خطرات میں گھرا پاکستان

Pakistan

Pakistan

تحریر : پروفیسر مظہر
خواہشات کے لامحدود جزیرے ہر سیاستدان کے چہرے پر، اذہان وقلوب مسخر، حصولِ اقتدار کا ادھورا خواب پورا کرنے کے لیے انا، غیرت، خودی اور خودداری ،سب کچھ داؤ پر۔ کسی کو ملک کی پرواہ نہ قوم کی۔ حالات سقوط بغداد کے سے کہ اُدھر ہلاکو خاں بغداد کی فصیلوں پر کمندیں ڈال رہا تھا، اِدھر شہر میں پانچ سو جگہوں پر مناظرے۔ پھر بغداد کا جو حشر ہوا ،وہ تاریخ مگر خونچکاں۔ وہ سانحہ تو کہن مگرسقوطِ ڈھاکہ تو ابھی کل ہی کی بات، جب پلٹن میدان میں دسمبر کی ٹھنڈی دھوپ تلے ہماری عظمتیں تار تار اور غیرتوں کی نیلامی سرِبازار۔ کتنا کربناک تھا وہ منظر جب اُدھر بھارتی جرنیل ”اروڑا” نے جنرل نیازی کی غیرتوں کے تمغے نوچے اور اِدھر ایک شرابی آمر نعرہ زَن کہ جنگ ابھی جاری ہے لیکن جنگ تو ہم ہار چکے تھے۔ قائدِاعظم کا پاکستان دو لخت کیا ہوا ،گویا جینے کی ہر آرزو چھِن گئی اور اُمید کی ہر کرن ذلتوں کی لہد میں دفن ہو گئی۔

وقت بہت بڑا مرہم، وہ سانحہ فراموش ہوامگر آج بھی حالات اِس نہج پر کہ فضاؤں کی سرگوشیاں لرزاں بر اندام کر رہی ہیں لیکن
مجھے اے ناخُدا روکے گا تُو کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

قحط الرجال کا یہ عالم کہ تکذیب و تکفیر کے عادی بھوکے ”مردار خوروں” میں قائدانہ صلاحیتیں نایاب، ایجنڈا محض افراتفری۔ہوسِ اقتدار کے بھوکے بھیڑیے چیرپھاڑ کے لیے تیار، ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار لیکن کسی کو ادراک ہی نہیںکہ سقوطِ بغداد کی طرح دشمن آج بھی فصیلوں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آزادوخودمختار پاکستان کو دھمکیاں، الزامات کی بارش اور امداد کی بندش۔ یہ ردِعمل ہے اقوامِ متحدہ میںاُس عبرت ناک شکست کاجو امریکی صدر کے بیتِ مقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد مخالفانہ قرارداد کی منظوری کی صورت میں سامنے آئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اقوامِ متحدہ میں جس نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اُس کی امداد بند کر دی جائے گی۔ پھر بھی عبرت ناک ہزیمت اور ذلت ہی حصّے میں آئی۔ امریکہ بہادر نے کسی پر تو غصّہ نکالنا ہی تھا،قرعہ فال پاکستان کے نام نکلا کہ اِس قرارداد کے محرکین میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اُدھر ٹرمپ کے بیان پر نریندر مودی کی باچھیں بھی کھِلی جا رہی ہیں۔بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں میں تیزی آچکی ، ہندو لالے کا خیال ہے کہ اقتصادی رہداری کا منصوبہ خواب وخیال بن کے رہ جائے گا۔

یہ بجا کہ امریکی دھمکیوں کا پاکستان نے جرأت مندانہ جواب دیا، پوری قوم ایک صفحے پر نظر آئی اور امریکی امداد کو یکسر مستررد کرتے ہوئے ”ڈومور” کے جواب میں ”نومور” کہہ دیا گیا۔ وزیرِاعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کو امریکی امداد کی مطلق ضرورت نہیں۔ وزیرِخارجہ خواجہ آصف نے کہا ”امریکہ یار نہیں، یار مار ہے”۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے امریکی صدر کے اِس بیان کی پُرزور مذمت کی۔ سوال مگر یہ ہے کہ سُپر پاور کی اِن دھمکیوں کے جواب میں ہم نے کیا عملی اقدام اُٹھائے؟۔ دینِ مبیں کا تو حکم ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھولیکن ہماری توپوں کا رُخ تو اپنوں ہی کی طرف ۔غلیظ سیاست کا گندہ کھیل رچایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی فضائیں اِس کھیل کی بدولت مسموم ہو رہی ہیں۔ بلوچستان میں کھیل رچانے والے دراصل پاکستان کی سالمیت کے خلاف میدانِ عمل میں ہیں۔ عام انتخابات میں محض پانچ ،چھ ماہ باقی جب بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ نواب ثناء اللہ زاہری کے خلاف عدمِ اعتماد کا شور اُٹھا۔ نواب صاحب مستعفی ہو کر گھر سدھارے اور قاف لیگ مسند نشیں۔ میاں نوازشریف نے کہا ” بلوچستان میں جو کچھ ہوا وہ قوم کے ساتھ گھناؤنا مذاق تھا۔ وہاں ایسے شخص کو وزیرِاعلیٰ بنا دیا گیا جس کی ضمانت ضبط ہونے جا رہی تھی”۔ وزیرِداخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ اِس سارے ڈرامے کا مقصد محض سینٹ کے انتخابات کو سبوتاژ کرنا ہے جو وفاقِ پاکستان کے لیے ہرگز نیک شگون نہیں ہوگا۔

یہ سارا کھیل نون لیگ کی حکومت کو سیاست سے آؤٹ کرنے کے لیے رچایا جا رہا ہے جو فی الحال تو ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ قومی وبین الاقوامی سرویز اب بھی نوازلیگ ہی کی مقبولیت ظاہر کر رہے ہیںالبتہ ۔۔۔۔۔ البتہ خاکم بدہن کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے ۔ اللہ نہ کرے کہ سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔ ہم پہلے بھی ایک سانحہ بھگت چکے جب واضح اکثریت رکھنے کے باوجود شیخ مجیب الرحمٰن کو حقِ حکمرانی دینے سے گریز کیا گیا اور ملک دولخت ہو گیا۔ اب بھی دوتہائی اکثریت کے حامل وزیرِاعظم کو ایک اقامے پر نکال باہر کیا، سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی، سرمایہ کاروں کے اربوں ڈوب گئے اور ترقی کا پہیہ جام ہوگیا۔ اب میاں صاحب کی زباں بندی کی کوششیں جاری۔ 16 جنوری کو 13 ویں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں صاحب نے کہا کہ اُنہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اُن کے خلاف کیس کیا ہے۔ پھر اِسی حوالے سے اُنہوں نے ایک لطیفہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک فلم کی بہت زیادہ پبلیسٹی کی گئی۔ جب فلم چلی تو ایک دِن کسی شخص نے ڈائریکٹر سے پوچھا کہ فلم کیسی چل رہی ہے؟۔ ڈائریکٹر نے جواب دیا ”پہلے ہفتے زبردست چلی ، دوسرے ہفتے زبردستی چلائی جا رہی ہے”۔

ایک دفعہ میاں صاحب نے اَزراہِ تفنن کہا تھا ”سارے رَل کے سانوں پے گئے نیں”۔ میاں صاحب کا یہ کہا بالکل سچ ثابت ہو رہا ہے۔ اعلیٰ ترین عدلیہ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ آج بھی متنازع ہے اور اِسے عوام کی غالب اکثریت نے قبول نہیں کیا جس کی واضح مثال چکوال کا ضمنی انتخاب ہے جس میں تحریکِ انصاف کے حصّے میں بُری ہزیمت آئی اور نوازلیگ کا امیدوار اپنے مرحوم باپ سے بھی کہیں زیادہ ووٹ لے گیا۔ چکوال کی انتخابی تاریخ میں اتنے ووٹ کسی کے حصّے میں نہیں آئے۔ پانچ رکنی بنچ کے متنازع فیصلے کے بعد بھی سیاسی جماعتیں نوازلیگ کا گھیراؤ کرنے میں مصروف ہیں۔ مولانا کنیڈوی اپنے وطن سے پاکستان آچکے اور آج مال روڈ پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف ،پیپلزپارٹی اور قاف لیگ اُن کے دست وبازو۔ مولانا صاحب عمران خاں اور آصف زرداری کو دعوتِ خطاب دے چکے۔ سوال مگر یہ کہ کیا یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا درد ہے یا کچھ اور ؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ اِن اپوزیشن جماعتوں کے دِل میں سانحہ اڈل ٹاؤن کا درد اچانک کیوں جاگا؟۔ حقیقت یہی اور قوم بھی خوب جانتی ہے کہ مولانا طاہرالقادری سمیت کسی کا مقصد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کا قصاص نہیں بلکہ صرف نون لیگ کا گھیراؤ جس کے خطرناک نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

Professor Mazhar

Professor Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر