روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام

Rohingya Muslims

Rohingya Muslims

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
چار سو سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ہزاروں گھروں کے جلا ڈالنے پر مغربی دنیا اسطرح خاموش رہی جیسے اسے زہریلا کالا سانپ سونگھ گیا ہو ۔پاکستانی سیاستدان خورشید شاہ نے سکھر میں تقریب کے دوران ان کے بہیمانہ قتل پر بجا ریکارڈ کرایا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے لوئر دیر میں عید ملن پارٹی سے خطاب کے دوران عالم اسلام کی متحدہ فوج فوراً برما بھجوانے اور برمی سفیر کو پاکستان سے واپس بھجوانے کا بجا مطالبہ کیا ہے تاکہ مسلمانوں کی نسل کشی کو ختم کیا جا سکے شریفین نے اس پر کوئی بیان نہیں دیادیگر حکمران بدستور خاموش تما شائی کا کردار اداکررہے ہیں۔بلاول بھٹو نے برما کے مسلمانوں کے قتل عام پر بہت زبردست احتجاجی بیان جاری کیا ہے اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں قرارداد جمع کروادی ہے۔صرف وزیر خارجہ نے مذمت کی روایت نبھائی ہے کاش کوئی قابل وزیر خارجہ متعین ہوجاتا تو وہ فوراً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رابطہ کرکے میانمار میں قتل عام کو رکواتا مگر امریکہ برطانیہ جاپان اور جنوبی کوریا کو “تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”اپنی حفاظت کی پڑی ہوئی ہے کہ شمالی کوریا نے پھر ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کردیا ہے اور وہ ان سبھی کے لیے خطرہ کا نشان بنا ہوا ہے سلامتی کونسل کا اجلاس شمالی کوریا پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کررہا ہے کہ الکفر ملةً واحدة ًکی طرح اپنے اپنے مفادات کے لیے سارا عالم کفر اکٹھا ہے مگر کشمیر میں ایک لاکھ شہیدوں کے بعد بھی 67سالہ پرانی سلامتی کونسل کی قراداد کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے گا پر عمل درآمد کیوں رکا ہوا ہے صرف اسلئے کہ اس میں مسلمانوں کا ہی بہیمانہ قتل ہورہا ہے اور مخالف فریق ہندو ہیں۔کاش عالم اسلام بھی متحد ہو کر مشترکہ فوج مشترکہ کرنسی مشترکہ کاروبار مشترکہ بنکنگ کا اسلامی طریقہ کار اختیار کرلے تو مسلمانوں پر ہر جگہ سامراجیوں کے مظالم ختم ہوسکتے ہیں مگر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔

جب ہم کئی اسلامی ممالک کوبڑے غنڈہ سامراج کی باجگزار ریاستوں کا روپ دھارے ہوئے دیکھتے ہیں ۔اور جہاں جہاں اسلامی ملک کی فوج مظبوط ہے ان کو دبانے اور فرقہ واریت کے عفریت کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں یہی حال روہنگیا مسلمانوں کا ہے کہ وہ در بدر پھر رہے ہیں بنگلہ دیش چونکہ بھارتیوں کے زیر اثر ہے اس لیے وہ بھی ان مسلمانوں کو تحفظ دینے سے گریزاں ہے اس کے بارڈر پر ساٹھ ہزار مظلوم موجود ہیں مگر وہ ملک کے اندر آئے ہوئے لوگوں کو بھی واپس دھکیل رہا ہے80کی دہائی میں پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی مگر کیا ایسا آج بھی ہوسکتا ہے؟چونکہ برسر اقتدار افراد اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے ان کا دھیان ادھر کو جاتاہی نہیں اپنا اقتداری سنگھاسن ڈول رہا ہو تو مقتدر افراد کم ہی دوسروں کی تکالیف کی طرف دھیان دیتے ہیں۔

برما کی افواج کی طرف سے اقلیتی مسلمانوں کے قتل عام پر پاکستان کی قومی اسمبلی و سینٹ کوفوری طور پر اس معاملہ کو اٹھانا چاہیے او آئی سی نے اب تک کوئی کردار ادا نہیں کیا وہ بدستور خواب خرگوش میں مدہوش ہے عالم اسلام بھی تقریباً سو رہا ہے صرف ترک صدرطیب اردگان نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی سرحدیں مظلوم مسلمانوں کے لیے کھول دیں سارا خرچہ ترکی دے گاہنگامی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روہانی اور طیب اردگان نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سلامتی کونسل نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور انہیں جلا کر مار ڈالنے کا نوٹس نہ لیا تو وہ ساری سرحدیں عبور کرکے برمی مسلمانوں کی امداد کو پہنچیں گے۔

عالمی برادری و انسانی حقوق کی تنظیمیں اور موم بتی مافیا بھی اب تک کوئی رول ادا نہیں کر سکیں۔برمی افواج بھی فلاحی تنظیموںکو جائے وقوعہ پر پہنچنے سے روک رہی ہیں چائنہ کے ساتھ بھی میانمار کا 1270کلومیٹر کا بارڈر ملحقہ ہے وہ بھی اس میں ممد و معاون ہو سکتا ہے بین الاقوامی میڈیا تو 400افراد کے قتل کا ہی دعویٰ کر رہا ہے مگر وہاں1400سے زائد شہید افراد میں سے زیادہ زندہ جلائے جا چکے ہیں ساٹھ سے زائد بچوں کے چھریوں سے سر کاٹے گئے ہیں اور انھیں عملاً زبح کیا گیا ہے ہیومن رائٹس واچ ایشیا نے ہزاروں گھروں کو 17مقامات پر نذر آتش کیا ہوا دیکھا ہے آنگ سان سوچی جو کہ وہاں کی واحد نسل پرست حکمران ہیںان کی ایسے بہیمانہ قتلوں پر غیر جانبداری نما پالیسی کی پوری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے اور ان کو دیا گیا امن کا نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ ذور پکڑتا جارہا ہے۔کہ ان کابلوائیوںاور اپنی افواج کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام سے نہ روکناخود بہت بڑا جرم ہے۔پاکستان جو کہ واحد ایٹمی اسلامی ملک ہے اس میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے اور اسے عالم اسلام کے سربراہوں کی کانفرنس اپنے ہاں بلواکردنیائے اسلا م کے ا س مسئلہ کو فوری حل کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔وما علینا الا البلاغ۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری