حقوق اور فرائض

Rights

Rights

تحریر : عدنان احمد
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے اور زندگی کے چند سال دوسروں کے رحم و کرم پہ گزارنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اُ س کے والدین اس کی پرورش کرتے ہیں اچھے بُرے کی تمیز سکھاتے ہیں اور زندگی میں آگے بڑھنے میں اُ س کی مدد کرتے ہیں۔ اگر اسلام کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں اولاد کی پرورش کے حوالے سے بڑی راہنمائی ملتی ہے اور اسلام میں اس کو اولاد کے حقوق کا نام دیا گیا ہے۔ ہم والدین کے حقوق پہ تو بڑی بحث کرتے ہیں اور مختلف دلیلیں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ والدین کے حقوق بہت ضروری ہیں اور اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ والدین کے حقوق ضروری ہیں۔

والدین کے حقوق سے پہلے اولاد کے حقوق پہلی شرط ہے اور پیدائش سے لیکر سن بلوغت تک اولاد کے حقوق کو پورا کرنا والدین پہ فرض ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان جو بیجتا ہے وہی کاٹتا ہے اگر آج پیار محبت اور اچھی تربیت سے شروعات کی جائے تو اُس کے ثمرات کل کو ضرور نظر آئیں گے اور اگر والدین بچوں پہ غیر ضروری تنقید، نفرت اور غصہ کا اظہار کریں گے تو اُن والدین کو بھی بوڑھاپے میں اولاد سے محبت اور شفقت نہ مل سکے گی۔ یہ فقط چند الفاظ کی بات نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جسے معاشرے میں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ پیاربھی اولاد کو بگاڑ دیتا ہے اور ضرورت سے زیادہ تنقید بھی بچوں کی صلاحیتوں کو دبا دیتی ہے۔ آپۖ اپنی اولاد کے ساتھ بڑی محبت اور شفقت فرماتے تھے جب حضرت فاطمہ تشریف لاتیں تو اپنی جگہ سے اُٹھ کر استقبال کرتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور نہ صرف اولاد بلکہ اولاد کی اولاد سے بھی محبت کا معاملہ فرماتے اور اپنی امت کو بھی ایسا کر نے کا حکم فرمایا۔اولاد کے حقوق میں سب سے بہترین حق یہ ہے کہ جب اولاد بالغ ہو جائے، چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی تو اُس کا اچھی جگہ پر نکاح کر دیا جائے ۔ لیکن ہمارے ہاں والدین میں ایسی سوچ کا فقدان پایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ابھی شادی کے لئے بہت عمر پڑی ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق اِس دور میں انسانوں کی اوسط عمر 40سے 55 سال کے درمیان رہ گئی ہے۔

اگر کوئی لڑکا یا لڑکی بیس بائیس برس کی عمر میں شادی کی خواہش کا اظہار کر دے تو اُس پہ نفرت اور تنقیدی الفاظ کی بارش کر دی جاتی ہے ۔ والدین اور معاشرے کا یہ نفرت انگیز رویہ اُن بچوں کو نکاح سے باغی کر کے گناہ کی وادی میں پھینک دیتا ہے۔ آپ ۖ کی حدیث مبارکہ ہے کہ اگر بالغ لڑکا یا لڑکی شادی نہ ہونے کی وجہ سے کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو اُس گناہ میں اُس کے والدین بھی برابر کے شریک ہوں گے۔

بھاگ دوڑ والے اس دور میں ان باتوں کی پرواہ کوئی بھی نہیں کرتا لوگ اس طرح کی باتیں سنتے تو ضرور ہیں مگر صرف سننے کی حد تک، عمل کی طرف پیش قدمی کرنے والے افراد کی تعدا بہت کم ہے۔ میرے ایک جاننے والے ہیں انہوں نے اپنی بچی کی شادی کی تو میں نے لوگوں کے منہ سے سنا کہ انہوں نے بڑی جلدی شادی کر دی ابھی اُس کی عمر ہی کیا تھی اور بعد میں مجھے معلوم پڑا کہ اُس کی عمر تو 26 برس ہے اور اگر شادی کے لئے 26 سال کی عمر بھی کم ہے تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو میری طرف سے 21توپوںکی سلامی۔۔۔۔۔۔! حضرت عائشہ کا نکاح حضرت محمد ۖ سے سات برس کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو برس کی عمر میں ہوئی ۔

قارئینِ کرام میں اپنے عنوان سے مُنحرف نہیں ہو رہا بلکہ یہ سب باتیں کرنے کا مقصد آپ لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا تھا کہ حقوق اور فرائض کی جنگ ہم صرف اسی صورت میں جیت سکتے ہیں کہ فیوچر پلینگ اور مال و دولت کی گاڑی سے اُتر کر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور ہر کام کو اُس کے مقررہ وقت پہ پورا کیا جائے۔ اس میں اولاد کی پروش ہو تعلیم و تربیت ہو ، خوراک کا انتظام ہو یا پھر نکاح کا معاملہ ہو۔
اس سے پہلے اجل کے شعلے تباہ کر دیں حیات ساری
اس سے پہلے قبر میں اُترو ادا کرو تم سبھی فرائض

Adnan Ahmed

Adnan Ahmed

تحریر : عدنان احمد