تقدس رمضان

Islam

Islam

تحریر : انعم سلیم
اسلام کی تہذیب وہ خاص تہذیب ہے جو اپنی بنیاد اسلامی نظریات پر رکھتی ہے۔ اس کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔اسلامی تہذیب ایک شاندار ماضی کی حامل ہے۔یہ کبھی مکمل طور پر سامنے آتی ہے اور کبھی جزوی طور پر۔ مثلاً عہد نبوی اور ہرخلفائے ر اشدین کے دور کی تہذیب خالصتاً اسلامی ہے۔ جبکہ باقی ادوار میں یہ جزوی طور پر موجود رہی ہے۔ہم مسلمانوں کی تہذیب کو اسلامی تہذیب کہتے ہیں۔اسلامی تہذیب اس وقت پوری آب و تاب کے ساتھ پوری دنیا میں موجود ہے اور انشااللہ رہے گی۔کسی تہذیب کی تشکیل میں موجود خیالات و نظریات جو اس کا بنیادی حصہ ہوں اس کے عوامل کہلاتے ہیں۔ جبکہ عملی طور پر موجود اس کے ارکان و اجزا عناصر کہلاتے ہیں۔اسلامی تہذیب میں دوسرا درجہ عناصر کا ہے کیو نکہ یہ اس تہذیب کا عملی حصہ ہیں اور انسان کی سیرت کو مضبوط کرتے ہیں۔

ایک حدیث مبارکہ میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ، اسلام کی بنیاد چار چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کو ئ معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قا ئم کرنا۔ زکوٰۃ ادا کرنا ،حج بیت اللہ کرنااور رمضان کے روزے رکھنا۔ یہ عناصر زیادہ تر عبادت پر مشتمل ہیں اور انسان کی سیرت و کردار کومضبوطی فراہم کرتے ہیں اور ا گر انسان ایمانی طور پر مضبوط ہوتو یہ عناصر اس کی ذات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انہیں عناصر میں موجود آخری عناصر جو ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا یعنی روزہ اسلام کا تیسرا بڑا رکن ہے۔ لغوی معنی رک جانے اور باز رہنے، ترک کر دینے کے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے بعد۱۰ شعبان اعظم۲ ہجری کوماہ رمضان کے روزے مسلمانوں پر فرض کر دیئے گئے ۔ یہ ایک فرض عبادت ہے اور ایسی عبادت ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ خود دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘ یہ انتہا ئی با برکت مہینہ ہے اور اس مہینہ میں ہر نیک کام کا اجر عام دنوں کی نسبت بڑھ جاتا ہے۔

Ramadan

Ramadan

صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے عظیم ا لشان کارنامے بھی اسی مہینے میں انجام پائے۔ غزوہ بدر اسلام کی پہلی با ضابطہ جنگ بھی رمضان ا لمبارک میں ہوئی اور مسلمانوں نے اس میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ دوسرا اہم اور عظیم ا لشان کارنامہ فتح مکّہ ہے۔ مسلمانوں نے رمضان ا لمبارک کے مہینے میں ہی مکّہ جو قلب عرب ہے اس کو فتح کر لیا اور تیسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا حصول ہے ۔ ۲۷ رمضان المبارک کو پاکستان وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ قرآ ن پاک کا نزول بھی اسی فضیلتوں والے ما ہ میں مکمل ہوا۔ روزے صرف مسلمانوں کی ہی عبادت کا حصہ نہیں بلکہ دوسری قوموں پربھی فرض کیے گئے قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اے ایمان والو: تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فر ض کیے گئے۔ تاکہ تم پرہیز گار بن سکو۔ آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ رمضان میں روزہ رکھنے کا مطلب صرف کھانے پینے سے ہی پرہیز نہیں بلکہ ہر اس کام سے پرہیز گاری ہے جو گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔

عام طور پر زکوٰۃ جو کہ سال میں ایک دفعہ ہر صاحب استطا عت مسلمان پر فرض ہے وہ بھی اسی ماہ کے آخری عشرے میں ادا کر دی جاتی ہے جو مال کے نصاب کے مطابق ہوتی ہے۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، ’’ رمضان ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔‘‘ روزے کا مقصد مسلمانوں کو تمام برے کاموں اور گناہوں سے روکنا ہے اور زکوٰۃکے ذریعے دوسرے لوگوں تک مال و دولت کو پہنچانا ہے تاکہ مال گردش میں رہے۔ قدرتی طور پر اس ماہ میں مسلمانوں کے اندر نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے اور وہ نیکی کی طرف ما ئل ہو جاتے ہیں اور ان میں ہمدردی کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے لیکن معاشرہ میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو روزے نہیں رکھتے ۔ میرا واسطہ بھی ایک ایسے ہی شخص سے پڑا۔

Roza

Roza

میں نے اس سے پوچھا۔ آپ مسلمان ہوتے ہوے روزہ کیوں نہیں رکھتے۔ ان کا جواب سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ ان کا جواب تھا روزہ رکھ کر لوگ جھوٹ بولتے ہیں بے ایمانی کرتے ہیں فریب کرتے ہیں روزہ رکھنے کا کیا فائدہ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کے قول و فعل میں یکسانیت نہیں ہو گی تب تک دوسرے مسلمانوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں۔ بدن کے ہر حصہ کا روزہ ہونا چاہیے تبھی ہم روزے کا صحیح حق ادا کر سکتے ہیں