تو سلامت رہے تا قیامت رہے

Pakistan

Pakistan

تحریر: روہیل اکبر
پاکستان کی محبت میں قربانیاں دینے والے ممالک اور اشخاص ہمیشہ کسی نہ کسی طرح حکمرانوں کی سر مہری کا شکار رہے جبکہ مفاد پرستوں نے ہر موقعہ پرلوٹ مار اور اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا یہی وجہ ہے پاکستان اندورنی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہوتا چلا آیا اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گذشتہ روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں دہشت گردوں نے مسافر بسوں سے اتار کر 21 افراد کو قتل کر دیا یہ واقعہ کوئٹہ سے تقریبا پچاس کلو میٹر دور مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں کندو عمرانی کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر پیش آیا جہاں نامعلوم مسلح دہشتگردوں نے دو مسافر بسوں کو اسلحہ کے زور پر روک کر 70 سے زائد مسافروں کو اتارا۔ دہشتگرد شناخت کے بعد 35 کے قریب مسافروں کو اغواء کرکے قریبی پہاڑی کی طرف لے گئے اور مغوی مسافروں پر گولیاں برسادیں۔ فائرنگ کے نتیجے میں انیس مسافر جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔

مسافر بسیں پشین اور کوئٹہ سے کراچی کیلئے جارہی تھیں بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا سانحہ مستونگ پر بیان کہ اس میں را ملوث ہے بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کر وارہا ہے اس سے قبل بھی بھارت پاکستان کے خلاف اپنی کئی گھٹیا کاروائیاں کرچکا ہے پاکستان کو اس قدر تنگ اورزچ کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کو چلنے ہی نہ دیاجائے مگر انہی حالات میں پاکستان نے ستمبر 1965ء کی جنگ میں بھارت کو شکست دے ڈالی۔بھارت کو اس شکست کا اتنا صدمہ تھا کہ اس نے انتقام لینے کے لیے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے سازشیں شروع کردی بالاآخر دسمبر1971ء میں یہ سانحہ رونما ہوا اور پاکستان دولخت ہوگیا۔ اس سانحہ کاسب سے زیادہ درد جس ملک نے محسوس کیا‘وہ سعودی عرب تھا، جس نے بنگلہ دیش کو سارے عالم اسلام میں سب سے آخرمیں تسلیم کیاتھا۔اسی زمانے میں سعودی عرب پرشاہ فیصل شہید کی حکومت تھی جنہوں نے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو سے راہ و رسم بڑھاکر انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے بچے کھچے ملک کو بھارت سے اگر بچانا چاہتے ہیں تو انہیں ایٹمی صلاحیت حاصل کرناہوگی۔

یہ سعودی عرب کے شاہ فیصل ہی تھے جنہوں نے اس حوالے سے پاکستان کو فنڈز مہیاکرنے کاوعدہ کیا اور پھر یوں زیڈاے بھٹونے ایٹمی پروگرام کاآغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے فرانس کے ساتھ اٹامک ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ کیا ۔امریکہ اس پر بڑا سٹپٹایا اورپاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے صاف صاف کہاکہ وہ پاکستان کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ یاد رکھے گا۔ امریکہ نے فرانس پر دباؤ ڈال کر ایٹمی معاہدہ بھی منسوخ کرا دیا۔ اس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹونے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو بلایااور سنٹری فیوج طریقے سے ایٹمی پروگرام آگے بڑھانے کی ذمہ داری سونپ دی۔اسی زمانے میں افغانستان پرروس نے حملہ کر دیا۔لاکھوں لٹے پٹے افغان پاکستان کارخ کررہے تھے ساتھ ہی انہوں نے روس کے خلاف جہاد کا بھی آغاز کر دیاتھا۔پاکستان بیس کیمپ بنا اور سعودی عرب نے ایک بارپھرپاکستان کابازو تھام کر ان لاکھوں افغان مہاجرین کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ملک کے دفاع میں بھرپورمدد مہیا کرنا شروع کی۔

Afghan Refugees

Afghan Refugees

پاکستان بے پناہ سعودی تعاون اور مدد کے ذریعے 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھاکر ایک طرف روس کا مقابلہ کررہا تھا تو دوسری طرف بھارت جیسے ازلی وابدی دشمن کے خلاف ایٹمی اسلحہ بنا کر اپنی حفاظت کررہاتھا ۔یہ اسی کانتیجہ تھا کہ جب بھارت نے 1987ء میں پاکستان پربڑے اور کھلے حملے کی تیاری کی تھی توپاکستان کے صدر شہیدجنرل ضیاء الحق بھارت ایک کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے وہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے وہاں راجیوگاندھی کو بغیرکچھ محسوس کرائے ایئرپورٹ پر ہی اتنے زور دار اندازمیں یہ باور کرایاتھاکہ اگر انہوں نے پاکستان پرحملے کی جرأت کی توپاکستان ایٹم بم چلانے سے دریغ نہیں کرے گا۔اس کامطلب صاف اورواضح تھا کہ پاکستان ایٹم بم بناچکاتھا جس کے لیے اب بھی سعودی عرب ہی تعاون کررہاتھا۔پاکستان کاایٹم بم بنانے میں مرکزی کردار اداکرنے والے اور سب سے زیادہ حکومتوں کی سازشوں کا شکار بننے والے محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان بار بار آج بھی کہتے اور لکھتے ہیں کہ اس ایٹم بم کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہیں ہوئی

یعنی 1971ء کے سانحہ کے بعد اگرآج تک پاکستان بھارتی جارحیت اوراس کے ناپاک عزائم سے بچا ہوا ہے تو اس کے راستے میں سب سے بڑی ڈھال سعودی عرب کی جانب سے شروع کروایاگیا اورآگے بڑھایاگیاوہ ایٹمی پروگرام ہے جس کو سعودی عرب آج بھی پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کا اثاثہ قرار دیتاہے۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ جب مئی 1998ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے بڑے فاتحانہ انداز سے پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستانیوں کو چاہئے کہ اب وہ شرم سے اپنا سر جھکاکر چلیں کیونکہ ان کی کھوکھلی دھمکی (Bluff)پکڑی گئی ہے اور پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کے دعوے جھوٹے ہیں،ہم بہت جلد آزاد کشمیر کو پاکستان سے آزادی دلاکر بھارت میں شامل کرلیں گے۔

King Abdullah

King Abdullah

‘‘ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستانی حکومت بڑی شش و پنج اور دباؤ کا شکار تھی اور امریکہ کی جانب سے دھماکہ کرنے پر دھمکیاں اور نہ کرنے پر لالچ دیا جارہا تھا۔ انہی حالات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے ایک سخت خط وزیراعظم نواز شریف کو لکھا کہ آپ نے جرأت سے کام نہ لیاتومیں اور میری ٹیم کے سائنسدان عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ اس کے 2 ہفتے بعد ہی پاکستان نے بھارت کے 5دھماکوں کے جواب میں 6ایٹمی دھماکے کرڈالے تو امریکہ نے طے شدہ پروگرام کے تحت پاکستان پرسخت ترین پابندیاں عائد کردیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سعودی عرب کے ولی عہد شاہ عبداللہؒ میدان میں آئے اور پاکستان کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے روزانہ 50ہزار بیرل تیل مفت دیناشروع کردیا۔یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا ۔اسی پربس نہیں‘ شاہ عبداللہ خلیج اور عرب دنیا کے کئی ملکوں کے دورے پرمحض اس لیے فوری روانہ ہوگئے کہ پاکستان کے لیے تعاون اورہمدردی حاصل کر سکیں۔

وہ یہ کامیاب دورہ مکمل کرتے ہوئے آخرمیں پاکستان پہنچے اور پاکستان کواپنا ہر طرح کا تعاون پیش کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ پہلے کی طرح آج بھی اس مشکل گھڑی میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور یوں پاکستان سرخرو ہوا۔ ساری دنیا گواہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی سب سے زیادہ خوشی سعودی شاہی خاندان نے محسوس کی، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں نوافل ادا کیے گئے۔ ایک طرف مسلم دنیا کی ہمدردیا ں ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے میزائلوں بابر,غوری,حتف,رعد اور آبدوز سعد و ضرار اور برق براق سے عالم کفر بوکھلاہٹ کا شکا ر ہے یہی وجہ ہے کہ آج کوئی پاکستان کیجانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت نہیں کرتا وہ جانتا ہے کہ آج پاکستا ن دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے اور ڈرون کلب میں بھی شامل ہوچکا ہے اس وقت دنیا کی نو ایٹمی طاقتوں میں امریکہ ، روس ، چین ، پاکستان ، بھارت ، برطانیہ ، فرانس ، اسرائیل اور شمالی کوریا شامل ہیں۔

پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 100 سے 120 اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 90 سے 110 کے درمیان ہے۔ 1945ء سے اب تک بنائے گئے سوا لاکھ ایٹمی ہتھیاروں میں سے 97 فیصد امریکہ اور روس نے بنائے ہیں۔ ان میں سے 420 ایٹمی ہتھیار مسلم ممالک اور باقی ایٹمی طاقتوں کے پاس ہیں۔ ایٹمی ممالک میں اسرائیل 200 ایٹمی ہتھیاروں کیساتھ سرفہرست ہے۔ امریکہ اور روس دنیا کے مجموعی ایٹمی ہتھیاروں کے 93 فیصد حصے کے مالک ہیں۔ 1945 میں پہلا ایٹمی تجربہ کرنے والا ملک امریکہ 7 ہزار 300 ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے ان میں سے ایک ہزار 920 ایٹمی ہتھیار میزائلوں اور فوجی اڈوں پر نصب ہیں۔پاکستان آج ایٹمی وار ہیڈز کی تعداد کے لحاظ سے دنیاکی چوتھی بڑی ایٹمی قوت ہے،وہ ملک جس کے بارے کہاجاتاہے کہ سوئی خود نہیں بناسکتا ،اس کے پاس بھارت جیسے ملک سے زیادہ ایٹمی وارہیڈ اورایٹمی میزائل ہیں، بھارت سے کہیں بہتر ڈرون ٹیکنالوجی ہے مگر اسکے باوجود ہم آئے روز دہشت گردی کا شکار ہورہے ہیں اور ہمارے محسن ہمارے رویوں سے نالاں ہیں ہماری تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود پاکستان سلامت رہے گا اور تاقیامت رہے گا۔

Roheel Akbar

Roheel Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03466444144