میاں صاحب عینک کا شیشہ صاف کریں

Mian Nawaz Sharif

Mian Nawaz Sharif

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
آپ کے نصیب میں جو ہے وہ آپ کو مل کر رہے گا کوئی آپ کی عزت دولت نہیں چھین سکتا جو کچھ اللہ رب العزت نے مقدر میں لکھ دیا ہے نہ اس سے بڑھ کر آپ کو ملے گا نہ اس سے کم۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے مولانا طارق جمیل کا اسلام آباد میں کئے گئے خطاب سے اقتباس لے لیا ہے۔نہیں جناب یہ گفتگو نادیہ خٹک کی ہے وہ پی ٹی آئی گرل جو عمران خان کے ہر جلسے میں ہوتی ہے ہر جگہ ہوتی ہے کبھی وہ دھرنے میں رواں آنسوئوں سے انقلاب لانے کی کوشش کرتی ہے کبھی بنی گالہ میں عمران خان کے گھر میں آنے والے کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے۔میاں نواز شریف کو اللہ تعالی سمجھے انہوں نے اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کی خواتین کے خلاف گفتگو میں عدم توازن سے کام لیا۔اس کا جواب عمران خان نے اگلے روز کراچی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بیگم کلثوم نواز کو جمہوریت کے لئے جد و جہد کا اعتراف کرتے ہوئے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔جان لیجئے یہ وہی میاں صاحب ہیں جو لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ کپتان کی زبان مناسب نہیں ہے۔میاں نواز شریف کو خواتین کے بارے میں ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہئے تھے۔ہمارے لئے بھی بعض اوقات مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں لوگ جب عمران خان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ان کے کردار پر گفتگو کرتے ہیں تو اس کا جواب ہمیں وہ تو نہیں دینا چاہئے جو یار لوگ دے دیا کرتے ہیں۔

میرے ایک محترم دوست جاوید بھٹی ہیں لاہور میں رہتے ہیں عابد شیر علی کی نازیبا گفتگو کے جواب میں میرے ویڈیو پیغام پر انہیں شکوہ تھا کہ آپ ان سخت الفاظ کے جواب میں سخت الفاظ نہ استعمال کریں اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔یہ کمال کا خوبصورت مشورہ ہے ۔میری ٹاک شوز میں ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ میں ذاتی امور پر گفتگو نہ کروں بعض اوقات جان بوجھ کر ایسی صورت حال پیدا کر دی جاتی ہے باتوں کا جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ایک اخباری رپورٹر کی حیثیت سے جدہ میں میرا قیام انہی دنوں کا ہے جن دنوں میاں صاحبان وہاں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے میرے اس سینے میں کئی ایک ایسے راز ہیں جنہیں یقین کیجئے اگر کھول دوں تو بھٹی صاحب مزید ناراض ہو جائیں گے۔لیکن اگر آپ طلال چودھری میاں عبدالمنان عابد شیر علی خواجہ سعد رفیق دانیال عزیز کو سن لیں تو جی چاہتا ہے کہ ہم بھی ننگ دھڑنگ ہو کر میدان میں کود پڑیں۔

قارئین سیاست میں گند کوئی حالیہ دور کا گند نہیں ہے ایک بار پیپلز پارٹی کے وزیر اطلاعات کوثر نیازی کے اخبار شہاب نے مولانا مودودی کا سر اداکارہ نغمہ کی تصویر کے اوپر لگا دیا تھا ۔قائد اعظم کو فضل الرحمن کے بڑوں نے کافر اعظم بھی کہہ دیا تھا اور نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین اور خود ذوالفقار علی بھٹو نے محترم فاطمہ جناح پر رکیک حملہ کیا تھا۔بیگم نسیم ولی خان کے بارے میں بے ہودہ گفتگو بھی کی گئی جناب اصغر خان کو بھٹو نے ہی آلو خان کہا تھا اور خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہا گیا ۔دروغ بر گردن راوی گجرانوالہ کے ایک بزرگ سیاست دان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں ے محترمہ فاطمہ جناح کی تصویر ایک نجس جانور کے گلے میں لٹکا دی تھی ویسے مجھے اتنا تو ضرور یاد ہے کہ اس وقت گجرانوالہ میں بی ڈی ممبران کے انتحابات ہو رہے تھے میرے والد صاحب بھی منتحب ہوئے تھے۔ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو یہ خبر سنی کہ کتیا کے گلے میں محترمہ کی تصویر لٹگائی گئی ہے اور وہ شہر کی مختلف گلیوں میں دیکھی گئی۔سیاست میں گند اس وقت سے ہی چلا آرہا ہے جب سے بنی آدم سیاست دان بنا ہے۔

موجودہ دور میں ایک منفی گروہ نے وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کرتحریک انصاف کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے خاص طور پر کنٹینر میں ان کے خطابات کا حوالہ دیا گیا ان کی ذات پر حملے کئے گئے ساتھیوں کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ۔ صرف عمران خان نے ہی نہیںپاکستان کی عوام نے بھی ان لٹیروں کو چور اور ڈاکو ہی کہا گیا جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو شیر مادر سمجھ کر پی لیا۔عمران خان جب دھرنے کے لئے اسلام آباد آ رہے تھے تو ان پر گجرانوالہ میں حملہ ہوا لاہور میںگلو بٹ نے طاہرالقادری کے جلوس کے شرکاء کو نشانہ بنایا لیکن اس چیز کو کبھی بھی ہمارے میڈیا نے نہیں اچھالا کہ پاکستان مسلم لیگ نون غنڈہ گردی کرتی ہے۔

آج پنجاب کے لوگوں کو علم ہے کہ شہر کے سب سے بڑے مافیا گروہ کا تعلق نون لیگ ہی سے ہے۔یہ لوگ سیاست کی آڑ میں اپنی ایمپائرز کو ترقی دے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ غنڈہ گردی کی سرپرستی کرنے والے اسی سیاسی پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں۔تحریک انصاف پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جو اقتتدار کی منزل کی جانب تیزی سے بڑ رہی ہے۔سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ یہ پارٹی بھی انہی مافیائوں کے ہاتھوں لگنے والی ہے بعض حلقے تو کہہ رہے ہیں کہ لگ گئی ہے؟یہ سوال ہر اس ورکر کا بھی ہے جس کو عمران خان نے خواب دیا تھا کہ وہ غریب کو اسمبلی میں بھیجیں گے۔٢٠١٣ میں کسی حد تک کارکنوں کو ٹکٹ بھی ملے گرچہ شکایات کا ایک پہاڑ بھی موجود تھا لیکن پھر بھی غریب کارکن اسمبلی میں پہنچے۔اس بار پھر پارٹی میدان عمل میں ہے کیا کارکن زندہ رہے گا یا اسے سرمایہ دار اور چلے ہوئے کارتوس امپورٹ کر کے مار کے رکھ دیا جائے گا؟اس کا جواب تحریک انصاف کی قیادت کو دینا ہو گا لوگ ہم سے پوچھتے ہیں ہم کن سے پوچھیں؟آنے والا وقت بتائے گا کہ خواب سچے ہوتے ہیں یا اس کی تعبیر کے مالکان خوابوں کو کسی وڈیرے الیکٹیبل کے دروازے پر لے جا کر بیچ دیں گے؟ پارٹی کا بڑا حصہ جاننا چاہتا ہے۔

آج کا موضوع سیاست میں اسلوب نفاست کی تلاش تھا ہم نے دیکھا کہ جبہ و دستار والے بھی ایک ایسے شخص کو یہودی کہہ دیتے ہیں جو نماز بھی پڑھتا ہے اور قران کی بات بھی کہتا ہے۔کیا یہ اسلوب سیاست پاکستان بننے والے وقت کی جانب نہیں لے جاتا؟جب قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر اعظم کہا جاتا ہے اور اب ان کی نسلیں قائد پاکستان عمران خان کو یہودی کہہ رہی ہیں۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو مدرسے کے طالب علم کے کان میں ڈالا جا رہا ہے۔وہ وہاں سے تیار ہو کر یہ سوچ لے کر نکلتا ہے کہ ہر داڑھی منڈوانے والا یہودیوں کے ایجینڈے پر عمل پیرا ہے ہر انصافین یہودیوں کا ایجنٹ ہے ۔انہیں وہ لوگ تو قبول ہیں جو سود کو حلال کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن ان سے نفرت ہے جنہوں نے سود کو حرام قرار دے کر اس کی قانون سازی بھی کر دی ہے۔داڑھی سنت ہے اس کا انکار گناہ ہے مگر یہ بھی تو نہیں کہ ہر داڑھی منڈہ یہودی ایجینڈے پر عمل پیرا ہے۔خاص طور پر جب انصافین کے ہاتھ اقتتدار آیا تو اس نے قرانی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا مدارس کے بائیس لاکھ طلباء کی فلاح کی بات کی۔اگر مدارس نے ایسے ہی شدت پسند پیدا کرنے ہے تو پاکستان کی فکر کرنا لازمی امر ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق المدارس کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو دیکھا جائے طلباء کو قومی دھارے میں لایا جائے آج بد قسمتی یہ ہے کہ مدرسے کا طالب علم سکول کے طالب علم سے کوسوں دور ہے۔

جہاد کی تعلیمات کو غلط انداز میں پیش کرنے سے مسلمانوں کا تاثر غلط پیدا کیا جا رہا ہے اور جیسا کہ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کے ان مدارس کو ایک سازش کے تحت بدنام کرنے کے لئے تحریک طالبان کھڑی کی گئی جس کے ڈانڈے انڈیا سے ملتے ہیں۔میں کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں اور ٹیلی ویزن پر ہونے والے مباحثوں میں کہہ چکا ہوں کہ جھوٹے طالبان جرمنی اور دیگر ملکوں میں تیار کئے گئے جو مسلمان بھی نہ تھے مگر گورے چٹے افغانوں کا روپ دھارنے کے لئے ان کی داڑھیاں لمبی کی گئیں یہ سنہ ٢٠٠٠ میں عربی اخبار الحیاة میں لکھا گیا تھا میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ایک سازش کے تحط طالبان کی تحریک کو ختم کیا جائے گا انہی کی شکل میں لوگ تیار ہوں گے جو اسکولوں پر حملہ آور ہوں گے ہماری فوج کا مقابلہ کریں گے اس میں نادان دوستوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہو گئی اور ہر اس قاتلانہ اور وحشیانہ کاروائی کو اسلام کے سچے مجاہدین کی کاروائی قرار دیا۔میں ان اہل مدارس سے ایک سوال کرتا ہوں کہ جب لال مسجد پر حملہ ہوا تو یہ مولانا فضل اور ان کے ساتھی مشرف کی گود میں بیٹھے کیا کر رہے تھے۔اس وقت ایک داڑھی منڈہ(انجینئر افتخار چودھری)مسجد کے پیچھے نالے سے قران کے اوراق چن رہا تھا پرویز رشید کے مدارس کے خلاف بیان پر احتجاج کس نے کیا تھا؟ اور عمران خان کے اس بیان پر کیا کہیں گے جب اس نے کہا تھا کہ دو انتہائیںاچھی نہیں ہیں آپریشن غلط کیا گیا۔

دوستو!سیاست میں نفاست شائستگی لازمی ہے۔چاہے وہ اہلیان کنٹینرز کی جانب سے ہو یا نون لیگی کیمپ سے اور یا پھر ہل مدرسہ کی جانب سے۔تحریک انصاف کو دور سے دیکھنے والوں کو علم ہی نہیں کہ یہاں بھی اللہ کے بندے اور بندیاں بستی ہیں۔جو اس ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے ہیں۔کچھ لوگ دھندلا دیکھ کر عجیب و غریب سوچنا شروع کر دیتے ہیں اگر وہ عینک کا شیشہ صاف کر لیں تو ان کی نظر بہتر ہو سکتی ہے۔میاں صاحب! تحریک انصاف کی خواتین کو صاف شیشے سے دیکھیں۔بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری