آرمی چیف کا دورہ اور پاک سعودی تعلقات

Raheel Sharif And King Abdul Aziz

Raheel Sharif And King Abdul Aziz

تحریر: حبیب اللہ سلفی
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز،سعودی عرب کے آرمی چیف جنرل ریحام بن صالح، ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان سے قصر یمامہ میں ملاقاتیں کی ہیں۔ان کے اس دورہ کو غیر معمولی نوعیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ جنرل راحیل شریف جب سعودی عرب پہنچے تو نائب وزیر دفاع اور بری فوج کے کمانڈرنے ایئرپورٹ پر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

آرمی چیف اور سعودی قیادت کے درمیان ملاقاتوں میں دفاعی تعاون و خطے میں سکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مل کر کام کرنے اور انتہاپسندی کے خلاف میکانزم کو فعال بنانے پر اتفاق کیا گیا۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے دو ٹوک انداز میں کہاکہ سعودی عرب کی سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے اور مشکل وقت میں اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ اسی طرح سعودی قیادت کی جانب سے بھی اسی عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کی سالمیت کو کسی بھی نوعیت کا خطرہ سعودی عرب کیلئے ناقابل قبول ہو گااور ایسی کسی بھی صورتحال میں دفاع کیلئے بھرپور کردار اداکریں گے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ نگار جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب کی سیاسی وعسکری قیادت سے ملاقاتوں کو بہت اہمیت دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام میں پایا جانے والا بھائی چارے کا جذبہ پائیدار شراکت داری میں تبدیل ہو رہا ہے۔سعودی عرب وطن عزیز پاکستان اور اس کی افواج کا بہت زیادہ احترام کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات کی مشترکہ عظیم تاریخ ہے اور مشکل وقت میں ہمیشہ انہوںنے ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا ہے۔زلزلے اور سیلابوں کی طرح دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بھی پاکستان کو سعودی عرب کا تعاون میسر رہا ہے۔

Zarb-e-Azb

Zarb-e-Azb

آپریشن ضرب عضب کے حوالہ سے بھی پاکستان کو سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل رہی اور سعودی قیادت کی جانب سے ضرب عضب آپریشن کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے بارہا پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا ہے۔ سعودی عرب بخوبی سمجھتا ہے کہ پاکستان عالم اسلام کا دفاعی مرکز ہے جس کا مضبوط و مستحکم رہنا پوری مسلم امہ کیلئے نہایت ضروری ہے۔ نائن الیون کے بعد اتحادی ممالک کی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستان بھی طرح طرح کی مشکلات سے دوچار ہو گیا۔ بیرونی ممالک کی خفیہ ایجنسیوںنے یہاں ڈیرے ڈال لئے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے تخریب کاری و دہشت گردی کی خوفناک آگ بھڑکائی گئی۔

فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، خودکش دھماکوں اور بم حملوں سے افواج پاکستان اور دفاعی اداروں سمیت عام پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنی جانیں گنوانا پڑیں لیکن اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان کی عسکری قیادت نے حوصلے بلند رکھے اور قربانیوں کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ ان کے پھیلائے گئے نیٹ ورک کو توڑ کر رکھ دیا ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف اتحادی ممالک کی فوجیں خطہ سے نکل رہی ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں پھیلائے گئے دہشت گردی کے نیٹ ورک بکھر چکے ہیں۔آپریشن ضرب عضب نے بیرونی ایجنڈے پر مسلمانوں کا قتل عام کرنے والوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

بلوچستان اور سندھ میں پروان چڑھائی گئی علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ چکی ہیں اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے والے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔اس ساری صورتحال سے پوری مسلم دنیا کو حوصلہ ملا ہے کیونکہ دہشت گردی کے عفریت نے صرف پاکستان ہی نہیں سعودی عرب سمیت دوسرے مسلم ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ دشمنان اسلام کی ہمیشہ سازش رہی ہے کہ مسلمان ملکوں میں آپس کے لڑائی جھگڑے کھڑے کئے جائیں، فرقہ واریت اور فتنہ تکفیر کو ہوا دی جائے تاکہ مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہیں اور انہیں آسانی سے اپنے ایجنڈے پورے کرنے کا موقع ملتا رہے۔ ترکی عالم اسلام کا ابھرتا ہوا ملک ہے وہاں بھی یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔

Saudi Arabia

Saudi Arabia

اسے کمزور کرنے کی کوششیں ہو رہیں ہیں اور سعودی عرب جو پوری مسلم امہ کا روحانی مرکز ہے’ اسے خاص طور پر ہدف بناکر وہاں تکفیر اور خارجیت کے فتنہ کی آبیاری کی جارہی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں مختلف شہروں میں ہونیو الے بم دھماکے انہی سازشوں کا حصہ ہیں۔اگرچہ سعودی عرب نے فتنہ تکفیر کا شکار داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بھرپور کاروائی کی ہے تاہم وہ چاہتا ہے کہ اس سلسلہ میں چونکہ پاکستان نے نہایت عمدہ کامیابیاں حاصل کیں اور پوری دنیا افواج پاکستان کو فاتح کی حیثیت سے دیکھ رہی ہیں اس لئے وہ بھی اندرونی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستانی افواج کی صلاحیتوں اور معلومات سے فائدہ اٹھائے تاکہ دہشت گردی کو کچلا جاسکے۔ اس سلسلہ میں حال ہی میں جہلم کے قریب دونوں ملکوں کی افواج کی مشترکہ مشقیں بھی ہوئی ہیں۔

اسی طرح پاکستان اور ترکی کی فوجوں نے بھی مشترکہ مشقوں میں حصہ لیا جس سے ظاہرہوتا ہے کہ مسلم ممالک اپنے خطوں میں اندرونی دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے واقعتا سنجیدہ ہیں اور اس حوالہ سے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ مسلم ملکوں کی عسکری و سیاسی قیادت ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور انسداد دہشت گردی کے شعبہ میں تعاون بڑھانے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ اور فتنہ تکفیر کا شکار داعش جیس تنظیموں کیلئے فنڈز کی ترسیل روکنے پر زوردیاجارہا ہے۔ پاکستان میں دفاعی اداروں اور افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والوں پرکفر کے فتوے لگا کر حملے کرنے والی تنظیموں کی طرح سعودی عرب اور دیگر مسلم ملکوں میں داعش کا فتنہ منظم منصوبہ بندی کے تحت پروان چڑھایا گیا ہے۔

Pak Afghan

Pak Afghan

اسی طرح پاکستان اور افغانستان میں بھی اس فتنہ کی نئے سرے سے آبیاری کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور دیگراسلامی ملکوں کو متحدہو کر اس خوفناک فتنہ پر قابو پانا اور اس کی بیخ کنی کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔سعودی عرب خاص طور پرپاکستان کی امداد سے کبھی پیچھے نہیں رہا اس لئے پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ دفاعی لحاظ سے برادر اسلامی ملک سے ہر ممکن تعاون کرے اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کی کوششوں میں حصہ لے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ سعودی عرب انتہائی کامیاب رہا ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں کے قبضہ اور حرمین شریفین پر حملہ کی دھمکیوں کے بعد پاکستان سعودی عرب سے تعاون کا مسئلہ پارلیمنٹ میں لے گیا جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں اور کئی دن تک برادر اسلامی ملک کے خلاف بیان بازی ہوتی رہی جس پر سعودی حکام اور عوام کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی۔

اس دوران بعض دشمن ممالک نے پاک سعودی تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی سازشیں کیں لیکن سعودی عرب نے صبر و تحمل سے کام لیا اور بیرونی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ بہرحال آرمی چیف کے حالیہ دورہ سے دونوں ممالک کے عسکری و سیاسی قائدین کی پرجوش ملاقاتوںاور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کا عزم دہرانے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاک سعودی تعلقات آنے والے دنوں میں اور زیادہ مضبوط ہوں گے۔ ان دنوں یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ سعودی عرب ‘ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ میں بھی شریک ہو رہا ہے اور اس کیلئے سعودی عرب نے باقاعدہ رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ا س کے بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے مسلم خطوں و علاقوں کے مسائل ان شاء اللہ کامیابی سے حل کر سکیں گے۔

Habibullah Salafi

Habibullah Salafi

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005