شیطان مسیحا

Depression

Depression

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں زندگی میں پہلی بار ڈپریشن میں مبتلا ہوا تھا۔ شدید غصہ شدید ڈپریشن اور بے بسی یہ مختلف حالتیں بار بار میرے اوپر طاری ہو رہی تھیں، میں پچھلے کئی دن سے اِن اذیت ناک ملی جلی کیفیات میں جکڑا ہوا تھا، میں جو ساری عمر ہر چیز ہر واقع کو مثبت لیتا تھا، منفی سوچ غصہ نفرت میں ہمیشہ اِن چیزوں کے خلاف رہا تھا، دن رات ملنے والوں سے بھی یہی کہتا تھا، کہ انسانی شخصیت کے لیے یہ انتہائی مہلک اور نقصان دہ ہیں، کبھی تو میرے وجود میں غصے انتقام نفرت کے آتش فشاں پھٹنے شروع ہو جاتے، دل کر تاجلا کر راکھ کر دوں قتل کر دوں، اُس کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دوں دوسرے ہی لمحے ڈپریشن آہنی شکنجے کی طرح مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا۔

میں پچھلے کئی دن سے اِس تکلیف دہ صورتحال سے دو چار تھا، میں شدید اضطرابی حالت میں مختلف جگہوں پر جا چکا تھا، کئی دوستوں کو فون کر چکا تھا، کتابوں میں مورچہ بند ہونے کی کوشش کر چکا تھا، نماز عبادت ذکر مجھے کہیں بھی سکون نہیں مل رہا تھا، میں اچھی اور پرسکون نیند کا مالک ہوں، میں جب چاہوں جہاں چاہوں سو جاتا ہوں، میں دن رات جب بھی کبھی فارغ ہوں، تو چند لمحوں میں ہی نیند کی وادی میں اُتر جاتا ہوں، لیکن پچھلے کئی دن سے نیند کی دیوی مُجھ سے روٹھ چکی تھی، بلکہ بہت ہی کم ہو چکی تھی، نیند کے لیے کئی کمرے اور بسترے بدل چکا تھا، مراقبہ اور یوگا کی ورزشیں جو نیند میں معاون ہوتی ہیں، سانس کی مشقیں جسم کو ریلیکس کرنے کی ورزشیں کرچکا تھا، لیکن اِن تمام کو ششوں کے باوجود نیند ایک یا دوگھنٹوں کے بعد مہربان ہوتی، لیکن میں دس پندرہ منٹ بعد ہی ہڑ بڑا کر اٹھ جاتا تھا،

میں جیسے سونے کی کوشش کرتا، وہ بے بس کرب سے بھر پور چہرا میرے سامنے آ جاتا، کرب آلودہ آنسوئوں سے لبریز دو آنکھیں جن سے آنسوئوں کے فرات مسلسل بہہ رہے تھے، اُس بو ڑھے کمزور جھریوں سے بھر پور چہرے کی اداسی بے بسی آہ وبقاء میرے لیے جان لیوا بن چکی تھی، میں اپنی تبدیلی پر حیران تھا، جو فطری طور پر اتنا نرم حلیم کہ کبھی مچھر مکھی کو بھی مارنے سے گریز کرئا تھا، کسی انسان کے مرنے کی بد دعائیں کر رہا تھا۔

میں بار بار سوچ رہا تھا، کاش اگر قتل کرنا جائز ہوتا، تو میں یقینا اُس ظالم کو قتل کر دیتا، میں جو ہمیشہ ہر فقرے پہلو واقعے کا مثبت پہلو دیکھتا تھا، اِس واقعے کو جس بھی پہلو یا انداز سے دیکھتا تھا، غصہ انتقام ڈپریشن پہلے سے بھی بڑھ جاتا تھا، میں جو اللہ تعالی کے خاص فضل سے پچھلے دو عشروں سے خدمت خلق کی ٹوٹی پھوٹی کوشش کر رہا ہوں، روزانہ سینکڑوں لوگوں سے ملتا ہوں، اِن میں اچھے برے سب ہی لوگ شامل ہوتے ہیں، بلکہ زیا دہ ترگناہ گاروں اور ظالموں کی تعداد ہوتی ہے، لیکن مجھے کبھی بھی کسی انسان سے نفرت نہیں ہوتی، کیونکہ میں گناہ سے نفرت ‘گناہ گار سے نفرت کا قائل نہیں ہوں،

میں جو عرصہ دراز سے مظلوموں کی درد ناک داستانیں سن رہا ہوں، ظالموں کی ہولناک کہانیاں سن چکا ہوں، انسان کے وحشیانہ روپ دھوپ دیکھ چکا ہوں، کبھی بھی کسی کی موت یا قتل کرنے کا نہیں سوچا، لیکن اِس واقع نے تو مجھے اندر باہر سے اُدھیڑ کر رکھ دیا، اس میں کوئی شک نہیں، کہ انسان ظلم پر اُتر آئے تو درندے بھی شرم کھاتے ہیں، اور نیکی پر اُتر آئے تو فرشتے بھی وضو کرتے ہیں، لیکن کوئی انسان وحشت درندگی ظلم گناہ میں اِس حد تک گر جائے گا، کہ شیطان بھی شرما جائے تاریخ انسانی کے بڑے بڑے ظالم بھی دہل جائیں۔

Rape Victim

Rape Victim

تاریخ انسانی میں ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک ظالم اِس کرہ ارض پر وحشت ناک داستانیں رقم کر چکا ہے، لیکن اِس حد تک تو کبھی سوچا بھی نہ تھا، انسان جوانی اقتدار میں یہ کیوں بھول جاتا ہے، کہ اُس سے پہلے کبھی اِس دھرتی پر اُس سے زیادہ طاقتور اور اقتدار والے آکر چلے گئے ہیں، وہ بھی یہی سمجھتے تھے حیرت ہوتی ہے اُن ظالموں پر جو سمجھتے ہیں، کہ اُن جیسا نہ کوئی آیا نہ ہی کوئی آئے گا، ایسے ظالم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخر ایک دن انہوں نے قیامت کے روز کائنات کے اکلوتے مالک کے سامنے پیش ہونا ہے، اُس دن اِن ظالموں کے جسمانی اعضاء زبان ہاتھ پائوں خود ان کے ظلموں کی گوا ہی دیں گے،

سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو روز محشر کا یقین ہو جو خدائے بزرگ و برتر کو ہی اپنا مالک خالق اور رازق سمجھتے ہوں، جو خدا کو ہی حقیقی حاکم سمجھتے ہوں جن کا یقین ہو کہ عزت شہرت اور دولت صرف خدا کی وجہ سے ہی ممکن ہے، جن کا یہ عقیدہ ہو خیر و شر و ذلت ہدایت و ذلالت حقیقی سچائی اور صراطِ مستقیم وہی ہے، جو تاجدار انبیاء ۖ نے پیش کی، جو اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں، کہ روز محشر نے برپا ہونا ہے، اور آخر خدا کے سامنے دنیا وی تمام اعمال کا جواب دینا ہے، اُس دن کھوٹا کھرا جھوٹ اور سچ حق باطل واقعہ اور واہمہ اپنی حقیقی شکل میں سامنے آجائے گا، اور جنہوں نے اپنی زندگیوں کو سیرت النبی ۖ کے حقیقی رنگ میں ڈھالا ہو تو ایسے خوش قسمت لوگ ہر قسم کی ٹیڑھ سے محفوظ ہو جاتے ہیں، اور پھر ایسے لوگ کردار کا کوہ ہمالیہ بن جاتے ہیں، دولت اور ترہیب کا ہر دائو اور ترغیب کا ہر چکمہ اُن پر پھر اثر انداز نہیں ہو سکتا، الٰہی رنگ میں رنگے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں، جو مل جانے اور چھن جانے کے خوف سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں، ان کے عقیدوں کو کوئی نہیں خرید سکتا، اور اِن کا ضمیر کبھی بھی کمزور نہیں پڑ سکتا، ایسے ہی لوگ معاشروں کی جان ہوتے ہیں، اِیسے لوگوں کے کردار کی خوشبو سے ہی گلشن ِ حیات مہک رہا ہے۔

ایسے لوگوں کو نہ تو دبایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی الجھایا جاسکتا ہے، ایک بار کسی نے سرور کائنات ۖ سے عرض کی ” یا رسول اللہ ۖ ” مجھے دین کی کوئی ایسی بات بتائیے جس پر عمل کروں، تو پھر کچھ پوچھنے اور کرنے کی ضرورت نہ محسوس ہو تو آقا کریم ۖ نے شفیق لہجے میں فرمایا ” تم کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اُس پر ڈٹ جائو ” محبوب خدا کے اِس مختصر جملے میں حکمت و دانش کا ایک جہاں آباد ہے۔ جو لوگ احکامات الٰہی اور سیرت طیبہ کو اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں، وہی لوگ اِس جہاں اور اگلے جہاں میں سر خرو ہونگے، لیکن روز اول سے شیطان بھی انسانوں کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے میں لگا ہوا ہے، ہر دور میں انسان شیطان کا آلہ کار بنا رہا ہے، لیکن مذکورہ واقع میں شیطان بھی لرز اٹھا ہوتا، میں اُس دن گھر پر ہی تھا دروازے پر کسی نے آکر دستک دی، تو میں نے جاکر دروازہ کھولا لیکن دروازہ کھولنے کے بعد جس صورتحال سے مجھے دو چار ہونا پڑا، میں اُس کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا، میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا میرے سامنے ایک دیہاتی بوڑھا کھڑا تھا، اُس نے مجھے دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ دئیے اور باواز بلند رونا شروع کر دیا، کہ مجھے معاف کر دیں، میں نے آپ کو آکر تنگ کیا بوڑھے دیہاتی کا جھریوں بھرا چہرہ اور اُس چہرے پر لگا تار آنسوئوں کی قطاروں سے میرا دل بھی بھر آیا، میں نے بوڑھے شخص کو حوصلہ دیا، اور کہا آپ پلیز نہ روئیں مجھے بتائیں، میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں، تو بوڑھا شخص کچھ نارمل ہوا، میر اشفیق لہجہ دیکھ کر بوڑھے کی جان میں جان آئی، وہ بولنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن پوری کوشش کے باوجود الفاظ اُس کی زبان سے نہیں نکل رہے تھے، آخر اُس نے ساتھ آئے رکشے کی طرف اشارہ کیا، تو میں بوڑھے کے ساتھ اُس رکشے کی طرف بڑھا، رکشے میں ایک خوبصورت نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، اُسے دیکھتے ہی میں پہچان گیا، کہ یہ ذہنی طور پر معذور ہے، اُس کے چہرے کے تاثرات اور آنکھیں بتا رہی تھیں، کہ وہ معذور ہے میں نے بوڑھے شخص کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو وہ روتی آواز میں بولا میرا چوہدری میری معذور بیٹی کو علاج کے بہانے لے گیا، اور اِس کو حاملہ کرکے واپس کر گیا، اب وہ اپنی بے عزتی کے خوف سے اِس کی جان کے پیچھے پڑا ہے، ہماری جان بچالیں اُس درندے سے اور بوڑھا شخص دھاڑیں مار کر رونے لگا۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org