رینٹ اے کار کا کاروبار کرنے والے اپلائیڈ فار گاڑیوں کو دوسرے نمبر لگا کر چلانے لگے

Vehicles Taxila

Vehicles Taxila

ٹیکسلا (ڈاکٹر سید صابر علی) رینٹ اے کار کا کاروبار کرنے والے اپلائیڈ فار گاڑیوں کو دوسرے نمبر لگا کر چلانے لگے،واہ کینٹ کے حساس ترین علاقہ میں جعل سازی کا انکشاف ،میڈیا کی آنکھ نے دیکھ لیا، سیکنڈل بے نقاب ہونے کے ڈر سے فوری طور پر ایک گاڑی نمبر پلیٹ اتار کر موقع سے غائب کردی گئی،میڈیا کے استفسار پر مالک کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکا،میڈیا کے نمائندوں کو انتہائی نتایج کی دھمکیاں،قبل ازیں بھی کتابوں کی جعلسازی میں پکڑا جاچکا ہے۔

سیاسی اثرو رسوخ ہمیشہ شفاف تحقیقات میں آڑے آجاتا ہے،گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بدل کر واہ کینٹ ٹیکسلا ، راولپنڈی ، اسلام آباد اور دیگر مقامات پر چلانے والے سیکورٹی اداروں کی آنکھ سے اوجھل ہیں،تفصیلات کے مطابقباوثوق زرایع سے معلوم ہوا ہے کہ لالہ رخ قبرستان روڈ پر قائم آصف کاپی سنٹرجو کہ مذکورہ مقام پر رینٹ اے کار کا کاروبار بھی کر رہے ہیںاس مقصد کے لئے دو درجن سے زائد گاڑیاں انکے پاس موجو د ہیں۔

حالات کی کشیدگی کے سبب یہ لوگ اکثر اپلائیڈ فار گاڑیوں پر دوسری گاڑی کی نمبر پلیٹ لگا کر رینٹ کے لئے دیتے ہیں ،اس اہم ترین انکشاف پر میڈیا نے تمام تفصیلات معلوم کیں اور موقع سے دو گاڑیاں ایسی پائیں جن پر نمبر پلیٹ یکساں تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کا گھناونز دھندہ یہاں عروج پر ہے ،اس ضمن میں جب مالک آصف خان کو پتا لگا تو اس نے فوری طور پر ایک گاڑی سے نمبر پلیٹ اتار دی اور گاڑی نا معلوم مقام پر پہنچا دی تاکہ کسی کو شبہ نہ ہوسکے۔

مگر جب میڈیا نے اسکا موقف جاننے کے لئے انکے موبائل نمبر0332-5338435 پررابطہ کیا تو موصوف نے پہلے تو ٹال مٹول جبکہ بعد ازاں موبائل بند کردیا،ادہر یہ امر قابل زکر ہے کہ بتایاجاتا ہے کہ مذکورہ شخص جو کتابوں کے کاروبار سے بھی منسلک ہے قبل ازیں آکسفورڈ کی جعلی کتابیں چھاپ کر سادہ لوح لوگوں کو فروخت کرتا رہا حقیقت آشکار ہونے پر ایف آئی نے اسے گرفتار کیا جبکہ یہ بھاری رقم دیکر جان خلاصی کرنے میں کامیاب ہوا۔

جبکہ مقامی پولیس نے بھی اسے گاڑیوں کے کیس میں گرفتار کیا تھا،بتایا جاتا ہے کہ جن گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں بدلی گئیں یہ نئے ماڈل کی سوزوکی ویگنر گاڑیاں ہیں،اور اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ جعلسازی عرصہ دراز سے چل رہی ہے، واہ کینٹ جیسے حساس علاقہ میں اس قسم کا کاربار سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔