فرشتہ

Journalism

Journalism

تحریر : شیخ توصیف حسین
خداوند کریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ ظالم کا ساتھ دینے والے کو ظالم ہی تصور کیا جائے گا بس اسی لیے میں اس ملک کے مفاد پرست مذہبی و سیاسی رہنمائوں کے علاوہ اُن بیوروکریٹس جو ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کے اقدامات کر نے کے بجائے نوٹوں کی چمک سے مر عوب ہو کر ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہیں سے مل ملاپ اور بہتر تعلقات استوار کرنے سے گریزاں رہا ہوں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ضلع بھر کے مذہبی و سیاسی رہنمائوں کے علاوہ تمام اعلی افسران میرے نام کو جانتے ہیں لیکن میری شکل پہچانے سے قاصر ہیں۔

ہاں البتہ میرے لا تعداد صحافی بھائی جو صحافت کی عظمت سے لاعلم ہیں ان مفاد پرستوں کی چوکھٹ پر آئے روز سلام کر نا اور ان کے ساتھ تصویریں بنوانا بڑے فخر کی بات سمجھتے ہیں حالانکہ یہ مفاد پرست وہ ناسور ہیں جن کی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے سے نجانے کتنے گھروں کے چراغ گل ہو چکے ہیں جبکہ متعدد بند سلاسل اگر آپ ملک بھر کی جیلوں کا آ ڈٹ کریں تو وہاں پر غریب افراد جو بھوک سے نڈھال ہو کر دو روٹیاں چوری کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں کی تعداد حد سے زیادہ ہو گی جبکہ دوسری جانب ملکی دولت اربوں اور کھربوں روپے لوٹنے والوں کی تعداد نہ ہو نے کے برابر ہو گی جو کہ ایک تعجب خیز پہلو ہے بحرحال یہ مفاد پرست وہ ناسور ہیں جن کی لوٹ مار کے نتیجہ میں آج ہمارا یہ ملک جس کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے لاتعداد قربانیاں دی تھیں بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے جبکہ اس ملک کا بچہ بچہ غیر مسلم ملکوں کا مقروض بن کر رہ گیا ہے اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ مفاد پرست وہ ناسور ہیں جن کی زد میں آ کر نجانے کتنے غریب مظلوم افراد عدل و انصاف سے محروم ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جبکہ متعدد افراد اس پرآ شوب معاشرے کے ظالمانہ رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر چکے ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ ان مفاد پرستوں کے ظالمانہ نظام کی وجہ سے کئی غریب گھرانوں کی بہو بیٹیاں بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر فحاشی کے اڈوں کی زینت بن کر رہ گئی ہیں جو کہ ایک نہایت ہی شرمناک پہلو ہے اس کے باوجود میرے لا تعداد صحافی ان مفاد پرستوں سے بہتر تعلقات استوار کرنا فخر کی بات سمجھتے ہیں تو یہ اُس سے بھی زیادہ شرمناک پہلو ہے تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ دنوں کسی کام کے سلسلے میں تھانے پہنچا تو تھانے کے گیٹ پر مجھے ایک نوجوان نظر آ یا جو فیصل آباد کے اخبار کے مالکان کی جانب سے جاری کردہ پریس کارڈ گلے میں لٹکائے گیٹ پر کھڑے سنتری سے تھانے کے اندر جانے کی اجازت طلب کر رہا تھا جس کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ جو نوجوان صحافی تھانے کے اندر جانے کی اجازت سنتری سے طلب کر رہا ہے وہ ان مفاد پرستوں کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کیسے کر سکتا ہے جہاں تک میری سوچ کا تعلق ہے تو اس کا قصور وار وہ نوجوان صحافی نہیں بلکہ وہ اخبارات کے مالکان ہیں جہنوں نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو طوائف کا کوٹھا بنا دیا ہے جہاں پر آنے والے شخص کی قابلیت کو نہیں بلکہ اس کی پوکٹ کو مدنظر رکھا جاتا ہے بہرحال یہ ایک علیحدہ ایشو ہے ہاں تو میں بات کر رہا تھا اے سی جھنگ شاہد عباس جوئیہ کی کہ جس کے متعلق مجھے مختلف مکاتب و فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس پرآ شوب معاشرے میں جس میں نیچے سے لیکر اوپر تک ہر ایک شخص نفسا نفسی کا شکار ہو کر اور انسانیت کو سہولیات کی سیج پر لٹا کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھا ہے مذکورہ آ فیسر اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہےح

قیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسر کے اس اعلی اقدام کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ آ فیسر انسان کے روپ میں ایک فرشتہ ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح گندے پانی میں کنول کا پھول اپنا ایک علیحدہ مقام رکھتا ہے بالکل اسی طرح مذکورہ آ فیسر محکمہ مال جیسے کرپٹ ترین محکمہ میں اپنا ایک علیحدہ مقام رکھتا ہے مذکورہ آ فیسر مظلوم افراد جو عدل و ا نصاف سے محروم ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں کیلئے سایہ شجردار کی حیثیت رکھتا ہے سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسر کو جب غریب مظلوم سا ئل ملتے ہیں تو انھیں یوں محسوس ہو تا ہے کہ مذکورہ آ فیسر پر اطمینان اور پیارو محبت کے فرشتے روز اترتے ہیں مذکورہ آ فیسر جب کسی غریب سائل سے گفتگو کر رہا ہوتا ہے تو غریب سائل کو یوں محسوس ہو تا ہے کہ جیسے مذکورہ آ فیسر کی زبان پر دنیا بھر کا شہد اُمڈ آ یا ہو در حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسر کرپشن کی اند ھیر نگری میں ایک قطب ستار ے کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس کی چمک سے اس کا محکمہ جگمگا رہا ہے مذکورہ آ فیسر کا شمار ان چند ایک ایماندار اور فرض شناس آ فیسروں میں ہوتا ہے جو اپنے فرائض و منصبی کو عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں مذکورہ آ فیسر اس ظالمانہ نظام کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہے مذکورہ آفیسر اپنی ایمانداری سے ادا کیئے گئے فرائض و منصبی کو یوم نجات سمجھتا ہے۔

مذکورہ آ فیسر کے اس اعلی اقدام کی وجہ سے عوام اور محکمہ مال جھنگ میں تعنیات عملہ کے درمیان جو نفرت کی دیوارت کھڑی ہو رہی تھی وہ آ ہستہ آ ہستہ گر رہی ہے مذکورہ آ فیسر کی اس اعلی کارکردگی کو دیکھ کر مظلوم افراد اسے ایک معجزہ قرار دے رہے ہیں چونکہ مذکورہ آ فیسر کی تعنیاتی سے قبل محکمہ مال جھنگ کا ہر اہلکار لا قانو نیت کا ننگا رقص کرنے میں مصروف عمل تھا جس کی زد میں آ کر نجانے کتنے غریب افراد اپنی وراثتی زرعی زمینوں سے بے دخل ہو کر رہ گئے تھے بہرحال مذکورہ آ فیسر کی تعنیاتی اور فرض شناسی کو مد نظر رکھتے ہوئے لا قانونیت کا ننگا رقص کرنے والا ماتحت عملہ ایسے سہم گیا ہے جیسے سیاہ رات میں صبح کا پرندہ مذکورہ آ فیسر کی ان باتوں کو سننے کے بعد مجھے پہلی بار شوق پیدا ہوا مذکورہ آ فیسر کو ملنے اور دیکھنے کا جس کیلئے میں مذکورہ آ فیسر کے دفتر پہنچا بھی لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مذکورہ آ فیسر ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی کیلئے بلائی گئی میٹنگ میں ہیں تو میں وہاں سے بس یہی کہتا ہوا واپس چلا آیا کہ خداوندکریم میرے ملک کے باقی ماندہ اعلی افسران کو توفیق دے کہ وہ بھی مذکورہ آ فیسر کے نقش قدم پر چل کر ملک وقوم کی خدمت کر سکے یہاں پر مجھے خداوندکریم کا وہ فرمان یاد آ گیا کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تمام عبادات سے افضل عبادت حقوق العباد کو قرار دیا ہے۔

اے اللہ میری توقیر ہمیشہ سلامت رکھنا
میں فرش کے سارے خدائوں سے اُلجھ بیٹھا ہوں

Sheikh Tauseef Hussain

Sheikh Tauseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین