سعادت حسن منٹو

Saadat Hasan Manto

Saadat Hasan Manto

تحریر : اسد زمان
میں نے منٹو کو صرف کتابوں میں پڑھا تھا۔ کتابوں میں موجود اس کی شبہیہ کو ہی دل ودماغ میں رکھ کر اس کو پڑھا اور اس کی شخصیت سے واقف ہونے کی سہی کرتا ۔اس کوپڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ جیسے ہمارے معاشرے کی ایکسرے مشین ہو جو اس سماج کا ایکسرے کر کے رکھ رہا ہو جس وقت اس نے یہ لکھا ہو گا اس وقت تو اس کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا لیکن آج اس کو بہت کی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی زندگی پر فلمیں ڈرامے بنائے جا رہے ہیں ،میرا تعلق اس کا صرف ایک لکھاری اور قاری کا تھا لیکن میرے لاہور کے مختصر قیام کے دوران اس تعلق کو ایک نئی طرح ملی، ان ہی دنوں لاہور کے سینما گھر میں سرمد کھوسٹ کی منٹو کی زندگی پر بنائی گئی فلم کا سنا تو اسے دیکھنے چل پڑا۔

فلم دیکھنے کے بعد میری مسرت کی انتہا نہ رہی اور دل میں کئی اور سوالوں کے ساتھ جوسوال بھی سر اٹھا رہے تھے کہ جو کردار منٹو کے افسانوں میں پڑھتا رہا ،وہ سکرین پر کیسا لگتا ہو گا ۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں منٹو کو عام طور پر ایک غیر مہذب ، فحش نگار اور گندی کہانیاں لکھنے والا ہی کہا جاتا ہے۔

جہاں ناقدین کی ایک بڑی تعداد ہے اس کے باوجود منٹو کے چاہنے والوں کا بھی شمار ممکن نہیں ہے ، اس سے بھی بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ جس منٹو کے افسانوں پر ہمیشہ پابندی لگائی جاتی رہی ،ممبئی سے لے کر کراچی اور لاہور کی مختلف عدالتوں میں اس پر بے شمار مقدمے چلائے جاتے رہے ہیں ،آج وہی ملک بھر کے سینماؤں میں سر عام دیکھایا جا رہا ہے ۔ منٹو کو مقدمات کا سامنا تو کرنا ہی پڑا بلکہ وقت کے علماء کرام کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ فتوے کی بھی لگائے جاتے رہے ، منٹو کی زندگی بڑی عجیب طرح سے گزری ،افسانہ نگاری کو نئی طرح دینے والے اس افسانہ نگار کو ذہنی اذیت دینے اور پاگل تک قرار دے کر پاگل خانے بھی بھیجا گیا۔

Saadat Hasan Manto

Saadat Hasan Manto

منٹو کے افسانوں سے یہی لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنی بھڑاس نکال رہے ہوں ،اس کی تحریریں ایسی تھیں کہ سب کا خیال تھا کہ وہ اپنے افسانوں سے آگ پھیلاتا تھا۔ناول افسانے دماغی تخیل کی پیداوار ہوتے ہیں ، اس نے بھی تو امرتسر میں آنکھ کھولی تھی اور کٹھن زندگی کا سامنا کرتے کرتے ہندوستا ن کا بٹوارہ بھی دیکھا اور یوں امرتسر کا منٹو جو ذات کا کشمیری تھا ،بیوی کے پر زور اسرار پر ہجرت پر مجبور ہوا ، ہندوستان کے بٹوارے سے منٹو کی شخصیت پر غہرے اثرات مرتب ہوئے ،اس نے زندگی میں بہت سی تنگیاں ،تلخیاں اور تکلیفیں برداشت کیں۔

اس نے کہا تھا کہ ” اگر تم میری باتوں سے منہ چراتے ہو تو تم اپنے اصلی چہرے سے منہ چھپا رہے ہو ”۔ منٹو کا طرز تحریر بہت تلخ تھا ، اس کے الفاظ بہت تلخ لیکن اس کی باتیں وہ جو آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ منٹو نے جو بھی لکھا سچ لکھا اور یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس جیسا لکھاری صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے ۔ اور منٹو کی اس ادا کے کیا کہنے کہ میرے الفاظ گندے نہیں تمھاری سوچ گندی ہے میرے صرف الفاظ ننگے ہیں ننگے سے مراد معاشرے کی وہ برائی جو اس نے ملک پاکستان کے اندر دیکھی اور اسے اسی طرح حرف بہ حرف کاغذ پر لکھ ڈالا ۔ ہمارا معاشرہ تو منٹو کو غیر مہذب ، کافر اور فحش افسانہ نگار جیسے الفاظ کے نشتر چبوتا رہا لیکن اس نے لکھنا نا چھوڑا ، اور وہ جب بھی قلم اٹھاتا تھا سفید کاغذ کے ورق پر 786 کیونکر لکھتا تھا ؟حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ وہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہان شہر لاہور میں منٹو پاک ٹی ہاؤس میں سگریٹ سلگائیہاتھ میں قلم پکڑے معاشرے میں پیدا برائیوں کا پردہ چاک کرتا تھا اور آج یہ وہی منٹو ہے جو شراب نوشی میں دھت ، کسی بائی کے کوٹھے اور پیشیوں سے باہر نکل کر پورے پاکستان کے سینما گھروں کی زینت بنا ہوا ہے۔

اس نے جن معاشرتی برائیوں کا اس وقت ذکر کیا تھا آج اگر ہم سب دل پر ہاتھ رکھ کر ایک محب وطن بن کر سوچیں کہ آیا وہ تمام برائیاں ہمارے ملک، معاشرے سے ختم ہو گئی ہیں ؟۔اگر سعادت حسن منٹو کی تحریروں سے بغاوت کی آگ بھڑکتی تھی ،اگر منٹو ایک ترقی پسند ہونے کے ناطے اس ملک سے برائیوں کے خاتمے کا خواہاں تھا تو میں کہنے میں کوئی عار محسوس نہیںکرتا کہ ہاں میں منٹو ہوں ”۔بس نام کا ہی سہی پر میں منٹو ہوں ۔وہ منٹو کام کا تھا جسے ہم نے ہمارے معاشرے نے غربت اور ذلت کی موت مارا۔

منٹو اگر تم زند ہ ہوتے تو دیکھتے کہ آج تمھارے ٹکٹ دھڑا دھڑ بک رہے ہیں ،تمھارے پاس وہسکی پینے کے لئے پیسے نہیں تھے ، حکومت تمھارے خلاف تھی ،سوسائٹی میں تمھارے خلاف آگ بھڑکی تھی آج تمھارے نام کے ساتھ کسی اور کی تصویر لگا کر وہی سینسر والے پیسے کما رہے ہیں ، آؤ منٹو آؤ اور آ کے دیکھو کہ آج کی نوجوان نسل تمھیں پسند کرتی ہے تمھیں چاہتی ہے ،ہزاروں لاکھوں چاہنے والے تمھیں دیکھ رہے ہیں ۔ منٹو کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم بلاشبہ ایک بہترین شاہکار ہے۔

Saadat Hasan Manto Afsanay

Saadat Hasan Manto Afsanay

سعادت حسن منٹو انسانی زندگی کا تجزیہ نگار تھا ، انسانی نفسیات کا ڈاکٹر تھا ، انسان کے اندر کی گندگی کو کریدتا تھا وہ تو کہتا تھا کہ ہر انسان کے اندر اس کا ہم ذات ہوتا ہے اسے پہچانو۔منٹو کی تحریریں انسان کے دوغلے پن پر طنز ہیں حقارت ہیں نفرت ہیں ، ہم نے اسے غربت سے مار ڈالا اس کی تحریروں سے پیسے کمائے اپنے اخباروں اور رسالوں کو تو زندہ رکھا مکگر اسے مرنے کے لئے چھوڑ دیا ۔اور اس کی موت کے ذمہ دار اس کے قاتل یہی سینما گھر ،ہمارے اخبار ، ہمارا سماج اور ہم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر : اسد زمان