گجرات فسادات کے کسی مجرم کو سزائے موت نہ ہوسکی، بھارتی عدالت نے فیصلہ سنا دیا

 indian

indian

نئی دلی (جیوڈیسک) بھارتی عدالت نے گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے کے مقدمے کے مجرموں کو سزائے موت کے بجائے بعض کو چند سال اور بعض کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق گجرات فسادات کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے جج بی پی دیسائی نے 60 سے زائد مسلمانوں کے قتل میں ملوث 66 میں سے 24 افراد کو قتل کا مجرم قراردیا تھا جنہیں آج سزائیں سنا دی گئیں لیکن کسی بھی مجرم کو سزائے موت نہیں دی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں 11 مجرموں کو عمر قید، 12 کو سات سات سال قید اور ایک مجرم کو 10 سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے گجرات فسادات کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تمام 24 مجرم معاشرے کے لئے لعنت نہیں بلکہ سزا کے بعد ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔

خصوصی عدالت نے ستمبر 2015 میں ٹرائل مکمل کرلیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے ہدایت جاری کی تھی کہ فیصلہ 31 مئی تک سنا دیا جائے تاہم 2 جون کو خصوصی عدالت کی جانب سے مختصر فیصلہ سنایا گیا جس میں 24 افراد کو قتل کا مجرم قرار دیا گیا جب کہ عدالت نے 11 افراد کو قتل کا براہ راست مجرم اور دیگر 13 کو ان کا معاون قراردیا تھا۔

کیس کی تفتیش کے دورن 338 عینی شاہدین کے بیانات قلمبند ہوئے اور 66 افراد کو ملزم قرار دیا گیا جس میں سے 5 افراد ٹرائل کے دوران ہی ہلاک ہوگئے تھے۔ ہندو انتہا پسندوں کا نشانہ بننے والے کانگریس رہنما احسان جعفری کی بیوہ زکیہ جعفری نے موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی فسادات کا ملزم قرار دیا تھا جنہیں بعدازاں مقدمے سے بری کردیا گیا تاہم عدالت کے آج کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے زکیہ جعفری کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔

واضح رہے کہ 28 مئی 2002 کو بھارتی ریاست گجرات کے شہراحمد آباد میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی گلبرگ سوسائٹی پرحملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں کانگریس کے پارلیمانی رکن احسان جعفری سمیت 69 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جب کہ اس وقت ریاست گجرات کے وزیراعلی بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی تھے۔