نجفی رپورٹ اور اثرات

Model Model Town – Report

Model Model Town – Report

تحریر : روہیل اکبر
17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستانی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا جس میں14 افراد ہلاک اور90 کے قریب زخمی ہوئے تھے پولیس کی اس غنڈہ گردی کے بعد پنجاب حکومت نے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیا جس نے اس تمام واقعہ پر بھر پور تحقیق کے بعد ایک رپورٹ مرتب کرکے حکومت کے حوالے کردی جسکی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے حکومت نے یہ رپورٹ شائع کرنے کی بجائے روک دی جسکی اشاعت کے لیے پاکستان عوامی تحریک کے نمائندوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر بالاآخرعدالت نے نہ صرف اس رپورٹ کو عوام کے لیے شائع کرنے کا حکم دیا بلکہ اس رپورٹ کی ایک ایک کاپی متاثرین کو بھی فراہم کرنے کا حکم دیدیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متعلق جسٹس علی باقر نجفی کی تحقیقاتی رپورٹ 132 صفحات پر مشتمل پر مشتمل ہے اس رپورٹ میں سانحے کی وجہ بننے والے حالات و واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس وقت کے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ 16 جون 2014 کو اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ایک شخص کے فیصلے نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کے استعمال کی خطرناک حکمت عملی کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں اگلے روز ہلاکتیں ہوئیں جنہیں روکا جا سکتا تھا۔

اگرچہ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ میں سانحے کی ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی گئی، لیکن کہا گیا کہ رپورٹ پڑھنے والے حقائق اور حالات کی روشنی میں باآسانی منہاج القرآن واقعے کے ذمہ داران کا تعین کر سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آپریشن کے لیے 16 جون 2014 کی آدھی رات کوپنجاب پولیس حکم کی تعمیل کے لیے منہاج القرآن پہنچی، تاہم وہاں موجود مشتعل ہجوم اور عوامی تحریک کے ہمدردوں کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کے بعد پولیس نے جوابی کارروائی کے تحت مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی، جس سے جائے وقوع پر متعدد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے چند بعد ازاں دم توڑ گئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس والوں نے کھلے عام خون کی ہولی کھیلی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ پولیس والوں نے ایک دوسرے کو قانونی شکنجے سے بچانے کی کوشش کی اور کسی پولیس افسر یا اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ کس کے حکم پر پولیس نے فائرنگ شروع کی، ٹربیونل کو سانحے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مکمل اختیارت نہیں دیئے گئے تھے، جبکہ ٹربیونل کو مکمل اختیار نہ دے کر سچ کو چھپایا گیا اور سانحہ کے روز فائر کھولنے کاحکم یقیناًپولیس کے کسی افسر نے کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 کے سیکشن 128 کے تحت دیا، جس کا رینک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے کم نہیں ہوگا زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جب وفاقی حکومت نے پوچھا کہ پنجاب پولیس چیف اور ڈی سی او لاہور کو سانحے سے قبل کیوں ہٹایا گیا تو کوئی اطمینان بخش جواب نہیں آیا، ان حقائق اور حالت سے منفی تاثر ملتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام واقعے میں وزیر اعلی پنجاب کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات اٹھتے ہیں۔ان کے مطابق انہوں نے صبح ساڑھے 9 بجے ٹی وی پر کشیدہ صورتحال دیکھ کر فورا اپنے سیکریٹری ڈاکٹر توقیر حسین شاہ کو فون کیا اور پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینے کی ہدایت کی۔تاہم ان کا یہ بیان رانا ثنااللہ اور سیکریٹری داخلہ کے اس بیان سے مطابقت نہیں رکھتا جو انہوں نے پہلے دیا۔ دوسال قبل پنجاب کی صوبائی حکومت نے سانحہ ماڈل ٹان کی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے بند کمرے میں پیش کردی تھی تاکہ ججز مذکورہ رپورٹ کا انفرادی جائزہ لے سکیں۔اسپیشل ہوم سیکریٹری ڈاکٹر شعیب نے عدالت کے حکم پر حکومت کی جانب سے دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران مذکورہ رپورٹ پیش کی، جس میں حکومت نے عدالت کے مذکورہ رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھالاہور ہائی کورٹ کی جانب سے باقر نجفی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے حکم کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جرات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم نے انصاف کی جانب قدم بڑھایا ہے۔طاہر القادری کا کہنا تھا کہ رپورٹ کا شائع ہونا انصاف کی فتح کی جانب پہلا قدم ہے، جس نے ماڈل ٹان کے شہدا کے ورثا کو انصاف فراہم کرنے کی امید دلائی ہے ہم نے سوا تین سال انتظار کیا لیکن ایک بھی شخص قانون کے شکنجے میں نہیں آیا، ہم نے ریلیاں نکالیں، احتجاج کیے اور انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، لیکن ہم نے لوگوں کے ذہنوں میں عدلیہ کے خلاف کوئی بدگمانی پیدا نہیں کی۔

اس رپورٹ میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو عدالتی کمیشن نے ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اگر کمیشن نے وزیراعلی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تو رپورٹ 3 سال سے کیوں دبائی ہوئی ہے؟ جب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اس وقت سے ملک کے اور بلخصوص پنجاب کے سیاسی حالات خراب ہوتے نظر آرہے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک بار پھر کنٹینر تیار کرنے کا کہہ دیا ہے عمران خان نے بھی ڈاکٹر صاحب کے احتجاج کو بھر پور طریقے سے منانے کا اعلان کردیا ہے جبکہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر آصف علی زرداری بھی لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملنے جارہے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف پہلے ہی وزارت عظمی سے نااہل ہوچکے ہیں اور اب پنجاب حکومت کے خلاف احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے جارہا ہے جس سے پنجاب حکومت کا چلنا اب محال ہو جائیگا جبکہ کچھ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ پنجاب حکومت کے خاتمے کیلئے کافی ہے کیونکہ خادم اعلی میاں شہباز شریف صاحب متعدد بار یہ بات ببانگ دہل فرما چکے ہیں کہ اگرسانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالہ سے میری طرف انگلی اٹھے گی تو میں ایک منٹ کے لیے بھی اقتدار میں نہیں رہونگا اور استعفی دیکر گھر چلا جاؤنگااور اب رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اس واقعہ میں ملوث تمام چہرے بھی بے نقاب ہوچکے ہیں مگر رپورٹ میں موجود تاریخ کی غلطی نے پھر ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا پنجاب حکومت نے اس رپورٹ میں کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی ہے جس سے کچھ چہرے بچ سکیں مگر اب آنے والے دن پنجاب حکومت کے لیے بہت اہم ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر

03004821200