قربانی قرآن و سنت کی روشنی میں

Eid Sacrifice

Eid Sacrifice

تحریر : حافظ جاوید الرحمن
مخصوص جانوروں کو مخصوص دنوں میں ثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی ہے قربانی حضرت ابراہیم کی سنت ہے ہمارے نبی کریم ۖ بھی اس سنت ابراہیمی کا اہتمام فرماتے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے ۔ سنت ابراہیمی کو قرآن و سنت کے مطابق کس طرح ادا کیا جانا چاہے قربانی کی اہمیت قربانی حضرت ابراہیم کی سنت ہے ۔ وہ بڑھاپے میں ملنے والے اکلوتے لخت جگر اور نور چشم کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ذبح کرنے کے لیے تیار ہوئے اور سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل بھی ذبح ہونے کے لیے تیار ہوئے ۔ اللہ روئوف والرحیم کو باپ بیٹے کی یہ بے مثال اطاعت اور تابع داری پسند آئی اور انہوں نے بیٹے کے عوض اپنی طرف سے مینڈھا ارسال فرما دیا۔ جس کو حضرت ابراہیم نے ذبح فرمایا اللہ مالک الملک نے ان کی اس سنت کو ان کے بعد آنے والے لوگوں میں ہمیشہ کے لیے جاری فرمادیا۔

رسول اللہ ۖ نے فرمایا ترجمہ:” بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز عید ادا کرتے ہیں پھر واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسے کیا اس نے میری سنت کو پالیا۔” رسول اللہ ۖ نے امت کو بھی تاکید فرمائی کہ ان کا ہر گھرانہ ہر سال قربانی دے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے لوگوں پر نبی امت ۖ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ قربانی کرنے والے ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوںکو نہ کاٹے اس کی دلیل و ہ حدیث ہے جس کو امام مسلم نے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا ترجمہ”جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمارا قربانی کرنے کا اردہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے اور تراشنے سے بچو۔

مسافر کا قربانی کرنا سنت مطہرہ سے حج کرنے والے اور مسافر کا قربانی کرنا ثابت ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے تو عید قربان آگئی تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے ۔ قربانی کے جانور کی عمر نبی کریم ٔ نے امت کے لیے دو دانتا جانورذبح کرنے کی تلقین کی ۔ امام مسلم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ نے فرمایا دو دانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو وہاں اگر دشواری پیش آجائے تو دو دانت سے کم عمر دنبہ ذبح کر لو دو دانت والے جانور دشوار ہو تو دو دانت سے کم عمر والے بھیڑ کے بچے کی قربانی درست ہے۔

Cow

Cow

خصی اور غیر خصی جانور کی قربانی خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانور کی قربانی کرنا سنت سے ثابت ہے ۔ رسول اللہ ۖ نے دونوں قسم کے جانوروں کو الگ الگ وقت میں ذبح کیا۔
قربانی کا نماز عید کے بعد کرنا
قربانی کے وقت کی ابتداء نماز عید کے بعد ہوتی ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا جس نے ہماری نماز پڑھی ۔ اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا وہ نماز عید سے واپس آنے سے پہلے قربانی نہ کرے اگر کوئی شخص نماز سے پہلے اپنی قربانی کا جانورذبح کرے گا تو وہ قربانی شمار نہ ہو گی۔ اس کے بارے میں رسول اللہ ۖ فرمایا جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کیا و ہ اب اس کے بدلے دوسرا جانور ذبح کرئے۔
قربانی کا جانور کون ذبح کرے
سنت مطہر ہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قربانی کرنے والہ اپنا جانور خود ذبح کرے اگر کسی دوسرے کو جانور ذبح کروائے تو اس سے کوئی حرج نہیں ہے البتہ افضل یہ ہے کہ وہ خود جانور ذبح کرے اگر عورت کو ذبح کرنے کا سلیقہ ہو تو ان کا اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے۔

تمام اہل خانہ کی طرف سے ایک بکرے کا کافی ہونا
متعدد احادیث شریف سے یہ بات ثابت ہے کہ قربانی کی غرض سے سارے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکرا ذبح کرنا کفالت کر جاتا ہے ۔ امام مسلم کی حضرت عائشہ کے حوالے سے بیان کہ وہ حدیث جس میں آپ ۖ نے مینڈھے کو ذبح کرنے کے لیے پچھاڑ ا اور کہا ترجمہ” اللہ تعالی کے نام کے ساتھ اے اللہ محمد آل محمد اور امت محمدۖ کی طرف سے قبول فرمائیے۔” اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپۖ نے اپنی اور اپنے آل کی طرف سے ایک ہی جانور ذبح کیا بلکہ امت کو بھی اس میں شامل فرمالیا ۔ حضرت ابو ہریرہ قربانی کے لیے بکرا لاتے تو ان کے گھروالے کہتے تھے اور ہماری طرف سے ،تو وہ جواب میں فرماتے اور یہ بکرا تماری طرف سے بھی ہے۔

اونٹ اور گائے کی قربانی میں ایک سے زیادہ افراد کی شرکت
نبی کریمۖکی سنت مطہرہ سے حج اور عیدا لاضحی کے لیے ذبح کئے جانے والے اونٹ اور گائے میں ایک سے زیادہ اشخاص کا شریک ہونا سنت سے ثابت ہے ۔ امام مسلم نے حضرت جابر سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ ۖ کے ساتھ حج کے لیے لبیک پکارتے ہوئے روانہ ہوئے تو رسول اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سات آدمی ایک اونٹ یا گائے میں شریک ہوں۔ صحابہ میں سات سات افراد شریک ہوئے اور عیدالاضحی کی قربانی کے لیے ذبح کیے جانے والے اونٹوں میں دس دس افراد شریک ہوئے۔

Eid Sacrifice

Eid Sacrifice

قربانی کو احسن طریقے سے ذبح کرنے کا حکم دیا نبی کریم ۖ نے جانور کو عمدہ اور اچھے طریقے سے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ امام مسلم نے حضرت شداد بن اوس سے روایت بیان کی ہے کہ انہوںمیں نے دو باتیں رسول اللہ سے یاد کیں آپ نے فرمایا یقینا اللہ تعالی نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کر دیا ہے ۔ لہذا جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو یعنی ذبح کرنے والے اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔
ذبح کرتے وقت کیا پڑھا جائے
مسنون طریقہ یہ ہے کہ قربانی کاجانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ و اللہ اکبر، کہا جائے نبی کریم ۖ نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی دی آپۖ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ و اللہ اکبر پڑھا۔

ذبح کے وقت جس کی طرف سے قربانی کی جائے اس کا ذکر کرنا۔
نبی کریم ۖ کی سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ ذبح کرتے وقت جس کی طرف سے قربانی کی جائے اس کا ذکر کیا جائے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے میں عیدالاضحی کے موقع پر رسول اللہ کے ساتھ عیدگاہ حاضر ہوا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد آپ ممبر سے اترے ایک مینڈھے کو لایا گیا اور آپ نے اسے اپنے دستے مبارک سے ذبح فرمایا اور کہا اللہ تعالی ٰ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑئے ہیں یہ قربانی میری طرف سے ہے اور میری امت کے ہر اس شخص کی طرف سے جس نے قربانی نہیں کی۔
اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ
اونٹ کو ذبح کرنے کا قرآن و سنت سے ثابت شدہ طریقہ یہ ہے کہ اس کو کھڑا کر کے ذبح کیاجائے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمارے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے نشانات قرار دیے ہیں ان میں تمارے لیے بہتری کی بات ہے پس اسے کھڑے کھڑے ذبح کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کرو۔

قربانی کے گوشت کی تقسیم
قرآن وسنت سے قربانی کا گوشت کھانا کھلانا غریبوں کو دینا سب صورتوں سے ثابت ہے اللہ تعالی نے فرمایا پس قربانی کا گوشت خود بھی کھائو اور بھوکے فقیر کو بھی کھلائو اللہ نے ایک اور جگہ فرمایا پس ان کے گوشت سے خود بھی کھائو اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے کو بھی کھلائو۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے امام شافی رحمتہ اللہ رائے میں مستحب یہ ہے کہ تین حصوں میں برابر تقسیم کیا جائے ایک تہائی خود کھائے ایک تہائی صدقہ کرئے اور ایک تہائی دوسروں کو کھلائے۔

Meat

Meat

قربانی کے گوشت کا ذخیرہ کرنا
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قربانی کا گوشت کھانا صدقہ کرنا اور اس کا ذخیرہ کرنا سب جائز اور درست ہے ۔ البتہ ایک موقع پر نبی ۖ نے مفلوک الحال بدوی لوگوں کے مدینہ آنے پر تین دن سے زیادہ کے لیے گوشت کے ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا لیکن پھر اس کے دوسرے سال ذخیرہ کی اجازت دے دی۔

قصاب کو قربانی کے جانور میںسے بطور اجرت کچھ نہ دیا جائے
نبی کریم ۖ نے قربانی کے جانور کی کوئی چیز بھی بطوراجرت دینے سے منع فرمایا ہے ۔ قصاب کو پوری اجرت دینے کے بعد اگر اس کی غربت کے پیش نظر دیگر مسکینوں کی طرح قربانی کے جانور میں سے کچھ دیا جائے تو کچھ حرج نہیں۔ (تنبیہہ البتہ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ اس بناء پر قصاب اپنی اجرت میں کمی یا رعایت نہ کرئے اگر ایساخدشہ ہو تو سلامتی اس میں ہے کہ اس کو قربانی میں کچھ نہ دیا جائے۔

جن جانوروں کی قربانی درست نہیں

مسلمان کو چاہیے کہ ایسا جانور قربانی کے لیے خرید ے جو صحت مند ، چاق چوبند اور حتی الامکان خالی ازعیوب ہو ۔ درج ذیل عیوب والے جانور قربانی کے جائز نہیں ۔
1 ۔ یک چشم جس کا ایک چشم ہونا بالکل صاف طور پر معلوم ہو۔
2 ۔ بیمار جس کی بیماری کا واضح ہو۔
3 ۔ لنگڑا جس کا لنگڑا نمایاں ہو۔
4 ۔ بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔
5۔ جس کے کان آگے سے کٹ پرلٹک گئے ہوں
6۔ جس کے کان پچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں۔
7 ۔ جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں۔
8 ۔ جس کے کان عرض میں کٹے ہوں یا جس کے کانوں میں سوراخ ہو۔اور جن جانوروں میں سے ان سے بڑا عیب ہو گا ان کی قربانی دینا بھی درست نہیں ۔( بحوالہ قربانی کے احکام) اللہ پاک عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین

Hafiz Javed Ur Rehman

Hafiz Javed Ur Rehman

تحریر : حافظ جاوید الرحمن