مذہبی انتہا پسندی بمقابلہ سیکولر انتہا پسندی

Religious Extremism

Religious Extremism

تحریر : بابر نایاب
پاکستان بننے کے بعد ہی ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ریاست ہے یا پھر سیکولر ریاست۔ اسلامی نقطہ نظر رکھنے والوں کی نزدیک پاکستان اسلام کا حقیقی قلعہ ہے اور پاکستان بنانے کا مقصد دراصل مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم دینا تھا جہاں وہ اپنی معاشرتی، ثقافتی ،آزادانہ مذہبی عبادات کر سکیں اور اسلامی تمدن اور اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں اور یہی بات اگر کسی سیکولر مائنڈ سیٹ والے سے پوچھی جائے تو وہ اپنا فلسفہ منطق کے استدلال سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرے گئے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں نہیں آیا مگر اکژیت اسی بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو بنانے کا مقصد دراصل اسلامی نظریہ حیات ہی تھا۔

ایک طرف پاکستان کو معرض وجود میں آنے سے پہلے کچھ مذہبی طبقات نے کھلم کھلا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی بلکہ فتوے بھی جاری کیے اب یہ الگ بحث ہے کہ اُن مذہبی طبقات کی راہنمائی کن کے ہاتھوں میں تھی پھر تاریخ شاہد ہے کہ اُنھی مذہبی طبقات کی اکژیت کو پاکستان ہجرت کر کے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنا پڑا صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس لوٹے تو اُسے بھولا نہیں کہتے پھر بھی اُن کا پاکستان آنا اور یہاں اسلا می اقدار کو فروغ دینا اسلام کی خدمت کرنا یقینا پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہو گئی مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان کو بنانے والوں نے تو اسے اسلامی درسگاہ اسلامی ریاست کے طور پر ہی بنایا تھا اور اُسی کے لیے ہی اپنی لازوال قربانیا ں پیش کی مگر پاکستان بن تو گیا مگر تخلیق کے فورا بعد اور لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد جنرل ایوب خاں کے مارشل لاء تک جس طرح سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو نوچ کھایا اور اقتدار حاصل کر نے کے لیے کس حد تک گر گئے وہ تاریخ میں پڑھا جا سکتا ہے شاید پاکستان کی تاریخ پڑھتے ایک درد مند دل رکھنے والا انسان تو ضرور رو پڑتا ہو گا کہ کس طرح اس ملک کو سب نے مل کر چھلنی چھلنی کر دیا صرف اپنے مفاد کی خاطر مگر یہاں بات ہو رہی ہے مذہبی اور سیکولر انتہا پسندی کی جس نے اس ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیا مسلمان بھائی کو مسلمان بھائی کا جانی دشمن بنا دیا فرقہ واریت کا زہر گھول کر اپنوں کا خون بہا کر جنت حاصل کرنے والو ں نے قتل عام کا بازار گرم کر دیا۔

مذہبی اختلافات کی بنیاد پر خون کی ندیا ں بہائی گئیں اور اس بات پر کسی ندامت اور شرمندگی کا احساس تک نہ ہوا بلکہ ببانگ دہل اپنے جرم کا اقرار کر کے سچا مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے رہے دوسری طرف سیکولر انتہا پسندی خاموشی سے لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر وار کرتی رہی کہ دیکھو مذہب یہ کروا رہا ہے جبکہ مذہب اسلام تو دنیا کا سب سے پر امن مذہب ہے ہم رحمت العالمین حضرت محمد ۖ کے پیروکار ہیں جن کے اخلاق ، رحمدلی سے متاثر ہو کر کافر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور آپ سرکا ر رۖ نے فتح مکہ کے موقعہ پر اپنے پیارے چچا کے کلیجے کو چبانے والی ابو سفیان کی بیوی ہندہ کو بھی معاف فرما دیا اور درگذر کی وہ مثالیں قائم کی جس کی روئے زمین پر مثال تک نہیں ملتی ہم اگر آپۖ کی اسوہ حسنہ پر حقیقی عمل کریں تو کسی چیونٹی تک کو تکلیف نہ پہنچائے ہر ایک کا درد رکھیں انسان کو انسان کا درجہ دیں۔
مگر ہم مذہب کے اس حقیقی خانے کو دل میں رکھنے کے عادی نہیں ہم تو مذہب کے نام پر خون کرنے کے عاد ی بن چکے ہیں مذہب کے نام پر قتل کے فتوے جارے کرنے کے عادی ہیں ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا مگر باوجود اس کے ہم قتل کو بھی جہاد قرار دیتے ہیں ۔اس کی تازہ مثال مشال خان کی دیکھی جا سکتی ہے جس کو JIT رپورٹ میں بھی بے گناہ قرار دیا گیا ْ۔ مشال خاں تو واپس نہیں آ سکتا مگر ایک سوال تو ضرور ہے اُس کومارنے والے مسلمان اس دنیا میں نہ سہی مگر آخرت میں تو پکڑے جائیں گئے نا جہاں ہر ایک کے ساتھ پورا پورا عدل انصاف ہو گا ۔مشال خان کا قتل ایک قتل نہیں بلکہ انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کسی کو صفائی کا موقعہ دئے بغیر بے بنیاد الزام کے تحت زندگی چھین لی گئی اور ایک گھر کا چراغ بجھا دیا گیا اسی طرح ہر انسان ہی قانون کو ہاتھ میں لے گا تو فتنہ فساد ہی برپا ہو گا خدانخواستہ اگر اس قسم کے مذہبی جنونیوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو پاکستان کا حال بھی شام مصر جیسا ہو سکتا ہے۔

تاریخ دان تو یہی کہتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی دراصل جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں شروع ہوئی روس اور افقانستان کی جنگ میں پاکستان اور امریکہ بہادر نے مل کر جہاد کیا اور اسی جہاد کے دوران مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا گیا مگر جہاد ختم ہونے کے بعد کوئی ایسا طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا جس کے تحت ہر ایک پر نظر رکھی جاتی اور مذہبی انتہا پسندی روکنے کے لیے مناب اقدامات کیے جاتے اگر تب اُن لوگوں کو کنٹرول کر لیا جاتا جو مذہبی انتہاپسندی پھیلانے کا موجب بنے تھے تو آ ج پاکستان کو یہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا یہ تو شکر ہے اور قابل فخر ہے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف جنھوں نے انتہاپسندوں کو بری طرح کچل ڈالا ورنہ اُن کے ہمدرد اُن کے گناہوں پر پردہ ڈالتے رہے اور انتہا پسند اقرار کرتے رہے ہم نے دھماکہ کیا ہے اور ہمارے نادان دوست مسترد کرتے رہے کہ تم نے دھماکہ نہیں کیا دراصل یہ انڈیا اور امریکہ نے کیا ہے پاکستان کی اس سے بڑی افسوسناک حالت کیا ہو گئی جب خودکش حملے عام تھے لوگ مر رہے تھے اور دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے مگر پھر بھی اُن کو کچلنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں تیار کیا گیا بلکہ اُن کو کھلی چھُوٹ دی گئی اور کچھ مذہبی جماعتیں اُن کی مذمت کرنے کی جسارت تک نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی کبھی اُن کے خلاف آپریشن کی حمایت کر سکتی تھی یہ تو APSپشاور حملے کے بعد سب کو ہوش آیا کہ نہیں یہ ہمارے روٹھے ہوئے بھائی نہیں بلکہ درندے ہیں جو صرف خون بہانا جانتے ہیں تب جا کر اُن کے خلاف مکمل کروائی ہوئی اور ملک کا امن دوبارہ لوٹ کر آیا اور اس کا کریڈٹ جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم نواز شریف کا جاتا ہے۔

قصہ مختصر پاکستان کی جڑیں صرف سیاستدانوں نے ہی نہیں کاٹیں بلکہ مذہبی انتہاپسندوں اور سیکولر انتہا پسندوں نے مل کر کاٹی سیکولرزم کے حامی نام نہاد این جی اوز بنا کرعورتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کی پامالی کو کا ڈرامہ رچا کر پاکستان کا خوبصورت چہر ہ مسخ کرتے رہے اور پاکستان کو انتہا پسندوں کا ملک قرار دیتے رہے اور اس چیز کا منہ مانگہ معاوضہ بھی حاصل کرتے رہے افسوس اور دکھ تو یہ ہے کہ میرا ملک کیسا ملک ہے کہ اس ملک کا نمک کھا کر ہی یہاں نمک حرامی کرنے والے عام ہے اس پیارے وطن کی حرمت عزت کو پامال کرنے والے آزاد ہیں او ر عزت کی زندگی جی رہے ہیں اس ملک کا سب سے بڑا دھبہ یہ دونوں انتہا پسند ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔

Babar Nayab

Babar Nayab

تحریر : بابر نایاب
03007584427
babarnayab@facebook.com