سیکولر بھارت کا انتہا پسند چہرہ

BJP

BJP

تحریر: عبدالحمید
بھارت کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہاں سے آئے روز یہ نعرہ بلند ہوتا ہے کہ اگر بھارت میں رہنا ہو گا، تو بھارت ماتا کی جے کہنا ہو گا۔ پچھلے دنوں بھارت میں ہونے والی الیکشن مہم کے دوران انتہاپسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یہ منشور پیش کیا کہ اگر بھارت کے لوگ ووٹ دے کراس کے امیدواروں کو کامیاب کروائیں گے تو وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کریں گے۔گائیوں کا تحفظ کریں گے اور کشمیر پر مکمل کنٹرول بھارت کا ہو گا۔

اس طرح کے بیانات کا جاری ہونا،اس بات کی دلیل ہے کہ سیکولر بھارت مسلمانوں اور دلتوں کو بھارت سے مٹانے کی دن رات کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارت کے اہم ترین قلم دان بھی مسلمان دشمنی کے لیے مشہور اور ہندو توا کے کٹر حامیوں کے پاس موجود ہیں، جن میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی ، بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار دوول ،بھارت کے ایڈیشنل پرنسپل سیکرٹری پی کے مشرااور بھارتی ریاست اترپردیش کے نئے بننے والے وزیراعلیٰ یوگی ادتیاناتھ سمیت سب ”انتہاپسند ہندوتوا” کی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔اس کے علاوہ بھارتی افواج اور بیوروکریسی میں بھی ”ہندو توا فلسفے” کے پیروکار خاصی تعدادمیں موجود ہیں۔

درحقیقت ”ہندوتوا” ہے کیا…؟مفکرین کے مطابق یہ نظریہ ہے ،نہ فلسفہ اورنہ ہی کوئی نظام زندگی اور کوئی دستور العمل…بلکہ یہ صرف ایک نعرہ ہے ، ایک ایسا نعرہ ہے جو بھارتی”سیکولرازم کے نعرے” کی سراسر مخالفت کرتا ہے۔”ہندوتوا”ایک ایسے بھیانک نظریے کانام ہے جو بھارتی ثقافت کو ہندو مذہب کے آئینے میں متعارف کرواتاہے اور اس سے یقینا”سیکولر بھارت کے نعرے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔
سنگھ پریوارکے بینرتلے جمع ہندو توا تنظیمیں اور ان کے نیٹ ورک اس ہولناک نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلسل سرگرم عمل نظرآتے ہیں اور سنگھ پریوار میں لگ بھگ 52تنظیمیں شامل ہیں،جن میں آر ایس ایس، بھارتیہ جنتاپارٹی اور وشوا ہندوپریشد نمایاں طورپر نظرآتی ہیں۔ ان سب کی مشترکہ حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں میں نفرت کاماحول پیداکر کے اور لوگوںکو اشتعال میں لاکر سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کیے جائیں۔

1969ء میں احمدآبادفسادات، 1979ء میں جمشید پور فسادات،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے، بابری مسجد کے انہدام کے علاوہ حیدرآباد، مکہ مسجد اور اجمیر فسادات سب کے سب انہی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا ایک حصہ ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی اورنام نہاد سیکولر بھارت کی سابقہ وزیراعظم اندراگاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبودیاہے ،جبکہ بھارت میں ہندومسلم فسادات جب بھی جنم لیتے ہیں تودوقومی نظریہ دوبارہ سے اسی نئی آن اور شان سے منظر عام پرابھرتاہے۔ بھارت میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں باقاعدہ پروپیگنڈے اور حکمت عملی کے تحت بی جے پی نے کثیر ہندو راہنماؤں کو آگے لانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس میںجو بھارتی ثقافت کو ہندو مذہب کے آئینے میں متعارف کرواتاہے اور اس سے یقینا”سیکولر بھارت کے نعرے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔
سنگھ پریوارکے بینرتلے جمع ہندو توا تنظیمیں اور ان کے نیٹ ورک اس ہولناک نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلسل سرگرم عمل نظرآتے ہیں اور سنگھ پریوار میں لگ بھگ 52تنظیمیں شامل ہیں،جن میں آر ایس ایس، بھارتیہ جنتاپارٹی اور وشوا ہندوپریشد نمایاں طورپر نظرآتی ہیں۔ ان سب کی مشترکہ حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں میں نفرت کاماحول پیداکر کے اور لوگوںکو اشتعال میں لاکر سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کیے جائیں۔

1969ء میں احمدآبادفسادات، 1979ء میں جمشید پور فسادات،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے، بابری مسجد کے انہدام کے علاوہ حیدرآباد، مکہ مسجد اور اجمیر فسادات سب کے سب انہی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا ایک حصہ ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی اورنام نہاد سیکولر بھارت کی سابقہ وزیراعظم اندراگاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبودیاہے ،جبکہ بھارت میں ہندومسلم فسادات جب بھی جنم لیتے ہیں تودوقومی نظریہ دوبارہ سے اسی نئی آن اور شان سے منظر عام پر ابھرتا ہے۔

بھارت میں ہونے والے حالیہ الیکشن میں باقاعدہ پروپیگنڈے اور حکمت عملی کے تحت بی جے پی نے کثیر ہندو راہنماؤں کو آگے لانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس میںہندؤوں نے قتل کردیاتھا۔ ان شدت پسندوں میں سے 14مشتبہ افراد زیرحراست ہیں،انہی میں سے ایک ہندو ملزم کی والدہ کرن رانا کہتی ہے کہ”وہ(یوگی ادتیاناتھ) ہمارے بھگوان جیسے ہیں۔وہ ہمارے بچوں کو رہائی دلوائیں گے۔”

یوگی ادیتاناتھ وزیراعلیٰ بننے کے بعد ایسی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے کہ جن سے یہ واضح نظر آتاہے کہ بی جے پی ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کررہی ہے۔ بھارت کی موجودہ ریاستی دہشت گردی کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنا بے جانہ ہوگا کہ ”یوگی ادتیاناتھ ” دو قومی نظریہ کو پھر سے زندہ کررہاہے۔ بھارت میں مسلسل ہندو دہشت گردتنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔ کبھی پاکستان دشمنی سے سرشار بھارتیہ جنتاپارٹی کے انتہا پسند رکن اسمبلی منگل پربھارت لودھا ممبئی میں واقع ”جناح ہاؤس” مسمار کرنے کامنصوبہ پیش کرتادکھائی دیتاہے تو کبھی بھارت میں ٹرک ڈرائیوروں کو اس بات پر تشدد کانشانہ بنایاجاتا ہے کہ یہ ٹرک کے ذریعے گائیں کوذبح کرنے کے لیے لے جاتے، کبھی گوشت کی دکانوں کو نذرِآتش کرنے کی خبریں آتی ہیں تو کبھی بھارت کے ایوان بالا میں ”تحفظ گائے” کابل پیش ہوتاہے۔ اس سب سے تویہی لگتاہے کہ بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ گائے کاتحفظ ہے اور پھر پاکستان دشمنی۔ بھارت میں اقلیتوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں یقینی طورپر ”ہندوتوا کا شدت پسند”نظریہ ہے جو اب بھارت میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق،بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی آبائی ریاست گجرات میں ہونے والے فسادات(2002ئ)میں مسلمانوں کی کھلم کھلا نسل کشی کی گئی، جس میں تقریباً 2500سے زائد مسلمانوں کو شہید کیاگیااور سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی اور سینکڑوں گھروں کو جلاکر راکھ کردیاگیا۔ مگر مجال ہے کہ کسی ہندو کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی ہوئی ہو۔ یہی طرز عمل آج نام نہاد سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت میں انتہاپسندی اور لاقانونیت کی بنتا دکھائی دے رہاہے۔ جہاں مسلمانوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے اور مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہیں۔ مگرافسوس کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارتی ظلم وستم پر چپ سادھے بیٹھی رہتی ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں کی خبروں کو اگرہم دیکھیں تو واضح نظرآتاہے کہ بھارت میں کس قدر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے ،ظلم وسربریت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔چندروز پہلے بھارتی ریاست گجرات میں گائے ذبح کرنے والے کی سزا سات سال قید سے بڑھا کر عمر قید کردی گئی اوربھارت ماتا کی جے نہ کہنے پر سات مسلمان کونسلروں کو ہال سے نکال دیا گیا۔

اترپردیش کے علاقے جھاڑ کھنڈ میں مذبح خانے بند کردئیے گئے اور مزید یہ کہ جوبھارت ماتا کانعرہ نہیں لگائیں گے ان کے ہاتھ پاؤں توڑدئیے جائیں گے اور جولوگ گائے کو اپنی ماں تسلیم نہیں کریں گے،ان کو قتل کردیاجائے گا۔ بھارتی معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن پر توبالی وڈ اداکار امتیابھ بچن بھی چیخ اٹھے ہیں۔دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے ملک کے دارالحکومت دہلی میں چلتی بس میں دن دیہاڑے لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جہاں پورے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے،وہیں جموں وکشمیر میں بھارت نے اپنا جارحانہ قبضہ کرکے مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پرپوری دنیاخاموش ہے۔ گزشتہ ماہ میں کشمیرکی تحریک کاسب سے بڑا احتجاج کشمیری طلبا نے کیا۔جب بھارتی فوج کی طرف سے طلبا پر ظلم کیاگیا۔ ان سارے مظالم کو دیکھ کر تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ کشمیر تواب بھارت کے ہاتھ سے جاتادکھائی دے ہی رہا ہے۔اگر بھارت کا شدت پسندی میں یہی رویہ رہا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت جلد بھارت ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

Abdul Hameed

Abdul Hameed

تحریر: عبدالحمید