سعودی عرب کے خلاف مذموم مہم

Grand Mufti Sheikh Abdulaziz Al-Asheikh

Grand Mufti Sheikh Abdulaziz Al-Asheikh

تحریر: آصف خورشید رانا : اسلام آباد
کوئی دلیل باقی نہ رہے تو مکالمہ ختم ہو جاتا ہے پھر الزامات ، جھوٹ اور افواہوں کا سہارالے کر دن کو رات ثابت کرنے کی کوشش جاری رکھنا باطل کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا ہے ۔اگر تعصب ، ضد اور نفرت کی بنیاد پر قائم عقیدتوں کو چھوڑ دیا جائے تو بات واضح ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی ۔لوگ عقائد بناتے ہیں پھر ثبوت تلاش کرنے نکل جاتے ہیں اور ناکام ہونے پر الزامات کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ ”کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں کو آگے بیان کرتا پھرے ”گزشتہ دنوں ایک فتویٰ کو سعودی عالم مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز کے ساتھ منسوب کیا گیا جس میں کہا گیا کہ بھوکا آدمی اپنی بیوی کا گوشت کھا سکتا ہے۔

چونکہ یہ ایک صحافی نے شئیر کیا تھا تو کافی سارے لوگوں کو اس خبر پر اعتماد ہونے کی وجہ سے اس پر بحث شروع کر دی گئی۔ کوئی بھی باشعور اس خبر کو دیکھ کر ہی کہہ سکتا ہے کہ سعودی علما ء کے عزت و وقارکو کم کرنے کے لیے اس طرح کی خبر پھیلائی گئی ہے جس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔تھوڑی سی تحقیق کے بعد مجھے اس خبر کی تردید بھی مل گئی جس میں مفتی اعظم نے اس فتویٰ کو سراسر جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا ۔ بدقسمتی سے ان ساری جھوٹی خبروں کو سوشل میڈیا پر عام کرنے میں اس لوگوں کا ہاتھ ہے جو سعودی عرب اور خادم الحرمین شریفین سے نظریاتی طور پر مخالفت رکھتے ہیں۔

سعودی عرب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے عقید ت و محبت کا محور اور عقیدتوں کا مرکز ہے ۔مسلمانوں کی روحانیت کے دوعظیم مراکز مدینہ منورہ اور مکہ المکرمہ اسی سرزمین پر واقع ہیں جن کا نام سنتے ہیں دلوں میں سرور کی کیفیت ، آنکھوں میں ٹھنڈک اور نگاہیں بے اختیار اللہ کی طرف اٹھ جاتی ہیں کہ زندگی میں کوئی ایسا موقع مل جائے جب اس کا ماتھا سرزمین حجاز کو چھو جائے۔ یہ وہ پہلا گھر تھا جسے دنیا میں اللہ نے اعزاز سے نوازا۔

Saudi Arabia

Saudi Arabia

انہی مقامات کا فیض تھا کہ سعودی عرب کے حکمرانوں نے اپنے لیے کسی لقب کی بجائے خادم الحرمین شریفین کہلانا اعزاز سمجھا۔ دنیا کے ہر خطے سے سرزمین حجازمیں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں وہ قابل تحسین ہی نہیں قابل رشک بھی ہے۔ خادم الحرمین شریفین کی جانب سے دنیا میں حقیقی اسلامی تعلیمات کو متعارف کروانے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص یورپ اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں اسلامی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں حقیقی اسلامی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کروانے کے ساتھ ان کی سوشل سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ۔اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قائم شاہ فہد کمپلیکس قائم کیا گیا جس کے تحت سترہ سالوں میں اب تک ایک سوچودہ ملین سے زائد قرآن مجید کے نسخے شائع کر کے دنیا بھر میں مفت تقسیم کیے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ قرآن کریم کے مختلف اجزاء تراجم آڈیو،ویڈیو کی شکل میں قرآن کریم وسیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لاکھوں کتب چھپوائی گئی ہیں اور دنیا کی تمام قابل ذکر زبانوں میں جن کی تعداد تیس سے زیادہ ہے، قرآن مجید کے تراجم کر دیے گئے ہیں ۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کیے گئے اقدامات کی فہرست بھی کافی طویل ہے ۔ پاکستان کے ساتھ تو سعودی فرمانروا کی محبت ہمیشہ سے ہی لازوال اور بے مثال رہی ہے ۔ زلزلے اور سیلاب کے موقع پر ہی نہیں بلکہ ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے پاکستان کی بے لوث مدد کی ۔ دنیا بھر میں مسلمان مہاجرین کے لیے سب سے بڑھ کر خدمات سعودی عرب کی ہیں ۔موجودہ دور حکومت میں شاہ سلیمان نے امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ۔ ایسا بھی شاید تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا کہ سعودی عرب نے یمن میں باغیوں کی بیخ کنی کے لیے امریکہ کی جانب دیکھنے کی بجائے پاکستان کو کردار ادا کرنے کی دعوت دی جو بدقسمتی سے سیاست کی نظر ہو گئی ۔تاہم دہشت گردی کے خلاف چونتیس اسلامک ممالک کا اتحاد قائم کرنا شاہ سلیمان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے ان سارے اقدامات سے عالمی استعمارکو اپنی اجارہ داری خطرے میں محسوس ہو رہی ہے ۔عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے دیکھ کر”لڑائو اور تقسیم کرو ” کی پالیسی بری طرح ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے چنانچہ سعودی عرب کے خلاف ایک مذموم مہم شروع کی گئی ۔ عالمی استعمار ہمیشہ سے فرقہ وارانہ تقسیم کا فائدہ اٹھا کر اسے اپنے مقاصد کے لیے تقسیم کرتا رہا ہے ۔ سعودی عرب کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے ایک منظم مہم کا آغاز سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جانے لگا۔ سوشل میڈیا کے اثرات تیزی کے ساتھ معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں اور اسی کو بنیاد بنایا گیا ۔ کچھ عرصہ پہلے خبر شائع کروائی گئی کہ سعودی دربار میں سعودی بادشاہ کے بیٹے اور سعودی وزیر دفاع کے خلاف خلیج روز بروز بڑھتی جارہی ہے جبکہ سعودی علماء اور سعودی شہزادوں نے وزیر دفاع محمد بن سلمان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Differences

Differences

اس خبر میں پراپیگنڈہ کیا گیا کہ سعودی دربار میں اختلافات اتنے شدید ہوگئے ہیں کہ سعودی علمائاور سعودی شہزادوں نے سعودی بادشاہ سلمان کو خبردار کیا ہے کہ یا وہ وزیرر دفاع کو بدل دے یا اقتدار چھوڑ دے۔یہ بھی کہا گیا کہ سعودی عرب کو اس وقت عراق، شام اور یمن میں جاری جنگوں میں زبردست شکست کا سامنا ہے جو وہ امریکہ کی سرپرستی میں لڑ رہا ہے جبکہ ان جنگوں پر سعودی عرب اب تک اربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کا بہت جلد دیوالیہ ہوجائے گا۔ابھی اس جھوٹی خبر کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ خاص منصوبہ بندی کے تحت لیک شدہ دستاویزات میں انکشاف کروایا گیاکہ ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے سعودیہ کی جنوبی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اسرائیلی کمپنی (مجال گروپ 4)کے خدمات حاصل کرنے کے احکامات جاری کردئے ہیں جو جنوبی سرحدوں پر بارودی سرنگوں کا نیٹ ورک بچھائیگا۔

یہ دستاویزات النجم الثاقب نامی یمنی ویب سائٹ پر شائع کی گئی جس میں مزید بتایا گیا کہ سعودی عرب اس کام کے لئے کمپنی کو 45 ملین ڈالر کی رقم ادا کریگا۔قابل ذکر بات تو یہ ہیں کہ یہ کمپنی ( G4S ) نامی اسرائیلی گروپا آف کمپنیز کاحصہ ہیں جس کی شاخیں سعودی عرب کے کئی شہروں میں موجود ہیں اوراس کمپنی کوقبل ازین حرمین شریفین کی سکیورٹی کا ٹھیکہ بھی دیاگیا تھا جس پر اس وقت کے القدس میںمجلس اسلامی کے صدر شیخ عکرمہ صبری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب حرمین شریفین اور فریضہ حج کی سکیورٹی انتظامات یہودیوں کو نہیں دے سکتی۔یہ ساری خبر ہی بے بنیاد اور من گھڑت تھی ۔اس سے پہلے ایک اور جھوٹی خبر شائع ہوئی جسے بہت ذیادہ پھیلایا گیا کہ سعودی عرب کا طیارہ اسرائیل میں لینڈ کر گیا جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسرائیل سعودی تعلقات میں جو من گھڑت خبریں شائع ہو رہی ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں جبکہ سرکاری سعودی فضائی کمپنی نے اس ساری کہانی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ تل ابیب میں اترنے والا ہوائی جہاز سعودی عرب کا نہیں بلکہ پرتگال کی ایک فضائی کمپنی”ہائی فلائی” کا تھا۔ پرتگالی کمپنی اور سعودی ایئر لائن کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ معاہدے کی وجہ سے پرتگالی ہوائی جہاز پرسعودی عرب کی فضائی کمپنی کا ”لوگو” بھی بنایا گیا تھا جس کے باعث یہ غلط فہمی پیدا ہوئی یہ ہوائی جہاز سعودی عرب کی سرکاری فضائی کمپنی کا ہے۔ اس واقعے کے بعد سعودی فضائی کمپنی نے”ہائی فلائی” سے معاہدہ ختم کردیا ہے۔

دلیل اور عمل کے میدان میں شکست کھانے والے اب جھوٹی خبروں کے سہارے سعودی حکومت کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ تاہم ایسی مذموم حرکتوں سے عالم اسلام کے دل سے سعودی عرب اور خادم الحرمین شریفین کی محبت و عقیدت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

Asif Khurshid

Asif Khurshid

تحریر:آصف خورشید رانا : اسلام آباد