ہر پل بچھڑتے رہنے کا یہ ڈر اتار دے

Sad

Sad

ہر پل بچھڑتے رہنے کا یہ ڈر اتار دے
سانسوں میں وہ خمار کا منظر اتار دے
جو مجھ کو تیری روح کے اندر اتار دے
گر ہوسکے تو دل کے اس اجڑے دیار میں
اپنے خیال و خواب کا پیکر اتار دے
راہِ وفا میں چھوڑدے ہم کو تو آج ہی
ہرپل بچھڑتے رہنے کا یہ ڈر اتار دے
جس پر مجھے یقین تھا اپنے وجود کا
مجھ کو اسی مقام پہ لاکر اتار دے
تجھ کو عزیز تر ہیں نئے ماہ و سال اب
دیوار سے پرانا کیلنڈر اتار دے

زریں منور