سعودی عرب کا یمن کیلئے امداد کا اعلان

Saudi Arabia Aid for Yemen

Saudi Arabia Aid for Yemen

تحریر: منذر حبیب
سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد نے یمن کے لیے مزید ڈیڑھ ارب ڈالرز کی امداد کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ وہ یمنی عوام تک انسانی امداد بہم پہنچانے کے لیے الحدیدہ سمیت ملک کی تمام بندرگاہوں کو کھلا رکھنے کے لیے اقداما ت کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ بندر گاہیں ہمہ وقت کھلی رہیں۔اس اعلان سے قبل گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے مرکزی بنک نے یمن کے مرکزی بنک میں دو ارب ڈالرز کی رقم منتقل کی تھی اور اس کا مقصد یمنی ریال کو مزید گراوٹ کا شکار ہونے سے بچانا تھا۔حرمین نیوز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق عرب اتحاد کا کہنا ہے کہ نئی اعلان کردہ امدادی رقم اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ذریعے تقسیم کی جا ئے گی اور اس کو غذائی اجناس اور دوسرے امدادی سامان کی یمن میں درآمد پر صرف کیا جائے گا۔اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ یمن کے لیے ماہانہ درآمد کی جانے والی غذائی اجناس کی مقدار کو بڑھا کر ایک کروڑ چالیس لاکھ میٹرک ٹن تک کرنا چاہتا ہے۔

یمن کو اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے سعودی عرب کاا فغانستان بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔آئے دن برادر اسلامی ملک کے مختلف شہروں پر میزائل حملوں کا سلسلہ بھی دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ یمن میں بغاوت کا آغاز ہوا تو سعودی عرب نے فوری طور پر وہاں فوجی کاروائی شروع نہیں کی بلکہ چار سال تک اس مسئلہ کو پرامن طور پر حل کرنے کی کوشش کی۔

اس سلسلہ میں سعودی قیادت کو کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن بعض قوتیں چونکہ یمن کی سرزمین پر فوجی اڈہ بنا کر سعودی عرب کیخلاف گھیرائو کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا تھیں اس لئے بین الاقوامی سیاست آڑی آئی اور سعودی عرب مخالف قوتوں کی شہ پر حوثی باغی جن کی تعداد یمن کی کل آبادی کا شاید پندرہ فیصد سے بھی کم ہو ‘ انہوںنے یمن میں امن کیلئے کئے گئے سمجھوتہ کی خلاف ورزی کی اور یہاں امن و امان کے قیام کی سب کاوشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ عر اق پر قبضہ اور شام کی صورتحال کے پیش نظر صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ سعودی عرب کا چاروں اطراف سے گھیرائو کیا جارہا ہے اور اس سلسلہ میں صلیبیوں و یہودیوں کی باغیوں کو مکمل پشت پناہی حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جب حوثی باغیوں نے بیرونی قوتوں کی مددسے صنعا شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کیخلاف اعلانیہ طور پر مذموم عزائم کا اظہار کیا جانے لگا تو پھر سعودی عرب نے باقاعدہ فوجی اتحاد بنا کر اس بغاوت کو کچلنے کیلئے عسکری کاروائی کا فیصلہ کیا۔ یمن میں بغاوت کچلنے کیلئے جب سعودی اتحاد نے کاروائی شروع کی تو اسے فرقہ وارانہ اورایران و سعودی عرب کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ یہ بات سرے سے ہی غلط تھی۔غیر جانبدار تجزیہ نگاروں نے اس وقت بھی کہا تھاکہ یمن میں اٹھنے والی بغاوت قطعی طور پر دو ملکوں کی جنگ نہیں ہے وہاں باغی ایک منتخب حکومت کیخلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور سرزمین حرمین شریفین پر حملوں کی کھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

اس لئے انہیں طاقت و قوت کے ذریعہ کچلنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح کے باغی جو بار بار سعودی سرحدوں سے دراندازی کی کوشش کرتے اور سرحد کے قریب آکر جنگی مشقیں کرتے ہیں کسی ڈھانچے میں فٹ ہونیو الے نہیں ہیں۔آج سعودی عرب کا حوثی باغیوں کو کچلنے کا موقف بالکل درست ثابت ہو رہا ہے اور اس امر کی بھی واضح تصدیق ہوتی ہے کہ یمن میں بغاوت کھڑی کرنے کا اصل مقصد سرزمین حرمین شریفین کو نشانہ بنانا اور اسے کمزور کرنا ہی ہے۔ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جہاں ملکی سطح پر اہم سیاسی فیصلے کئے وہیں یمن میں قیام امن اورحوثی باغیوں کی مکہ ، مدینہ پر حملوں کی دھمکیوں کے پیش نظر فیصلہ کن طوفان آپریشن شروع کرنا بھی انتہائی اہم فیصلہ تھاجس میں برادر اسلامی ملک کو زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔باغیوں کی کمر ٹوٹتی دیکھ کر وہ اسلام دشمن قوتیں جو یمن کو سعودی عرب کاافغانستان بنانے کے درپے ہیں کے پیٹ میں بہت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ افغانستان میں شکست پر یمن کو سازشوں کی آماجگاہ بنانے والے اتحادی ممالک کو بھی سعودی عرب کی یہ کامیابیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اس کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کیا جائے۔ اسلام دشمن یہ قوتیں سعودی عرب کی جانب سے تو جنگ بندی دیکھنا چاہتی ہیں مگرحوثیوں کی بغاوت کچلنے کیلئے ابھی تک انہوں نے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں اور نہ ہی ایسی ان کی کوئی خواہش دکھائی دیتی ہے جس پر ساری صورتحال بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ کون ہے اور حوثیوں کا ہمدرد کون ہے؟

بہرحال یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے آئینی حکومت کیخلاف بغاوت اور سعودی عرب کیخلاف شروع کی گئی جنگ سے یمن کے عوام بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔بعض قوتوں کی طرف سے بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ عرب اتحاد کے حملوں کی وجہ سے یمنی عوام کے حالات خراب ہو رہے ہیں حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سعودی عرب اور اس کی زیر قیادت اتحاد میں شامل ملک تو یمن کی معیشت بہتر بنانے کیلئے بے پناہ وسائل خرچ کر رہے ہیں اور یہاں کے عوام کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں پہلے سعودی عرب کی جانب سے یمن کے سنٹرل بنک میں دو ارب ڈالر جمع کروائے تاکہ ان کی معیشت کو سہارا دیا جائے اور اس کے بعد عرب اتحاد نے بھی یمن کیلئے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کردیا ہے۔ یمن میں آئینی حکومت کو مضبوط کرنا اور باغیوں کو کچلنا درحقیقت سرزمین حرمین شریفین کا دفاع کرنا ہی ہے۔

عرب اتحاد کی طرف سے گذشتہ سال ہر ماہ یمن میں ایک کروڑ دس لاکھ میٹرک ٹن غذائی اجناس درآمد کی گئیں۔اتحاد نے یمن کی بند رگاہوں کی گنجائش میں اضافے کے لیے بھی چار کروڑ ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے تاکہ غذائی اجناس لے کر آنے والے اضافی بحری جہازوں کو وہاں لنگر انداز کیا جاسکے۔اسی طرح سعودی دارالحکومت الریاض اور یمن کے وسطی صوبے مآرب کے درمیان ایک فضائی کوریڈور قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیاہے جس کے تحت الریاض سے سی 130 مال بردار طیاروں کے ذریعے مختلف اقسام کا ضروری امدادی سامان ، غذائی اشیاء اور ادویہ بھیجی جائیں گی۔اس کے علاوہ میں یمن میں متاثرہ افراد تک امدادی سامان بہم پہنچانے کے لیے سترہ محفوظ زمینی راہداریاں بنائی جائیں گی تاکہ یمن کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں وہاں کسی رکاوٹ کے بغیر امدادی سامان پہنچا سکیں۔ عرب اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ ان انسانی امدادی سرگرمیوں کو محفوظ طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچانے کے لیے یمن کو عسکری وسائل بھی مہیا کیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم مصائب کا شکار یمنیوں کے مسائل کم کرنے کے لیے ان تک پیشہ ورانہ انداز میں امدادی سامان پہنچانے کی ضمانت دیں گے۔سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں کی جانب سے یمن کی انسانی بنیادوں پر امداد کرنا خوش آئند امر ہے ۔ اس کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور نہ صرف یہ کہ اس سے وہاں کے عوام کا معیار زندگی بلند ہو گا بلکہ باغیوں کی قوت بھی ٹوٹے گی اور انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں ہو سکے گی۔

تحریر: منذر حبیب