سردار علی صابری ایک عہد سازشخصیت

Sardar Ali Sabri

Sardar Ali Sabri

تحریر : راؤ عمران سلیمان
آل انڈیا مسلم لیگ نے انتخابی عمل میں یہ سوچ کر حصہ لیا کہ مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے اس سوچ کے ساتھ مسلم لیگ نے 1946 کے صوبائی انتخابات میں مسلمان اکثریت کے صوبوں سمیت دیگر صوبوں میں قائم نشستوں پر بھرپور کامیابیاں حاصل کی ؂،کیونکہ نعرہ یہ تھا کہ جب مسلمان پاکستان کا قیام چاہتے ہیں تو انہیں مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا ایسے جہاں اس وقت مسلم لیگ کے عظیم لیڈروں نے اپنا بھرپور کردارادا کیا وہاں اس زمانے کے میدان صحافت سے وابستہ صحافیوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔تصورپاکستان کا تصور جو قائداعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں نے پیش کیا اس کی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ ان مقاصد کو عوام تک پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا کیونکہ ایک نئے اسلامی ملک کا تصور اس وقت ہی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتاتھا جب اسے عوام کی بھرپور تائید حاصل ہوتی ،قائداعظم اوران کے ساتھیوں کی سیاسی جدوجہد اور ان کے بیانات کو آگے پہنچانے کے لیے جن لوگوں نے اہم کردار اداکیا ،وہ تمام تر لکھاری اور صحافت سے وابستہ شخصیات کاقیام پاکستان کی کامیابی میں اتنا ہی ہاتھ تھا جتنا کہ قائداعظم کے دیگر قریبی ساتھیوں کا ،اس دور میں جن صحافت سے وابستہ لوگوں کے نام مشہور ہوئے وہ تمام کہ تمام جہاں شعبے کے لحاظ سے قلم کار تھے وہاں ان کا مسلم لیگ کے لیے سیاسی کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔وہ مسلم لیگ کے جلسے جلسوں میں تقریریں بھی کرتے تھے اور قائداعظم کو آزادی کی جدوجہد کے لیے مفید مشورے بھی فراہم کرتے تھے ۔

بانیان پاکستان کے تصور کو وسعت دینے کے لیے صحافت ہی وہ ہتھیار تھا جو لوگوں کو ایک ایک پل کی خبردیتا تھا ان صحافیوں میں سے بے شمار گمنام لوگوں کا خاکہ پیش کرنا شاید ممکن نہ ہو مگر جن کے ناموں کو قوم جانتی ہیں ان کو بھلانا پاکستان کی تاریخ کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہوگا،یہ ایک حقیقت ہے کہ قائداعظم کی قیام پاکستان کے لیے چلائی جانے والی تحریک ایک ایسی تحریک تھی جس کا موازنہ دنیا کی کسی بھی بڑی تحریک سے نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ قائداعظم کی تحریک میں مسلم لیگ اوران کے ورکروں کی تعداد کروڑوں میں تھی جنھوں نے ہر محاز پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور وہ ایک الگ وطن کی خواہش میں لڑنے مرنے کے لیے تیار رہتے تھے،ہمیں ان تمام قومی ہیروز کی قربانیوں کا زکر کرنا چاہیے ان عظیم شخصیات کی برسیوں کو قومی تہور کے طور پر منانا چاہیے ،ہمیں شہروں اورقصبوں کی سطح پر ایسے گمنام ہیروز کو ریسرچ کرکے ان افراد کی نشاندہی کرنا چاہیے اور اس طرح قیام پاکستان کے لیے کی جانے والی ان افراد کی کاوشوں کو منظر عام پر لانا چاہیے ۔اسی طرح سرسید احمد خاں جہاں مسلم لیگ کے ایک عظیم رہنما رہے وہاں ان کا تعلق میدان صحافت سے بھی جڑا رہا جن کا دور صحافت 1815سے لیکر 1898تک محیط رہا،اس دور میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ ملکی آزادی کے لیے بہت سے اخبارات اور رسائل نے اپنا کرداراداکیا تو اس میں کسی شعبے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے،کیونکہ ،مسلم اخبارات میں جب آزادی کی تحریک پر مضامین کو شہرت دوام حاصل ہوا تو وہاں ہندو اخبارات میں بھی مسلمانوں کی الگ وطن کے لیے کی جانے والی کاوشوں پر خوب پروپیگنڈہ کیا گیامگر ہمارے بیدار مغز مسلمان صحافیوں نے اپنے زور قلم کو کسی بھی مشکل وقت میں نہیں روکا۔

معروف صحافی بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی میدان صحافت میں خدمات کسی روشن ستارے کی طرح عیاں ہے ان کے متعلق علامہ اقبال فرمایا کرتے تھے کہ ظفر علی خان کا قلم دین کے بڑے بڑے مجاہدین سے کم نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے لیے حمید نظامی اور استحکام پاکستان کے لیے مجید نظامی کی صحافت اس قوم کے لیے کسی احسان عظیم سے کم نہیں ہے ،حمید نظامی صحافت کے میدان میں قیام پاکستان سے قبل ان صحافیوں میں اپنا شمار رکھتے ہیں۔جو قائداعظم کے قریبی ساتھیوں کا حلقہ تھا مجید نظامی صاحب کے بڑے بھائی حمید نظامی نے 23مارچ 1940 میں قرارد اد کی منظور ی کے موقع پر اپنے اخبار کو تحریک کی آزادی کے ساتھ منسلک کیا۔یسے لوگوں میں سردار علی صابری کا کرداربھی روز روشن کی طرح چمکتا رہے گا جو کہ اس زمانے کا نوجوان اور ایک انمول صحافی تھا،انہوں نے اپنے قلم سے قائد اعظم کے خیالات کو لوگوں تک پہنچایا جن کی کوششوں سے پاکستان کی قیام کا مطالبہ ایک عوامی مطالبہ بن کر اور بھی مظبوط ہوگیا،اور یہ سب قائداعظم کی ولولہ انگیر قیادت اور ان کے کارکنوں کی کوششوں سے ممکن ہوا،سردار علی صابری جہاں قائداعظم کے قریبی رفیقوں میں سے تھے وہاں سردار علی صابری کی ملکی خدمات کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،غرض کہ ایک الگ ملک کی کاوشوں میں سردار علی صابری اپنے پورے خاندان سمیت متحرک اور ان کے شانہ بشانہ رہے ان کا شمار قیام پاکستان کے عہد ساز دانشور شخصیات میں ہوتا ہے ،جبکہ ان کی صاحبزادی محترمہ بیگم محمودہ سلطانہ بھی مادر ملت فاطمہ جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتی تھی جو اس زمانے میں کونسل لیگ کی ممبر بھی تھی اور تاحیات مسلم لیگ کے لیے اپنی جدوجہد کا سفرجاری رکھا معروف مذہنی اسکالر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا تعلق بھی ان ہی شخصیات کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو کہ بیگم محمودہ سلطانہ کے صاحبزادے اور سردار علی صابری کے نواسے بھی ہیں۔

دوستوں قیام پاکستان کو بیسویں صدی معجزہ بھی کہا جاتاہے،اس زمانے میں محبت اور خلوص کا جو جزبہ ہمیں دکھائی دیتا ہے آج ہم ان تمام معاملات خود کو محروم سمجھتے ہیں،ہم باہمی اختلافات اور رنجشوں میں اس ملک کا مسلسل نقصان کررہے ہیں۔ہمیں اس ملک میں انسانوں کا بے ہنگم ہجوم نہیں چاہیے بلکہ ہمیں اس ملک عدل وانصاف اوربھائی چارے کا فروغ چاہیے بلکل اسی جزبے کے ساتھ جو اس وطن کی آزادی کے لمحات میں ہوا کرتاتھا۔اس تحریک میں سارے ہی کرداروں اور صحافیوں کی زندگی پر روشنی ڈالنا شاید ممکن نہ ہو مگر تحریک آزادی کے جن ہیروز کا تزکرہ میرے قلم سے نہ ہوسکاہے ان کی زندگیوں پر آگے کی تحریروں پر لکھنے کی کوشش ضرورکرونگا۔آپ کی فیڈ بیک کاانتظار رہے گا۔

Rao Imran Suleman

Rao Imran Suleman

تحریر : راؤ عمران سلیمان
Email: raoimaran.media@gmail.co
3501- .Mob:0300-928