میاں یار محمد کی نگری میں رضوان حمید کا قتل

Faqeer Rizwan Hameed

Faqeer Rizwan Hameed

تحریر : ایم آر ملک
اعصاب شل ہو جائیں تو حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔ دسمبر کی کہر آلود رات کے سائیں سائیں کرتے سناٹے کو جب گولی کی آواز نے چیرا ہوگا تو کوسوں دور اکلوتے بیٹے کی بے چین ممتا تڑپ اُٹھی ہو گی۔ سسکتے ہوئے رضوان حمید نے جانے کس کس کو پکارا ہوگا ؟سرخ مٹی کے خون کے ابلتے ہوئے لہو سے لال ہو گئی ہوگی اور موت کی کشمکش میں زخموں سے چور اسے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہوگا ۔درد کی شدت نے اس کے وجود کو جھلسایا ہوگا تو اس نے بے اختیار ماں کو پکارا ہوگا ۔یہ ایک ماں کے احساسات ہیں جس کے آنسو کئی روز سے جاری ہیں یہ خیال آتے ہی اولاد والوں کے دل میں اک ہول اُٹھتا ہے۔

ماں کی محبت کی حد کا آخری سرا نہیں ہوتا ۔اللہ تعالیٰ کے بعد ماں ایسا رشتہ ہے جس کی دعائیں ساتھ ہوں تو زندگی کی صعوبتیں کاٹنے کا اک حوصلہ ساتھ رہتا ہے۔ یہ یقین دل کو مضبوط رکھتا ہے کہ کہیں قدم لڑکھڑا بھی گئے تو ماں کی دعائیں تھام لیں گی ۔گرنے نہ دیں گی ۔مگر ایک درندے کی بندوق سے نکلی گولی نے ماں کی گود اجاڑ دی ۔وہ سارے خواب جو ماں نے ایک بیٹے کی شکل میں دیکھے تھے ویران ہوگئے اور منزل کا کوئی نشان باقی نہ بچا ۔زندگی ایک بوجھ بن گئی جڑوں سے کٹ کر کوئی پودا ہرا نہیں رہ سکتا ۔یہی عالم اک ماں کا ہے جس کی چیخیں اور کراہیں کہیں اندر ہی گھٹ کر مر گئی ہیں۔ اک آس اب ہر نئے طلوع ہونے والے دن کے ساتھ بندھی رہے گی کہ کب رضوان حمید کے قدموں کی چاپ سنائی دے۔کب بند کواڑوں پر دستک دے ؟ اک اک لمحہ انتظار کے کرب میں گزرے گا ۔لاڈ میں پل کر جوان ہونے والا بیٹا کوئی خونی چھین لے تووقت مرہم نہیں بنا کرتا ،دھول اس پر نہیں جمتی ۔بیٹے کی تصویر ہر لمحہ احساس پر رہے گی ۔بے بسی پر وہ سسکے گی ،دل دھڑکنا بھول جائے گا ۔یہ احساس ہر وقت بوٹیاں نوچے گا کہ کاش رضوان حمید کو گھر سے نہ نکلنے دیا جاتا۔ ملک سجاد اعوان ،شہزاد رمضان ،ملک اشفاق شاقی کی جوانیوںکو میں نے دھاڑیں مارتے دیکھا۔ یہ مکروہ منظر میری آنکھوں نے بارہا دیکھا ،انتقام کی اندھی گولیاں بے گناہوں کا خون پیتی ہیں۔ ”قاتل درندے بے رحم ہوتے ہیں ان کے ہاتھ بندوق کا ٹریگر دباتے ہوئے نہیں کانپتے۔ رضوان حمید جیسے معصوم نوجوانوں کی لاشیں گراتے ہوئے وہ وحشی بن جاتے ہیں۔

اک اضطراب اور بے چینی قدرت کی جانب سے ہمارے وجود میں گوندھ دی گئی ہے۔ مہاڑ میںصدیوں سے کھیلا جانے والا خونی کھیل اندھے اعتماد کا ہے ،توقعات کا ہے۔ جنہیں لٹنا ہو وہ بھی اعتماد کے سہارے لٹتے ہیں ۔یہ اعتماد بھی کیا چیز ہے وقت کو تو یونہی ہم ظالم کہتے ہیں ،ہرجائی گردانتے ہیں لیکن ہمارا سب سے بڑا دشمن تو یہی اعتماد ہے جسے ہم اپنا خون پلا کر اپنے ہی وجود کی دیواروں میں نقب لگانے کو جوان کرتے ہیں ۔توقعات اسی کے سہارے حد سے بڑھتی جاتی ہیں ۔یہ اندھا رہبر ہمیں راہ دکھانے کے بہانے انگلی پکڑ کر چلتا ہے اس اندھے اعتماد کی پیاس پھر لہو سے بجھتی ہے۔ رضوان حمید بھی اسی اعتماد کا شکار ہوا فقیر محمد سعید نے بھی ایک قاتل خاندان کو گلے لگائے رکھا مگر اس خاندان کے اندر کا شیطان نہ مرسکا ۔یہ خاندان ازل سے حافظ محمد صدیق کے خاندان کا ویری تھا۔

سچ ہے کہ روح کے سناٹوں اور ویرانی کا سبب کسی پر اندھا اعتماد ہوتا ہے اسی اعتماد کے ہاتھوں میں کھیل کر خونی فتح خان نے رضوان حمید کا قتل کیا ۔رضوان حمید ایک خوبرو ،شریف النفس اور باکردار نوجوان تھا اس کی موت کا جس نے بھی سنا اس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی بجائے لہو اُتر ا ہوا دیکھا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر رویا جائے ۔ اک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں میاں یار محمد کی نگری کی فضائوں کا سینہ درد سے بوجھل ہے ۔ہوائوں میں لہو کا شور بڑھتا جارہا ہے اور چوآ شہر کی گود جوان لاشوں سے بھرتی جارہی ہے۔ انتقام کی فصل نسل در نسل بوئی اور کاٹی جارہی ہے۔

ہمارے اسلاف نصیحت کر گئے کہ زن ،زر،زمین کے فساد سے بچنا اِن کی ہوس میں جوانیاں کفن اوڑھ کر کندھوں پر قبرستان تک کا سفر کرتی ہیں۔ زندگیاں عذاب گزرتی ہیں۔ غیرت کے نام پر لاشیں گرانے کی رسم مائوں کو بانجھ کر رہی ہے ۔معمولی شک کئی نوجوانوں کی زندگی چاٹ چکا۔ ایسے قتل کو غیرت کا نام دینے والے بے غیرت جب جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچتے ہیں تو اپنی اسی بیٹی کا بازو پکڑ کر جس کی خاطر ایک ماں کی گود اُجڑی مقتول کے خاندان کو ونی کر دیتے ہیں ۔پھانسی کے پھندے سے بچنے کیلئے لاکھو ںکی رقم اس رشتے کے علاوہ ہوتی ہے غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں سے بھی مجھے یہ سوال پوچھنا ہے کہ اُس وقت ان کی غیرت کہاں کھڑی ہوتی ہے۔

دسمبر پھر بھاری گزرا ہے 17دسمبر کی شام جب تمام دن کا تھکا ہارا سورج پہاڑوں کی اوٹ میں اپنے چہرے پر سرخ خون کی لالی لئے ڈوب رہا تھا ۔رضوان حمید کو سفر آخرت پر روانہ کرنے کیلئے ہزاروں کے ہجوم کی آنکھوں سے برسات برس رہی تھی ۔باپ فقیر محمد سعید کو کئی افراد نے کندھوں سے تھام رکھا تھا ۔ایک بوڑھے باپ کے شانے جواں سال بیٹے کی مرگ پر جھک گئے شاید یہ کندھے بیٹے کی میت اُٹھانے کا حوصلہ ہار گئے تھے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک