ہرشہر میں ایک ایک آفیسرکی تقرری کروں جوصرف اس بات کوچیک کرے کہ کون شخص صاحب استطاعت ہونے کے باوجودحج نہیں کرتاپھرایسے لوگوں پرجزیہ مقررکردوںکیونکہ ایسے لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔آخرمیں میری تمام حجاج کرام سے اپیل ہے کہ جب پہلی نظراللہ پاک کے گھرپرپڑے تومیرے لئے بھی دعاکرنا۔ گنبدخضرا پرجاکرمیری طرف سے درودوسلام کے نذرانے پیش کرنااوردعاکرناکہ اللہ پاک نبی کریم ۖکی محبت اورشفقت دونوںجہاں میں نصیب فرمائے۔وطن عزیزپاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے۔ملک پاکستان میں نظام مصطفیۖ برپا کرنیوالا حکمران عطا فرمائے۔ مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے۔اللہ رب العالمین آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںۖ کی سچی اورپکی غلامی نصیب فرمائے۔ کفارومشرکین،منافقین، حاسدین کامنہ کالافرمائے ۔ حضورۖکے غلاموں کادونوں جہانوں میں بول بالافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی