پچھتاوا

Remorse

Remorse

تحریر : انعم خاں، ملتان
پھولوں جیسی تھی، وہ نرم و نازک سی، ہر سو خوشبو بکھیرتی ہوئی بے ضرر مخلص سی لڑکی۔پر میں اس کی قدر نہ کر سکا اس کو ایک عام سی لڑکی سمجھتا رہا۔پر وہ خاص تھی بہت خاص اور اس بات کا احساس مجھے تب ہوا جب وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔صنوبر حیات اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ۔لاڈ پیار میں پلی بڑھی پر اس کی فطرت میں نخرہ بالکل نہیں تھا۔محمود حیات اپنی بیٹی کے قدموں میں دنیا جہان کی آسائشات ڈال دینا چاہتے تھے پر وہ کبھی کوئی فرمائش نہیں کرتی تھی بہت سادگی پسند تھی۔روپیہ پیسہ خود پر خرچ کرنے کی بجائے غریبوں کی مدد کرنے کو ترجیح دیتی تھی۔محمود حیات اور میرے بابا جمال احمد بہت اچھے دوست تھے۔صنوبر میرے بابا کو اتنی پسند تھی کے اسے میری شریک حیات بنا کر دم لیا۔ارحم !آپ جانتے ہیں میں نے ہمیشہ اپنے لئے ایک ایسا جیون ساتھی مانگا ہے جو صرف میرا ہو کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کرنہ دیکھتا ہو۔جو میری خوشی کی خاطر ہر وہ کام چھوڑ دے جو مجھے پسند نہیںاور مجھے لگتا ہے آپ کی صورت میں میری مانگی دعا قبول ہو گئی ہے۔اور میں دل ہی دل میں اس قہقے لگارہا تھا اس کی سادگی پہ کہ کس دنیا کی مخلوق ہے جو آج کے مرد سے اس سب کی توقعات رکھے ہوئے ہے۔میںاپنی روٹین لائف میں بہت مصروف رہتا تھا۔

آدھا دن آفس میں گزرتا تھا میرا اور باقی وقت کبھی دوستوں کے ساتھ تو کبھی گرل فرینڈز کوشاپنگ اور ڈنر کرواتے ہوئے گزر جاتا۔شادی کے بعد بھی میری رو ٹین لائف میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی۔البتہ اتنا ہوا کہ اب میں کچھ ٹائم گھر پر بھی گزارنے لگاپر اس ٹائم میں بھی ہر وقت میں اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل پر مصروف رہتاتھا۔صنوبر کو میرااتنا مصروف رہنا پسند نہیں تھا وہ مجھے ہر وقت ٹوکتی رہتی تھی۔پر میں اس کی باتوں پر کان نہ دھرتا اور ایک دن اسے سختی سے منع کر دیا کہ میرے معاملات میں مداخلت نہ کیا کرے۔میں خود کو اس کی خاطر نہیں بدلوں گا۔میں اس کے فرائض پورے کر رہا تھا بس اسی کو کافی سمجھے۔اس دن کے بعد سے صنوبر نے مجھے کبھی کسی کام سے نہیں روکا۔وہ چپ چپ سی رہنے لگی۔شام کو ہم لان میں بیٹھ کر چائے پیتے ۔میں اپنے لیپ ٹاپ میں فیس بک پر لڑکیوں سے باتیں کرنے میں مصروف رہتا ااور وہ مجھے دیکھتی رہتی تھی اور کبھی پھولوں پر منڈلانے والی تتلیوں کو تکتی رہتی۔

Butterflies

Butterflies

تتلیاں بہت پسند تھیں اسے پر وہ کبھی انہیں ہاتھ نہیں لگاتی تھی کہ کہیں ان کا رنگ نہ اتر جائے یا ان کے پر نہ ٹوٹ جائیں۔اتنی نرم دل تھی وہ۔صنوبر میری ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھی۔میں گھر آتا تو بنی سنوری میرے سامنے ہوتی پر مجھے کبھی اس میں اٹریکشن محسوس نہیں ہوئی۔میری زندگی میں اتنی لڑکیاں تھیں کہ مجھے اب صنوبر سمیت کوئی بھی لڑکی خاص نہیں لگتی تھی۔شادی کے دو سال تک ہم اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔چیک اپ کروانے پر معلوم ہوا کہ صنوبر کبھی ماں نہیں بن سکتی۔صنوبر بانجھ تھی۔پر مجھے اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ میری زندگی اتنی مصروف تھی کہ مجھے کبھی اولاد کی کمی محسوس نہ ہوئی۔پر صنوبر پہ یہ خبر پہاڑ بن کر ٹوٹی۔اس خبر کے بعد سے صنوبر بہت بیمار رہنے لگی۔اور میں اس کی پرواہ کرنے کی بجائے فیس بک پہ سارا نامی لڑکی سے دوستی بڑھانے کے چکروں میں مصروف رہا۔وہ میرے اعصابوں پر سوار ہونے لگی۔اس میں ایک عجیب طرح کی کشش تھی جو مجھے اپنی طرف کھنچنے لگی۔ایسا پہلی بار ہو رہا تھا میرے ساتھ اور آخر کار اس کا سحر مجھ پر اثر کر گیااور میں اس سے شادی کا خواہش مند ہو گیا۔

ایک رات میں نے صنوبر کو سارا کے بارے میں بتا دیا کہ میں بہت جلد سارا سے شادی کرنے والا ہوں۔وہ رات صنوبر کی میری زندگی میں آخری رات ثابت ہوئی۔صبح اٹھنے پر میں نے صنوبر کو مردہ حالت میں پایا۔رات کے کسی پہر اسے ہارٹ اٹیک ہوا اوروہ مجھے چھوڑ کر چپ چاپ اس دنیا سے چلی گئی۔وہ نرم دل لڑکی میری دوسری شادی کی خبر برداشت نہ کر سکی اور یہ دنیا ہی چھوڑ گئی۔ میں کچھ دن تک رنجیدہ رہا۔میں جیسا بھی تھا پر وہ بہت اچھی تھی میرا جس طرح خیال رکھتی تھی اب مجھے اس کی کمی محسوس ہونے لگی تھی۔پر جلد ہی میں نے اپنی کیفیت پر قابو پا لیا اور سارا سے کہا میں جلد ہی اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔تاکہ صنوبر کی یادوں سے پیچھا چھڑا سکوں۔پر سارا نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔اس کا کہنا تھا صنوبر کو میرے ظلم میری سفاکی نے مار ڈالا ۔تو کہیں میں اس کے ساتھ بھی ایسا ہی نہ کروں۔

Remember

Remember

میرے بہت وعدے کرنے ،بہت قسمیں کھانے پر بھی وہ نہیں مانی اور اپنے کزن کے ساتھ شادی کرکے انگلینڈ چلی گئی۔مجھے اب صنوبر کی یادیں اور زیادہ شدت سے ستانے لگیں۔مجھے پچھتاوے گھیرنے لگے۔میں نے ایک پیار کرنے والی مخلص لڑکی کی قدر نہ کی اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ان پچھتائوں نے مجھے ایسا گھیرا کہ میں نے موبائل ,لیپ ٹاپ استعمال کرنا چھوڑ دیا۔فیس بک چھوڑ دی ہر لڑکی سے تعلق ختم کر لیااور اب میں ہر شام لان میں بیٹھ کر صنوبر کو یاد کرتا رہتا ہوں اور ڈائری لکھتا رہتا ہوں۔کاش میں نے صنوبر کی قدر کر لی ہوتی تو آج وہ میرے سامنے کرسی پر بیٹھی چائے پیتے ہوئے مجھے دیکھ رہی ہوتی اور ان تتلیوں کو جو روز پھولوں پہ منڈلایا کرتی ہیں پر اب مجھے ہر شے بے رونق لگنے لگی ہے۔تتلیاں بھی بے رنگ لگنے لگی ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنی ساری خوبصورتی صنوبر کے ساتھ ہی دفن کر دی ہو۔کچھ اچھا لگتا ہے تو وہ صرف صنوبر کو یاد کرنا اور اس کی یادمیں ڈائری لکھنا ہے۔ انسانی فطرت ہے جو چیز انسان کے پاس ہو وہ اس کی قدر نہیں کرتا اور جب وہ چیز اس سے چھین لی جائے تب صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔ارحم کی زندگی بھی ان پچھتائوں کی نظر ہو گئی تھی وہ چاہ کر بھی صنوبر کو واپس نہیں لا سکتا تھا۔انسانوں کی قدر کرنا سیکھیں جو ایک دفعہ اس دنیا سے چلا جائے وہ کبھی واپس نہیں آتا۔بعد میں صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔

تحریر : انعم خاں، ملتان