بنگلہ دیش کا منظر

Saudi Arabia

Saudi Arabia

تحریر: افتخار انجینئر افتخار چوہدری
سعودی عرب کے موکقر جریدے اردو نیوز میں ایک مدت بعد ایک ایک صحافی کی تحریر پڑھ رہا ہوں ۔ پڑھنے کی بعد مجھے ایسا لگا ایک جنگل میں درخت کے نیچے بیٹھا ایک بیڑیا اپنے زخموں کو چاٹ رہا ہے اس نے سوچا کچھ اور تھا اور اس کے ساتھ کچھ اور ہو گیا ۔ صحافی بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ کی کتاب پر تبصرہ کر رہا ہے، بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف تیزی سے ابھرتی ہوئی نفرت کو وہ اپنے رنگ میں دیکھ رہا ہے اسے اب بھی یہ وہم ہے کہ بھارت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے اور بنگلہ دیش کے چھوٹے بڑے ہونے کا نتیجہ ہے یقینا اس نے ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں رہنے والے کروڑوں لوگوں نے جب فوجیں داخل کونے کے بعد پاکستان کو دولخت کیا تھاتو سمجھ لیا کہ انہوں نے پاکستان کی بنیاد کو خلیج بنگال میں دکیل دیا ہے۔

ایسا نہ ہو سکا چند سال بعد ہی اندراگاندی سکھوں کے ٹمپل پر چل دوڑے وہ ایک زعم میں مبتلا تھیں کہ ہندوستان ایک قوم بن چکے ہیں وہاں کوئی ہندوں سکھ ، مسلم اور عیسائی نہیں ہے مگر نہرو کی بیٹی نے یقینا آخری سانس لیتے ہوئے ساچا ہو گا کہ مذھب کی شناخت ہی سب سے زیادہ تگڑی ہوتی ہے اور اس نے بنگلہ دیش کو الگ کر کے کوئی کارنامہ نہیں انجام دیا ۔

صحافی لکھ رہا ہے کہ کمال حسین جو پاکستان سے الگ ہونے والے ملک کے بانیوں میں شامل ہے اور اس نے بنگلہ ہندو تعلقات کو معاشی معاملات کے تناظر میں ایک شکوے سے زیادہ نہیں سمجھا اور کلدیپ نئر نے لکھا ہے کہ مجھے وہاں کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ کاش مجھے اس وقت موت آ جائے جب ہندو بنگلہ دیش تعلقات خراب ہونا شروع ہو جائیں۔
بنگلہ ہندو اس احساس اور زعم میں مبتلا رہے کہ ہندو اور بنگلہ دیش تعلقات خراب کرنے میں بیرونی طاقتیں ملوث ہیں اور 25 اور 30 لاکھ اسلحہ اب بھی لوگوں کے پاس ہے جو باعث انتشار ہے۔

Bangladesh

Bangladesh

دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں بھولے لوگ، کم بھولے لوگ اور انتخائی بھولے لوگ۔ ابن نشاء نے کہیں لکھ کر میری مشکل آسان کر دی ہے ، پنجابی میں ہم تیسری قسم کے لوگوں کو بھولے بادشاہ کہتے ہیں، جب ایک پنجابی یہ کہا رہا ہوتا ہے تو بھولے بادشاہ کی تھڑی کو ہتھیلی کے مرکز میں ے کردائیں اور بائیں رخسار کو مس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بھولے بادشاہ ۔ میں کلدیپ نئر سے بہت دور ہوں جدہ اور نئی دہلی کو فرق بہت ہے ۔ چشم تصور میں یہی سمجھ لیا جائے کہ بابے کلدیپ نئر کی تھوڑی میرے ہاتھ میں ہے اور میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ معاشی معاملات سے تلخییاں پیدا ہو سکتی ہیں مگر قدورتیں نہیں ، دل کبھی نہیں مل سکتے ہیں ۔ حادثے ناراض اور بچھڑے بھائیوں کو لمحوں میں گلے لگا دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش ایک ایسی حقیقت ہے جسے ورغلا کو پاکستان سے الگ کر دیا گیا تھا ، دراصل اہل پاکستان اور پاکستان کے باہر رہنے والوں کی اپنی اپنی جگہ کوششیں تھیں جو رنگ لائیں ۔ اس فرد عمل کا ذکر مشیر کاضمی سے بھی کیا اور شاعروں نے نوخے بھی لکھے ۔

مجھے مرزا گلناز بیگ یاد آ رہے ہیں ان کے شعری ذوق کا معترف بھی ہوں دو ناراض بھائیوں کے بارے میں ایک عرصہ پہلے اردو نیوز میں لکھا تھا وہ آج بھی یاد ہے ہندو اور بنگلہ دیش کس کرکٹ میچ تھا اور ڈھاکہ پاکستان کے ساتھ تھا اس کیفیت کیلئے انہوں نے اس شعر کا انتحاب کیا۔ یہ اس طرف اشارہ تھا جسے الطاف حسین نے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے کے عنوان سے لکھا۔

کہو دریا سے نہ کرے پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے

دریاوں کی سر زمین ڈھاکہ نہ کبھی اس تعلق سے کبھی پاہر تھا، نہ ہے اور نہ کبھی رہے گا۔ کسی ہندوستانی نے ہی پاکستان کے دولخت ہونے پے کہا تھا کہ ایک اور پاکستان تو 71 میں بھارت نے بنا دیا تھا اس لیے کہ وہ اسے ہنگلستان دیکھنا چاہتے تھے ۔ خیر یہ الگ بحث ہے جسے کسی اور وقت پے چھوڑ نا بہتر ہوگا اس لئے کے جب ان کی بات ہوتی ہے تو پاکستان کے جعلی مامے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان جلنے کے لئے رحمت علی نام کافی ہے ۔ اسلام اور لالہ اللہ کا رشتہ اتنا تگڑا ہے کہ اس کی آواز پر دنیا کا ہر مسلم اگٹھا ہوسکتا ہے ایک منتشر ٹکڑوں میں بٹی قوم دن میں پانچ مرتبہ اس کا مظاہرہ بھی کرتی ہے ۔ قوموں کے وجود کے لئے اس نظریات اہم ہوتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کو سیکولر ازم پر کھڑا دیکھنے والے کو خواب کبھی شرمندة تعبیر نہ ہوں میں بزرگ صحافی سے بقول احمد ندیم قاسمی کہوں گا۔

ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھر میں تجھے پتھر لا دوں

Pakistan

Pakistan

اس ملک کی پاکستان سے جدائی صرف نا انصافی کی وجہ تھی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ جیتنا اگر مغربی پاکستان میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا جاتا شاید یہ نوبت نہ آتی ۔ وہ ہم سے اپنا حق مانگ رہے تھے اور اہم انہیں دینے کے لئے تیار نہ تھے ۔ یہ وہی بنگلہ دیش تھا جو تحریک پاکستان میں مغربی پاکستان سے زیداہ سرگرم تھا کہتے ہیں خود مجیب اپنی سائیکل پر سبز پرچم لگائے کلکتہ پہنچے تھے ۔ بنگالیوں نے پاکستان پاکستان کے لئے بے شمار قربانیاں دیں ۔ پاکستان کے مغربی حصے میں تقسیم کے وقت خون کی ندیاں بہیں اور پنجاب کے اندھے کنووں میں بے شمار نوجواں مسلم لڑکیوں نے عصمت بچانے کے لئے جانیں دیں جسٹس شریف کمیشن نے ان کی توداد پچاس ہزار سے زیادہ بتائی ہے اور اتنی ہی سکھوں کے حرم میں چلی گئیں اس سے بڑہ کر آزادی کی قیمت دی جاسکتی ہے ۔ میں اس صحافی کی تحریروں کا مداح ہوں مگر اس محترم بزرگ کو عمر کے اس حصے میں یہ سمجھ نہیں آرہی کے بنیادیں غلط ہوں تو دیواریں سیدہی نہیں کھڑی کی جاسکتی بنگلہ دیش کو سیکولر ازم کی مصنوعی بنیاد مہیا کرکے آپ نے 15 کروڑ عوام کو نئی منڈی تلاش کرلی مگر انہیں جو شناحت بخشی وہ قابل رحم ہے۔ آپ نے بنگال کو دیا چوٹھی موٹی ملازمتیں ، چھوٹے موٹے کام۔

کلدیپ نئر صاحب شاید اب وزیر اعظم اس دنیا میں نہیں رہا ہوگا ، تاریخ اپنے آپ کو دہرار ہی ہے ایک وقت تھا ڈھاکہ کہ یونیورسٹی سے عبدالمالک کو اس لئے شہید کردیا تھا کہ وہ اسلامی نظام تعلیم کی بات کر رہا تھا اور اب ایک وقت یہ ہے کہ اس ڈھاکہ یونیورسٹی سے انقلاب کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور اس عشرے کے سب سے بڑے مظاہرے اسلام کے نام پر ہوئے ۔ بزرگ صحافی کی خواہش اپنی جگہ مگر بنگلہ دیش کے زمینی حقائق اسے ایک حقیقی اسلامی ریاست کی جانب لے جارہا ہیں ، ایک ایسی ریاست جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ۔ دنیاوی مصلحتوں میں اس ملک کو بھارتی منڈی کی صورت میں دیکھنے والے اپنے ہاتھوں سے نکلتے ہوئے بنگلہ دیش کے نئے منظرنامے پر سر پیٹے کی بجائے اس حقیقت کو تسلیم کریں .

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر: افتخار انجینئر افتخار چوہدری