روہنگیا مسلمان کون ہیں؟ کس حال میں ہیں؟

Rohingya People

Rohingya People

تحریر: علی عمران شاہین
کڑکتی دھوپ ہے توسر پر سائباں نہیں ،پائوں ہیں لیکن ان کے تلے زمیں نہیں۔ بھوک سے تڑپتا اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بناجسم ہے لیکن کھانے کو ایک لقمہ نہیں۔تاحد نگاہ پھیلے کھلے سمندر میںتیر رہے ہیں لیکن پینے کو پانی کا قطرہ نہیں۔50لوگوں کے بیٹھنے والی بوسیدہ کشتی ہے تو اس میں سوار 500سے زائد، اور ایسے افراد 8 ہزار سے زائد جنہیں یوں سمندروں میں دھکے کھاتے تین ماہ ہو چکے ہیں۔کیسے سوتے ہوں گے؟کیسے بیٹھتے؟کیسے دن رات گزارتے ہوں گے؟ 7ارب انسانوں کی دنیا میں کروڑوں انہیں دیکھ رہے ہیں لیکن کسی کے منہ میں ان کے لئے زبان نہیں کہ ان کی بات ہی کر سکے۔یہ ہیں برما (میانمار)کے روہنگیا مسلمان جو زندگی بچانے کی کوشش میں ڈوب ڈوب کر مرتے ہیں ۔انہیں بیچا بھی جاتا ہے، اغوا بھی کیا جاتا ہے اور اگر ان سے کچھ نہ ملے تو انہیں مار کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔جس طرح یورپ میں آج بھی ترک ہونے کامطلب مسلمان ہوناہے۔ چین میں ”اویغور” نسل سے تعلق کامطلب بھی مسلمان ہونا ہے۔اسی طرح برما میں ”روہنگیا” ہونے کامطلب بھی مسلمان ہونا ہی ہے۔

بارہ سو سال قبل اسلام اس خطے میں داخل ہوا تھا تواس ساحلی علاقے میں بھی مسلمانوں نے بود وباش اختیار کرلی۔ پندرھویں صدی کے آغاز میںیہاں کے بادشاہ نے دشمنوں سے لڑنے کے لیے شاہ بنگال جلال الدین محمد سے مدد مانگی، یوں بنگالی فوجی روہنگ (برما) کے علاقے میں پڑائوڈال کر یہیں کے ہو گئے۔ پھر مسلمانوں نے اس علاقے کا نام ارکان اسلام کی نسبت سے ”ارکان” رکھ دیا جو انگریزی میں ”اراکان” اوربرمی میں ”راکین” یا ”راکھین” کہلاتا ہے۔ رکھ دیا گیا۔ اس طرح یہاں کے لوگ روہنگیا کہلائے تو ان کی زبان بھی روہنگیائی کہلانے لگی۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے برصغیر میں سامراجی قدم رکھا تو اراکان بھی ان کی زد میں آ گیا۔ برما کے بدھ بھکشو انگریزوں کے لیے کسی کام کے نہ تھے، اس لیے بنگال سے انگریزوں نے کام کے سلسلے میںمسلمانوں کو یہاں لاکرآباد کیا۔ جب برما کے خطے میں برطانوی راج قائم ہوا تو 1891ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 58255 شمارہوئی۔

1911 ء میں یہ آبادی 178647 شمارہوئی۔ اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی آبادی 7 سے 8 لاکھ کے درمیان ہے۔ مسلمان سب سے پسماندہ تھے۔ نہایت ہی کم اجرت پرمزدوری کرتے اورزندگی کی سانسیں پوری کرتے۔اسی عرصے میں راکھین کے مسلمانوں کے خلاف بودھوں کی مسلم دشمنی پروان چڑھتی رہی اور وہ مسلمانوں پرحملہ آور بھی ہوتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم میںبرطانیہ نے یہ علاقہ چھوڑ دیا اورجاپان کاقبضہ ہوا۔ یہ مسلمانوں کے لیے بدترین دور ثابت ہوا۔صرف 28 مارچ 1942ء کے دن ہزاروں مسلمانوںکو (5ہزار سے زائد) منبیا اور مروبانگ کے علاقوں میں بودھوں نے قتل کر ڈالا ۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے دوران علاقے پر برطانیہ کاقبضہ تھا۔

Japan

Japan

اس لیے مسلمانوں کو جبری طورپر لڑنے اور برطانوی فوج کی مدد و تعاون کے لیے کام کرنا پڑتا تھا لیکن جب یہ علاقہ جاپان نے فتح کر لیا تواس وجہ سے بھی مسلمانوں پر بہت برا وقت آیا اور بودھوں کے ساتھ ساتھ جاپانیوں نے ہزاروں مسلمانوں کوبے دردی سے شہید کرڈالا۔ بے شمار عورتوں کی عزتوں کی پامالی ہوئی اور سینکڑوں بستیاں جلا دی گئیں۔ لٹے پٹے لاکھوں مسلمانوںنے مسلمان بنگلہ دیش (اس وقت مشرقی پاکستان) چٹاگانگ کارخ کرلیا۔ ہزاروں نے برما اور بنگلہ دیش کے درمیان جنگلوں’ ساحلی پٹیوں اور دلدلی زمینوں میں بسیرا کیاجو آج تک ان کا مسکن ہے۔

برما میں پہلا فوجی انقلاب1962ء جبکہ دوسرا 1978ء میںآیااور پھر مسلمانوں پرظلم کی وہ آندھی چلی کہ انسانیت شرماگئی۔1982میں ان مسلمانوں کی برمی شہریت ختم کر کے انہیں سرے سے مٹانے پر کام تیز ہو۔مظالم کا اگر جاننا ہو تو اس کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل ایسے ادارے کی رپورٹ سے ہی آپ کو کچھ اندازہ ہوگاکہ ”روہنگیا کی تمام معمولی آزادیاں تک کچل کررکھ دی گئی ہیں۔اب تو ان کی شادیوں تک پرپابندی ہے۔ ملک میں جہاں کہیں ترقیاتی اور تعمیراتی کام ہوں ان میں روہنگیا مسلمانوں کو عورتوں بچوں سمیت جبری مزدوری پر لگا دیا جاتاہے جس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ کھانااس قدر گھٹیا کہ محض زندہ رہا جاسکتا ہے۔کوئی زخمی یا بیمار ہوجائے تو معمولی دوا تک نہیں۔یوںاس کامقدر موت ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی میں کچھ ہی کم ہوسکاہے۔”

1978ء میں فوج نے آپریشن ”ناگمین”(اژدہوں کابادشاہ)کاآغاز کیا ۔ ظلم کی اس آندھی میں 2لاکھ مسلمان بنگلہ دیش کی طرف بھاگے۔جو سامنے آیا’اسے گولی ماردی گئی۔بے شمار مسلمان قتل ہوئے۔ مسلم خواتین کی وسیع پیمانے پرعصمت دری ہوئی۔ بے شمار مساجد برباد اور ہزاروں گھر جلادئیے گئے۔ مسلمانوں پر ایسا دوسرا طوفان1991-92ء میںآیا ۔ فوج کے انتہائی خوفناک آپریشن میں5لاکھ مسلمان بنگلہ دیش کی جانب بھاگے۔ بے شمارقتل ہوگئے ۔جو کچھ صحت مند تھے’ وہ خرکارکیمپوں کی نذرہوئے۔ اس کے بعد برمابھرمیں آج تک جتنے تعمیراتی اور ترقیاتی کام ہوئے’ان سب میں مفت مزدوریہی مسلمان تھے جنہیں مارمار کرکام کروایا جاتا تھا ،وہ حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔

Bangladesh

Bangladesh

ان لوگوں کی بے بسی اور کیا ہوگی کہ برما انہیں بنگالی کہتا اور مار مار کر اسی طرف دھکیلتا ہے، تو بنگلہ دیش بھی مار کر واپس بھیجتا ہے۔ وہ بھاگ کر کبھی تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں تو کبھی انڈونیشیا اور ملائشیا کا لیکن انہیں کہیں بھی جائے پناہ نہیں ملتی۔ ان کی بوسیدہ کشتیاں غرق ہو تی ہیں تو یہ بھوکے پیاسے سمندری مخلوق کی خوراک بنتے ہیں۔یوں یہ مسلمان چکی کے پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد انسانی مخلوق ہے جس کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت اور کاغذات نہیں،سویہ کوئی ملکیت رکھ سکتے ہیں، نہ کسی جگہ شکایت کر سکتے ہیں۔ اسی لیے تو برماکے طاقتور اورظالم بودھ عوام و مسلح افواج جب چاہیں

انہیں گاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیتے ہیں لیکن کوئی ان سے معمولی بازپرس نہیں کرسکتا۔ کسی مسلمان کوپختہ دیوار تک بنانے کی اجازت نہیں۔روہنگیا اس قدربے کس و بے بس ہیں کہ کسی کے پاس زمین ‘جائداد’گاڑی یاکوئی اور ملکیت نہیں ۔ مسلمانوں پریہ تک پابندی ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز کھانے کے لیے نہیں خریدسکتے جس سے ان کے جسم کے موٹا یا طاقتور ہونے کا امکان ہو۔ یہاں مسلمان معمولی علاج نہیں کروا سکتے…ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے…؟ برما اور بنگلہ دیش کی سرحدکے درمیان سمندرکے کنارے ہی سمندروں سے مچھلیاں پکڑتے ہیں،وہیں سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ سمندر کنارے کاعلاقہ بارشی ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیاں اورخودروسبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔یہی ان کی خوراک ہے۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بناکر وہ زندگی کی سانسیں پوری کرتے ہیں۔

ان مسلمانوں کواراکان سے نکل کر ملک کے دیگر حصوںمیںجانے کی قطعاً اجازت نہیں بلکہ وہ توایک گاؤں سے دوسرے گاؤں نہیںجاسکتے۔ حکومت نے چونکہ مارمار کردلدلی ساحلی علاقے میں دھکیل رکھاہے’اس لیے یہاں نہ سکول ہیں نہ ہسپتال نہ کوئی سڑک اورنہ کوئی دوسری سہولت۔اس صورتحال سے تنگ آکر لاکھوں برمی مسلمان کئی دہائیوں سے بنگلہ دیش کی سرحدپر گل سڑ رہے ہیں۔ 2 لاکھ پاکستان خصوصاًکراچی میں آبادہیں۔ 1لاکھ تھائی لینڈ کے ساحلی دلدلی علاقوں میں واقع پناہ گزین کیمپوں میں ایسی فلاکت کی زندگی بسر کررہے ہیں جسے دیکھ کر زمین وآسمان بھی کانپ اٹھے۔ 40 ہزار ملائشیا، 4 لاکھ سعودی عرب،چند ہزار انڈونیشیا توچندہزار دنیاکے باقی ملکوں میں دھکے کھارہے ہیں۔ان کی سب سے اچھی اوربہترصورتحال پاکستان اور ملائشیا میں ہے۔ اگر آپ کو کبھی اتفاق ہوتو تھوڑی دیر کے لیے کراچی میں ہی واقع برمی کالونیوں کاچکر لگاکردیکھئے کہ سب سے بہترحال میں بسنے والے برمی پاکستان میں کس طرح خانہ بدوشوں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اس سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ سب سے بہتربرمی مسلمان اگریہ ہیں توپھر برما اور بنگلہ دیش میں کیسے ہوں گے…؟ 15 سال کی عمرکوپہنچنے والے برمی بچوںکی اوّلین کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھاگ کردوسرے ملک چلے جائیں۔ اسی کوشش میں ہرہفتے ‘مہینے کتنے روہنگیا سمندرکی نذرہوجاتے ہیں۔ انڈونیشیا اور سوڈان توڑ کر دو عیسائی ملک مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان بنانے والے صلیبی ممالک خاموش ہیں۔ ادھر میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو مسلمانوں نے نجات دہندہ سمجھ کر اس کی بھر پور حمایت کی تھی لیکن آج سوچی مکمل خاموش ہے۔اقوام متحدہ سمیت سارا عالم تماشائی ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین