جس کا مکا اس کا منہ

Senate

Senate

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
جس سینٹ نے الیکشن بل 2017ء کی حمایت میں 38 اور مخالفت میں 37 ووٹ دے کر منظور کیا اسی سینٹ نے الیکشن بل 2017ء قومی اسمبلی سے منظور ہو کر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے باجود ن لیگ کا پھر صدر بن جانے کے بعد نااہل شخص کے سیاسی جماعتوں کا عہدیدار بننے کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرڈالی۔سینیٹر اعتزاز احسن کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کی قرارداد کے حق میں 52 اور مخالفت میں 28 ووٹ پڑے۔یعنی اس بل کی منظوری کے وقت حمایت کرنے والے 38ووٹر زمیں سے دس نے آج ووٹ اپوزیشن کی قراداد کے حق میں دیایاپھردس سینیٹر غیرحاضر رہے۔جس روز الیکشن بل 2017ء پیش ہواتھااس دن 52سینیٹرز مخالفت میں ووٹ دیتے توبل پاس نہ ہوتا۔اب جب بل پاس ہوکرعملی طورپرکارآمد ہوچکاتب مخالفت کامطلب سانپ گزرجانے کے بعد لکیر پیٹنے والی بات ہے۔حالات و واقعات کے مطابق یوں کہاجائے تو زیادہ بہترہوگاکہ سانپ گزاردینے کے بعد لکیر پیٹنے والی بات ہے۔ن لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ نے اپوزیشن کی قرارداد پر خوبصورت اور حقیقی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ باکسنگ ختم ہونے کے بعد جو مکا یاد آئے اس مکے کو اپنے منہ پر مار لینا چاہئے۔

مک مکاوالی اپوزیشن تو اپنے منہ پر ڈالرزیاریال مارتی ہے پر سینیٹر مشاہد اللہ نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ گیند بلکہ فٹ بال اپوزیشن کی وکٹوں پرمارتے ہوئے جس کامکااُس کامنہ کردیا۔جوشخص رکن پارلیمنٹ بننے کااہل نہیں اے پارٹی صدرات کااہل قراردینے اوربعد میں مائی پھپھے کٹنی والاکرداراداکرنے والی اپوزیشن نے نااہل شخص کے سیاسی جماعتوں کا عہدیدار بننے کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرکے کیاثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس بات کافیصلہ پاکستانی عوام خود کریں ۔حقیقت یہی ہے کہ سچائی کا سفر ہمیشہ مشکل راستوں سے گزرتاہواخوبصورت منزل پرجاکرختم ہوتا ہے۔ زندہ رہنے کیلئے قوموں کوحالات کاسامناکرناہی پڑتا ہے۔وقتی سکون اور اقتدار کے لئے جو راستہ اختیارکیاجاتا ہے بظاہر بہت آسان اورپرسکون محسوس ہوتا ہے پردرحقیقت وقتی دھوکے کے سواکچھ نہیں ہوتا۔راقم بھی کچھ مشکل فیصلے کرنے کے متعلق سوچ رہاہے ۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں اورسیاستدانوں کی موجیں دیکھ کر راقم سوچ رہاہے کیوں نہ اپنی ایک سیاسی پارٹی بنائی جائے۔اس سے بڑی سہولت اور کیاہوسکتی ہے کہ اب تو نااہل بھی پارٹی کاصدر بن سکتاہے۔لوگ سیاسی لیڈر کے نظریات اورپارٹی کامنشوردیکھ کرحمایت یامخالفت کافیصلہ کرتے ہیں۔اپنے نظریات بتادیئے توبہت کم لوگ حمایت کریں گے اس لئے ذاتی نظریات کوپس پشت ڈال کرایک کامیاب اورتیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کرنے والامنشور بناناچاہتاہوں۔طویل مشقت کے بعد آج ایک ایسانقطہ ہاتھ آیاجس نے حالات حاضرہ اوراکثریتی ذہنیت کے مطابق منشورکا نقشہ آسان کردیاہے۔ایک کاروباری دوست کی گفتگونے آج متاثر کن ماحول فراہم کیا۔بات شروع ہوئی حالیہ قانون سازی کے حوالے سے کہ حکومت نے ختم نبوت ۖ کے حلف نامے کو اقرارنامے میں بدل دیا۔

کاروباری صاحب بولے اس سے کیافرق پڑے گا؟ایک دوست نے کہاتم نہیں جانتے کہ حضرت محمد ۖ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں؟ کاروباری بولاجانتاہوں پرحکمرانوں نے کب انکارکیاہے۔دوسرادوست بولاحلف نامے کو اقرار نامے میں بدل دینے سے ختم نبوت ۖ کے منکر بھی رکن اسمبلی سکتے ہیں،ن لیگ کی حکومت نے بہت غلط کام کیاہے،کاروباری بولایارہمیں تون لیگ ہی پسند ہے اور ہم تو آئندہ بھی انہیں کوووٹ دینے کاارادہ رکھتے ہیں۔ن لیگ کی حکومت میں سکون سے کام کرتے ہیں۔یہ نئی آنے والی پارٹیاں ایمانداری کابھاشن دیتی ہیں اور کرپشن کے خاتمے کاکہتی ہیں۔جب اسمبلیوں میں بیٹھنے والے کرپشن نہیں کریں گے توہمیں کون بجلی چوری کرنے دے گا؟کاروباری کی بات سنتے ہی جوجملہ یاد آیاوہ تھاکہ جیسے عوام ویسے حکمران۔کاروباری کی باتیں اورجیسے عوام ویسے حکمران والے جملے کومکس کرکے دماغی مرتبان میں ڈال کرخوب ہلایاتوایک نقطہ سامنے آیاکہ اپنی سیاسی پارٹی کامنشورایسابنائوکہ سب راضی ہوجائیں ۔یہ بات ذہن میں رکھ کر کہ آئین و قانون اور پارٹی منشور پرپہلے کس نے عمل کیاہے۔راقم اپنی سیاسی پارٹی کے باقائدہ آغاز سے قبل منشور کے بارے میںاپنے قارئین سے مشورہ کرناچاہتاہے۔منشور کچھ یوں ہوگا۔ملک بھر میں سب سے زیادہ بجلی چوری کرنے والے شخص کووزارت بجلی و پانی دی جائے گی اوردوسرے نمبرپرآنے والے کوچیئرمین واپڈالگایاجائے گا۔تاکہ وہ اپنی کمال مہارت اور صلاحیت کواستعمال کرکے بجلی چوری کرنے کے ایسے کامیاب طریقے دریافت کریں کہ بجلی چوری میں جتناچاہے اضافہ ہوتاجائے پرکسی کوانگلی اٹھانے کیلئے کوئی موقع نہ مل سکے۔باقی سو دو سو وازاتوں اور اہم ترین عہدوں کیلئے بھی اسی قسم کامیرٹ رکھاجائیگاتاکہ کرپٹ عناصر تیزی کے ساتھ پارٹی میں شامل ہوں اورپھرعوام بھی تو انہیں کاساتھ دیتے ہیں۔مذہبی حلقوں کوخوش رکھنے کیلئے مذہبی معاملات کوبالکل نہیں چھیڑاجائے گا۔پاکستان کاسرکاری مذہب اسلام ہے اوریہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے لہٰذا مسلمان علماء کی کمیٹی بناکرفیصلوں کااختیاردے دیاجائے گا۔

افواج اور صحافت کے ساتھ مکمل بناکررکھی جائے گی۔کچھ ضروری وزارتیں پیداکرنے کیلئے رشوت ،سفارش،کرپشن کی دیکھ بھال،امریکی غلامی ،برطاینہ ،روس ،چائنہ، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے بھیک مانگنے کے باقائدہ محکمے قائم کئے جائیں گے۔ان نئے محکموں میں اہم عہدوں پرحکومتی امورکے تجربہ کاربھکاریوں کوتعینات کیاجائے گا۔ایک اہم بات بتاتاچلوں کہ رسول اللہ ۖ کی ختم نبوت ۖ اور ناموس پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگالہٰذاگستاخان اور ختم نبوت ۖ کے منکرہماری پارٹی سے دور رہیں۔پارٹی ٹکٹ کیلئے سب سے پہلی شرط یہ ہوگی کہ اُمیدوارحلف اُٹھاکرکہے کہ اسمبلی کے اندرکوئی بھی بل پیش کیاجائے وہ اپنے پارٹی قائد کے حکم کے مطابق بغیرپڑھے حمایت یامخالفت کرے گا۔دوسری شرط یہ ہوگی کہ اپنے علاقے کے قبضہ گروپ میں پہلے پانچ نمبروں میںشمارہوتاہو۔تیسری شرط بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ خوشامد میں پی ایچ ڈی کررکھی ہو۔اینٹی کرپشن اور نیب کے عہدے انہیں دیئے جائیں گے جواندورن ملک اوربیرون ملک یکساں طورپرجانے جاتے ہوں ،کرپشن کے مقدمات میں سزایافتہ اورجیل یاترہ کر چکے ہوں۔چیئرمین پی آئی اے اسے لگایاجائے گاجوملکی ادارہ تباہ کرکے ذاتی ائیرلائن کمپنی بنانے کی اہلیت رکھتاہو۔عوام نے اعتمادکیااورحکومت ملی توہم بھی موجودہ سیاست دانوں کی طرح پہلے دونمبرقانون پاس کرلیاکریں گے اور بعد میں نیک نامی کمانے کیلئے ایک بے اثر قراداداسی قانون کے خلاف پاس کرکے حاجی ثنااللہ بن جایاکریں گے۔حاجی ثنااللہ سے یاد آیا راناثنااللہ کے قادیانیوں کے بارے میں بیان آنے کے بعد ثنااللہ کوئی قابل فخر نام نہیں رہالہٰذاحاجی صدیق بن جایاکریں گے۔آخرمیںایک اہم ترین بات بتاتاچلوں کے آرمی چیف یاکسی جنرل کواپنابندہ سمجھنے یابنانے کی کوشش بالکل نہیں کی جائے گی ۔افواج پاکستان کو کسی سیاستدان یاحکمران کے وفادارنہیں بلکہ ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہونا چاہیے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com .
03134237099