عروج و زوال

Sad Businessman

Sad Businessman

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے جو منظر تھا میں اِس کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، گردشِ شب و روز وقت کی رفتار کسی انسان کا اسطرح بھی تنزل کر سکتی ہے، میرے دماغ میں حسنِ لا زوال پیکر حسن و جمال کا تصور تھا، یہاں معاملہ اِس کے بلکل بر عکس تھا میں نے خو شبوئوں سے معطر دلکش رنگوں سے لبریز سنگِ مرمر سے تراشے ہو ئے لافانی حسن کے جس شاہکار کو دیکھا تھا یہاں اُس کا ہلکا سا عکس بھی نہیں تھا، زوال اور بیماری کسی کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کر سکتے ہیں، یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ میں نے حسن و جمال کے دلنشیں جس پیکر کو دیکھا تھا، وہ تو زندگی خو بصورتی اور دل کش رنگوں سے بھر پور تھا ایسا بھر پور سرا پا ایسا لازوال حسن جس کے لاکھوں مداح اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ترستے تھے، وہ جب کبھی بھی ٹی وی یا سلور سکرین پر نظر آئی سکرین پر قوس قزح کے رنگ بکھر جاتے، اُس کی روشن آنکھیں اور دلکش سراپا اور نقرئی شیریں مدھم سریلی آواز دیکھنے اور سننے والے پر سحر پھونک دیتی، اُس کی آواز اور دل نشیں حسن کو دیکھتے ہی دیکھتے، اُس کا اسیر ہو کر رہ جاتا مہبوت ہو کر اُس کے سحر میں گم ہو جاتا، پھر وہی ملکہ ہوتی تھی پھر کن فیکون کے مقام پر وہی ہوتی تھی، پھر دیکھنے والا اُس کے شاہکار احسن کا اِس طرح قیدی بنتا ہپناٹائز ہوتا کے اُس کے ابروئے چشم پر اپنا تن من دولت وارنے کو تیا ر ہو جاتا۔

اپنا غرور خودی ہر چیز اُس کے قدموں میں وارنے کو تیار ہو جاتا اُس کی تیز نظر کا جو بھی شاہکا ہوا وہ پھر اپنا نہ رہا وہ ساری عمر غلامی کے لیے تیار ہو جاتا اِس کے حسن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ ہزاروں کلومیٹر کا سفر کر کے آتے اور گھنٹوں اِس کی راہ دیکھتے اور جو ایک بار دیکھ لیتا وہ اِس ایک جھلک کو ہی متاع حیات سمجھ کر ساری زندگی اِس ایک جھلک یا لمحے کو خوب انجوائے کرتا نوجوان تو نوجوان بوڑھوں کے دلوں کی بھی دھڑکن بن چکی تھی، لوگ سانسوں کی مالا پر اِس ساحرہ کا نام جپتے اِس کی زندگی کا ریکا رڈ تھا کہ اِس نے جو لباس ایک بار پہن لیا دوبارہ اُسے کبھی نہ پہنا اِس کو ہمیشہ سے ہی عادت تھی، کسی محفل کسی تقریب میں سب سے لیٹ جانا تاکہ لوگ اِس کا انتظار کر سکیں، پر جس تقریب میں جاتی جس گلی سے گزر جاتی اِس کے حسن کے صد رنگ جلوے چاروں طرف پھیل جاتے اِس کی آمد بہار کی آمد ہوتی اِس کا جانا خزاں کی مانند سمجھا جاتا تھا اِس کو حسن کی دیوی کے ساتھ ساتھ مقدر کی دیوی بھی سمجھا جاتا تھا، جس پروگرام میں یہ شامل ہوتی وہ ہٹ ہو جاتا اُس پروگرام کی ایڈوانس میں ٹکٹیں بک جاتیں، پہلے اِس حسن کی دیوی کی شہرت نے ایک شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا پھر اِس کے حسن کی خوشبو نے پورے ملک کو معطر کیا اور پھر اِس کی شہرت سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی دور دراز کے ملکوں تک پہنچ گئی اِس کے پر ستار اب اندرون ملک کے ساتھ ساتھ اب بیرون ملک بھی بن چکے تھے، اس کی چمکتی روشن مسکراتی آنکھوں کی گہرائی میں ہر کوئی ڈوب جانا چاہتا تھا۔

اس کی ایک ادا ئے بے نیازی دیوانے تڑپ تڑپ جا تے پر ستار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پیش کرتے لیکن یہ مغرور حسینہ دیکھے بنا گزر جاتی ویسے تو خالقِ کائنات نے کائنات کے چپے چپے کو اپنی عظیم الشان خلاقی کا گلشن بنا دیا، اُس عظیم خالق نے گلشنِ کائنات کو محسور کن لا زوال حسن سے سجا دیا، کا ئنات میں حسن کے جلوے ترتیب تنوع اور چپے چپے بلکہ ذرے ذرے کو ایسا دلکش رنگ منظر رعنائی رنگینی بخشی ہے، کہ ذرہ ذرہ آپ کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے، کلیاں شگوفے پتہ پتہ رنگین بوٹا بوٹا حسین خوشبو کی انفرادیت الگ الگ اور مسحورکن خوشبو جدا جدا سینکڑوں ایسے مناظر کے انسان پتھر کا مجسمہ ہو کر اُس کے سحر میں بت بن جائے آنکھ جھپکنا تک بھول جائے، ہر منظر کی رعنائی اور دلکشی اِیسی کر نظر ہٹانا مشکل ہو جائے۔

Sea

Sea

نیلگوں آسمان کی وسعت بلند و بالا پہاڑیوں کی ہیبت سمندر کی ٹھاٹھیں مارتیں موجیں بادلوں کی آنکھ مچولی شیر اور چیتے کی دھاڑ دیو ہیکل ہاتھی کی چنگھاڑ خوبصورت پرندوں کی سریلی آوازیں گلاب کی تازگی نرمی خوشبو نفاست موتیے کی مہک اور چاند جیسی خوبصورتی، کلی کی چٹک پھولوں پتوں گھاس پر پڑے شبنم کے قطرے اور اُن قطروں کی طہارت قوس و قزح کا جادوئی حسن سورج دیوتا کی تپش چاند کی ٹھنڈی چاندنی آسمان کی وسعتوں میں قندیلوں کی طرح روشن لا تعداد ستاروں کی قطاریں کہکشاں کی قطار صبح کا اجالا اور عطرت کا اظہار شام کی اداسی اور تھکاوٹ بادِ صبا کا مسحور کن جھونکا طوفان کی جولانی سیلاب کی منہ زور سرگرادنی بادلوں کی گرج تیزبا رش مٹی پر بارش کی پہلی بوندیں اور مٹی سے اٹھتی مہکتی خوشبو دریا کا پانی دریا کا پراسرار شور اور دریا ئی مٹی کی اور پانی کی خوشبو تیز بارش میں بجلی کا کوندا دیو ہیکل لمبے ہزاروں سالوں سے کھڑے پرانے پراسرار درخت جنگل کا سکوت فطرت کے نظا رے ہر طرف دیہات اور کھیتوں کا سکون شہروں کی ہنگا مہ خیز زندگی شہروں کے ہجوم سقراط کی فرزاندگی مجنوں کی دیوانگی ہیر کا حسن رانجھے کا عشق سلطان با ہو میاں محمد بخش بلھے شاہ ہیروارث شاہ شاہ حسین کا صوفیا نہ کلام کسی شاعر کا اچھوتا نا در شعر نادر تخیل نثر نگا ری کی جا دوگری دلکش خو بصورت دلنشیں مکھڑے دل کش چہروں کی تھکا وٹ بچوں کی معصومیت اور ان کے چہروں پر تبسم کا نور چشمِ غزالان امیر خسرو کا گداز شاعری سوز و ساز رومی عشق بے پنا ہ محبوب کی ادائیں سجن بے پروا بنا رس کی صبح اودھ کی شاپ یو رپ کا غرور عقل اشیا کا سرور عشقِ اہل حق کے چہروں پر پھیلا ملکو ئی حسن اور لہجوں میں شہد کی سی مٹھاس پاکباز ان خدا پرست کی قربت پہا ڑوں کا سلسلہ طو فانی آبشاروں کی روانی دل نشیں قا مت کی طو فانی لہریں گیسو کی شکن اور خو بو ئے بدن گداز جسم کیا بجلیاں ہیں جو قدرت نے کا ئنا ت کے چپے چپے میں بھر دی ہیں۔

کائنات کا چپہ چپہ خا لق عظیم کی خلا قیت کا منہ بو لتا ثبو ت ہے کو ن کا فر ہے جو اِس لا زوال حسن کے جلوئوں میں کھو کر اِس کے خالق کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہو تا اِس عظیم کا ئنا ت میں سب سے بڑھ کر انسان کا وجود ہے۔ انسان جو اگرچہ آسمان سے بلند اور صحرا ئے وسیع نہیں ہے اور نہ ہی سمندر سے گہرا اور پہا ڑوں سے اونچا ہے نہ ہی حیوانوں کی طرح سخت کشیں اور نہ ہی جنوں کی طرح پراسرار اور حیرت انگیز اور نہ ہی قدسی ملا ئکہ کی پا کیزگی اور معصومیت حاصل ہے لیکن خدا کا نائب ٹہرا کہیں جب یہ جوانی اور اقتدار کے نشے میںڈوبا ہوتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ دنیا اُسی کے دم سے چلتی ہے اور جب رگوں میں دوڑتا خو ن سرد پڑتا ہے اور بیماری بڑھا پا چہرے کی لا لی چھین کر ویرانی کے رنگ بھر تا ہے تو اپنی اوقات یا د آتی ہے اِس وقت میرے سامنے بھی اہنے وقت کی بہت بڑی اداکارہ ہڈیوںکا ڈھانچہ بنی پڑی تھی شوگر اور دوسری بیما ریوں نے اِس کے جسم کو کھنڈر بنا دیا تھا ایک ٹانگ کا ٹ دی گئی تھی اب دوسری کی با ری تھی آنکھیں رخسار اندر دھنس چکے تھے چہرہ کالا سیا آنکھوں کی چمک اور چہرے کی لا لی کب کی منہ موڑ چکی تھی وہ بے نور بے رونق چہرے کے ساتھ میری طرف التجا آمیز تا ثرات سے دیکھ رہی تھی۔

آج یہ بے بسی کی زندہ لاش بن چکی تھی میں لاہور مشہو ر نجی ہسپتال میں کسی دوست سے ملنے آیا تھا میں اِس کے کمرے کے سامنے سے گزر رہا تھا میرے جاننے والی عورت اندر سے نکلی اُس نے مجھے پہچان لیا اور کہا اپنے وقت کی مشہور و معروف اداکار ہ مو ت کی دہلیز پر پڑی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے آپ پلیز دعا یا دم کر دیں تو میں اندر آگیا اند بیڈ پر حسین جمیل عورت کی جگہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بیما ری نے سارا خون اور حسن نچوڑ لیا تھا اب یہ سسکتی بلکتی آخری سانسیں گنتی زندہ لا ش تھی جو کسی بھی وقت مٹی کا ڈھیر میں تبدیل ہو نے والی تھی میں سوچ رہا تھا کہ جب یہ جوان تھی اُس وقت یہ جس محفل یا ہسپتا ل میں جا تی تھی پرستاروں کا میلا لگ جا تا تھا اِس کی ایک جھلک کے لیے آج کسی کو پتہ بھی نہ تھا کہ وقت کی بہت بڑی حسین و جمیل عورت اس ہسپتال کے بیڈ پر کسمپرسی میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے کا ش انسان اقتدار طاقت حسن کے عروج پر اپنی آخرت کا سوچ لے تو کبھی بھی اِس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے بسی کی مو ت نہ مرے۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956