آہ سبیکا شیخ

Sabika Sheikh

Sabika Sheikh

تحریر : حفیظ خٹک

17 سالہ سیبکا شیخ کی والدہ کہتیں ہیں کہ وہ (سیبکا شیخ) کال کر کے ڈھیروں باتیں کرتی اور ان باتوں میں یہ ضرور کہتیں کہ بس اب اتنے دن رہہ گئے۔ صرف اتنے دنوں بعد میں واپس آ جاؤنگی۔ میری یہاں کی تعلیم پوری ہو جائیگی اور میں کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس آپ کے پاس آؤنگی۔

سبیکا شیخ کے والد عبدالعزیز اور والدہ فرح صاحبہ کے دکھ و کو درد کو شاید کوئی نہیں محسوس کرسکتا ، یا پھر ہر ماں اور باپ ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ ماں،باپ کی لاڈلی اپنی قابلیت پر اس اسکول میں اعلی تعلیم کیلئے گئیں اور وہاں بھی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی رہیں، پھر یہ سب کیسے ہوگیا؟ کیوں ہوگیا ؟ کیوں اس نے گولی چلائی اور اس گولی سے اساتذہ سمیت دیگر طلبہ کی جانیں کیوں لیں؟ان میں عظیم پاکستان کی اک عظیم طالبہ سبیکا شیخ بھی شامل تھیں اسے اس قاتل نے کیوں جان سے مارڈالا؟ کیوں؟

کہاں گیا امریکہ کا سارا ملک ، امریکہ کا وہ صدر جو خود کو انسانیت کا سب سے بڑا ٹھیکیدار کہتا ہے اور انسانیت کیلئے ، انسانیت کے نام پر قتل درقتل کرتا اور کرواتاچلا جاتاہے۔ کہاں گئی اس کی انسانیت سے دوستی ؟ کہاں گئیں وہ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں ؟ کہاں گئیں وہ ترقی یافتہ قوتیں ، وہ جدید ریاستیں ؟ جنہیں چند روز قبل فلسطین میں اسرائیلیوں کے مظالم نظر نہیں آئے؟ جنہیں مسلم کشی نظر نہیں آتیں، جنہیں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم نظر نہیں آتاہے۔ کہاں ہیں ان کی آنکھیں ، ان کی نظریں، ان کا بے جان احساس ، ان کی دیکھاوئے کی ذمہ داریاں ۔۔۔۔ ان کی نام نہاد سیکورٹیاں ، کہاں ہیں؟ کیسے وہ اسی اسکول کا طالبعلم ان کی نام نہاد سیکورٹی کو نظر نہ آکر اسکول میں چلا گیا اور سبیکا شیخ و اساتذہ سمیت دس طلبہ کو اپنی گولیوں کا سے چھلنی کرکے اب تلک فاتخانہ انداز میں نظر آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے باقی ماندہ کو اس لئے چھوڑ دیا کہ وہ بتائیں اوروں کہ انہوں نے کیا دیکھا ، کیسے دیکھا ؟ امریکی اسکول کی انتظامیہ ، پولیس ، فوج اور پوری امریکی حکومت اور ان سب سے بڑھ کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، سب کے سب Miss Fitہیں، ہاں سب Miss Fit ہیں۔۔۔۔۔ سبیکا شیخ ، جس کا تعلق شہر قائد کے اس علاقے سے ہے کہ جہاں کی اک اور بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی اسی امریکہ کی ظلم میں آج تلک پس رہی ہیں۔ وہ بھی اعلی تعلیم کے حصول کے بعد وطن واپس آکر وطن عزیز میں تعلیمی انقلاب لانا چاتھیں ، لیکن اسے بھی امریکہ نے اپنے ناپاک عزائم کی بھینٹ چڑھادیا۔ اسے اغوا کیا اور پھر اسے افغانستان پہنچایا ،وہاں اسے برسوں قید میں رکھا اور بعدازاں اپنی طرف سے مار دیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ مارنے والے سے بچانے ولاے بہت بہتر ہے۔ اللہ نے اسے بچالیااور پھر یہ ہوا کہ اسی عافیہ کے اوپر غلط مقدمہ درج کرکے اسے 86برسوں کی سزا سنادی۔ وہ عافیہ تک سے اب تک اسی جیل میں ہے اور وہ منتظر ہے اس وقت کی کہ جب اسے آزادی ملے گی اور وہ باعزت انداز میں باہر آئیں گی۔ اپنے وطن آئیں گی۔ اپنوں کے پاس آئیں گی۔ اپنی ماں عصمت صدیقی کے پاس آئیں گی۔ وہ عصمت صدیقی جنہیں اب صرف اللہ سے امید ہے کہ وہ ہی اس کی اس قوم کی عافیہ کو باعزت انداز میں رہائی دلاکر واپس وطن عزیز بھجوائے گا۔

وہ عافیہ جو کہ برسوں سے امریکی جیل میں قید ہے اور جس کی مریم کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی مریم سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس کی والدہ کو سو دنوں میں وطن واپس لے آؤنگا۔ جس نے والدہ عافیہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں آگیا ہوں اور میں ہی عافیہ کو سو دنوں میں امریکہ سے باعزت رہائی دلواکر وطن واپس لاؤنگا۔ لیکن وہ وزیر اعظم نواز شریف اب وزیر اعظم نہ رہا اور اس کا کیا ہوا وعدہ بھی وفا نہ ہوا۔ اسی نواز شریف کو اپنا وزیر اعظم کہنے والا موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو نہ جانے کب اس بات کا ہوش آئیگا کہ وہ آگے بڑھے اور نواز شریف کا وعدہ پورا کرے۔ نہیں معلوم یہ وعدہ پورا وہ کرے گا بھی یا نہیں۔۔۔۔لیکن اسے اس معصوم سبیکا شیخ کے متعلق واضح قدم اٹھانا ہوگاکیونکہ سبیکا کو امریکہ میں دوران تعلیم نشانہ ہدف بنایاگیا ہے وہ بھی اک طالبہ تھی اور اک ہونہار طالبہ تھی اس کا کسی سے کوئی تعلق نہ تھا وہ اپنی جماعت میں ذہین ترین طالبہ تھیں پھر اسے کیوں ماراگیا؟ اسے پاکستان میں نہیں امریکہ میں ماراگیا۔ پاکستان میں تو امریکی کرنل جوزف معصوم پاکستانی کو مارکر بھی باعزت انداز میں اپنے وطن روانہ ہوجاتاہے اور معصوم کے لواحقین اس کے لئے انصاف کا طلب کرتے اور طلب کرتے ہی رہہ جاتے ہیں لیکن نہ انصاف کا بول بالا ہوتا ہے اور نہ کرنل جوزف رکتا ہے وہ تو بس ۔۔۔۔چلا جاتا ہے ۔۔۔

اتوار کی صبح سے سوشل میڈیا پر قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق یہ افواہیں پھیلائی جاتیں ہیں کہ وہ جیل میں ہیں انتقال کرگئیں جبکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتاہے۔ حتی کہ عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ہی میدان میں آکر یہ کہنا پڑتا ہے کہ استقامت کو تیری سلام عافیہ ۔۔۔۔عافیہ کے متعلق یہ افواہیں غلط ہیں اور ان میں کوئی بات سچ نہیں ہے۔ ان کی اس بات کے بعد سوشل میڈیا کے دانشوروں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ عافیہ ٹھیک ہیں اور سوشل میڈیا پر تو افواہیں پھیلائی گئیں تھیں۔ وہ سب بھی منظم منصوبہ بندی کے ذریعے پھیلائی گئیں ۔ایسا عمل اس سے قبل بھی متعددبار کیا جاچکا ہے جس سے عافیہ کے بچوں کو ان کی والدہ کو غرض عافیہ موومنٹ کے ہر رکن کو شدیدتکلیف کا سامنا کرناپڑا لیکن پھر جھوٹ کا جب سفر ختم ہوا تو ہی سب کو سکون کا سانس آیا۔

قوم کے معماروں سے ، اس کے جوانوں سے اس قوم کے ہر فرد سے یہ کہنا ہے کہ عافیہ کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا ، ریمنڈڈیوس نے تین پاکستانیوں کو شہید کردیا ، پھر کرنل جوزف نے معصوم پاکستانی کو شہید کردیا ، کسی بھی موقع پر پاکستانیوں کو انصاف نہ ملا اس لئے ائے قوم کے غیور عوام یہ بات آج کان کھول کر سن لو کہ آج اگر عافیہ دیار غیر میں ہے تو کل کو کوئی اور عافیہ بھی دیارغیر میں جاسکتی ہے ، آج اگر سبیکا شیخ کی زندگی کو ختم کردیا گیا ہے تو کل کسی بھی اور عبدلعزیز اور فرخ کی سبیکا شیخ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔اس لئے اٹھ جاؤ ، جاگ جاؤ اپنے لئے نہیں اپنوں کیلئے ، قوم کی بیٹیوں کیلئے ، سیبکا شیخ کیلئے اور عافیہ صدیقی کیلئے ۔۔۔۔خدارا جاگ جاؤ۔۔۔۔

تحریر : حفیظ خٹک