سیکولرزم اور عالم اسلام

Secularism

Secularism

تحریر : علی عبد اللہ
قرون وسطی میں لوگ دنیاوی زندگی کی نسبت اللہ و آخرت سے دلچسپی رکھتے تھےـ مغرب جب بیداری کے دور میں داخل ہوا اور لوگ ثقافتی و انسانی ضروریات کی تکمیل اور خواہشات نفسانی کے حصول میں آگے بڑھے تو سیکولرزم کا لفظ انسانی مسائل کے ارتقا کے تناظر میں استعمال ہونا شروع ہوا ـ جدید تاریخ کے دوران یہ رجحان آہستہ آہستہ پروان چڑھا اور پھر یہ دین مخالف رجحان کے طور پر پہچانا جانے لگا ـ سیکولرزم کا مطلب لادینیت یا دنیویت ہے ـ ایسی چیز جس کا دین سے تعلق نہ ہو یا دین سے متضادتعلق ہو وہ دنیوی کہلاتی ہے ـ انسائکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق سیکولرزم ایک ایسی اجتماعی تحریک ہے جو لوگوں کے سامنے آخرت کی بجائے صرف دنیا کو ہی ایک ہدف و مقصد کے طور پر پیش کرتی ہےـ اسی طرح ویبسٹر ڈکشنری میں سیکولرزم کی تشریح دنیوی جذبہ یا دنیوی رجحان کے طور پر کی گئی ہے اور اگر آکسفورڈ ڈکشنری کی بات کریں تو وہ سیکولرزم کی وضاحت کچھ یوں کرتی ہے ، دنیوی یا مادی چیز جو دینی یا روحانی نہ ہو یا وہ رائے اور فکر جو اس بات کی قائل ہو کہ دین کو اخلاق و تربیت کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے ـ عام اسلامی کتابوں میں سیکولرزم سے مراد فصل الدین عن دولة ہے یعنی دین و سیاست کی علیحدگی ـ سیکولرزم کی مختلف تعریفات و تشریحات کے بعد سیکولرزم کا صحیح مفہوم کچھ یوں ہے کہ زندگی کو دین سے ہٹ کر قائم کیا جائے ـ چاہے یہ قوم کی سطح پر ہو یا فرد کی ـ اسلام میں نہ تو معتدل سیکولرزم کی گنجائش ہے جیسے لبرل ڈیموکریٹک سوسائٹی اور نہ ہی انتہاپسند سیکولرزم کی جس کی مثال کیمونسٹ معاشرے ہیں ـ دین اسلام ان دونوں اقسام کو رد کرتا ہے ـ عالم اسلام میں سیکولرزم کے مختلف اندرونی و بیرونی اسباب تھے جس بنا پر اسلامی زندگی میں سیکولرزم نے قدم جمائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امت مسلمہ انجانے میں اس کا شکار ہوتی چلی گئیـ

قرون آخر میں مسلمانوں کی پسماندگی کی وجوہات بہت طویل ہیں لیکن اس انحطاط کی ایک اہم وجہ دین کے بنیادی تصورات اور عقائد کا محدود اور تنگ معانی و مفہوم میں بدل جانا تھا ـ یہ وہ سبب ہے جس وجہ سے نہایت بھیانک خطرات نے جنم لیا اور ملت اسلامی ملیا مٹ ہو گئی ـ عثمانیون کو سان جونار میں شکست ہو چکی تھی اور نپولین مصری مملوکوں کو تیزی سے کچلتا چلا جا رہا تھا ـ یہ چیز واضح اشارہ تھی کہ مسلمانوں کا علمی جمود اور مادی و معنوی کمزوری ہی دراصل پسپائی کی اصل وجہ تھی ـ توحید کی دو ضروری اقسام توحید اطاعت و اتباع اور توحید ارادہ و قصد ہیں ـ عالم اسلام آخری ادوار میں ان دونوں کو بھول چکا تھا ـ

توحید اطاعت و اتباع کی بات کریں تو مسلمانوں نے عبادت کی اس قسم کو حکمرانوں، متعصب علما، والیوں اور صوفی مشائخ کی طرف پھیر دیا تھا ـ ان پر سادگی یا جہالت اس قدر غالب ہوئی کہ یہ شعبدہ بازوں سے بھی متاثر ہو جاتے تھے ـ اس زمانے میں عالم اسلام تین بڑی سلطنتوں میں تقسیم تھا جن میں ہندوستان کے مغل، فارس کے صفوی اور عثمانی سلطنت شامل تھی ـ صفوی مکمل منحرف تھے اور اسلام سے ان کا برائے نام رشتہ تھا ـ ان کی سب سے بڑی دلچسپی عثمانی بادشاہوں پر حملے کرنا تھی ـ عوام بادشاہوں اور علما کو مقدس سمجھتی تھیـ مغلوں میں اورنگ زیب عالمگیر کے علاوہ باقی تمام بادشاہ اسلام کی حقیقت سے نا آشنا تھے اور وہ خرافات اور ناقص تصورات سے بھرے ہوئے تھے ـ اسی جہالت اور ہندوؤں کے مابین اقلیت کی وجہ سے جب انگریزوں نے اسلامی شریعت کو لغو قرار دیا تو مغل کوئی بڑی مزاحمت نہ کر سکے ـ

عثمانی عقیدے اور سلوک میں ان دونوں سے بہتر تھے لیکن وہ خلافت راشدہ کے منہج سے دور تھے اور عثمانی سلاطین اپنے مزاج کے مطابق اس سے قربت یا دوری اختیار کرتے تھے ـ گو کہ کوئی بھی اس بات سے انکاری نہیں کہ عثمانیوں نے اعلی اور شاندار کارنامے سر انجام دیے اور اسلام کو مشرقی یورپ تک جا پہنچایا ـ لیکن ان کی ایک بڑی کمزوری ان کا اجتہاد کے دروازے نہ کھولنا تھا ـ عثمانیوں نے اسوقت بھی جبکہ یورپی بادشاہ اپنے تخت کو بچانے کے لیے آزادی اور جمہوریت کو کچل رہے تھے بادشاہوں والا جبری وراثت کا طریقہ جاری رکھا ـ عثمانیوں نے اسلامی اصول راشدہ کی طرف جانے کی زحمت نہ کی ـ اس کے علاوہ عثمانیوں نے جدید حالات کے تناظر میں فقہی جمود کو نہ توڑا ـ اجتہاد کی بجائے غیرملکی قوانین درآمد کیے گئے اور تاریخ اسلام میں پہلی دفعہ اسلامی لشکر کی تربیت کے لیے ماہرین جرمنی، فرانس اور سویڈن سے بلائے گئے ـ صوبوں، گورنروں اور قاضیوں کی تنظیم اور ذمہ داریوں کے لیے مغربی طریقے اپنائے گئے ـ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ توحید اطاعت و اتباع میں نادانستگی میں کوتاہی برتی گئی اور فقہی دائرے کی تنگی اور زندگی کی وسعت کے سبب درآمد شدہ قوانین اسلامی زندگی میں داخل ہوتے چلے گئے اور پھر ایک وقت آیا کہ ان قوانین سے استفادہ ایک مستقل طریقہ اور اصول قرار پایا ـ آغاز میں یہ استفادے انتظامی نوعیت کے تھے لیکن پھر حلال و حرام کی قانون سازی کا راستہ ہموار ہوا ـ اس سے مسلمانوں کا یہ انحراف نظر آتا ہے کہ وہ اپنے دین کی حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھے اور عملی طور پر اللہ کی سنت سے غافل ہوگئے ـ حالات کا ساتھ نہ دے سکے اور سیکولرزم کو اسلامی دنیا میں گھسنے کا موقع ملا ـ

عباسی دور میں صوفیہ کا ظہور ہوا اور مختلف صوفی فرقے سامنے آئے ـ ان کی بنیادی غلطی عوام کو مختلف رسوم و رواج اور درود و وظیفوں پر لگانا تھا ـ یہ امت کو پہلی ضرب تھی جو تباہی کا باعث بنی اور دین اور دنیا کی علیحدگی سے عبادت کا مفہوم چند مخصوص شعائر و اذکار میں سکڑ کر رہ گیا ـ اور بعض علما کے نزدیک اس نظریے کے التزام سے خود ارکان اسلام کے بعض حصوں کی ادائیگی مشکل ہوگئی خصوصاً زکوة ـعبادات کا مفہوم نماز اور اذکار تک محدود ہو گیا اور مریدین طویل درود و وظائف میں مشغول ہونے لگے ـ لوگوں کا خیال یہ بنا کہ مشائخ اور اولیا کا حکم اول درجے کی عبادت ہے اور نفع کے حصول کے لیے مقبروں اور مزاروں پر اعتماد کرنے لگے ـ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ بیرونی لشکر اسلامی شہروں میں گھس آئے اور مسلمان سیدوں اور ولیوں کو پکارتے رہے جن کی وفات صدیوں پہلے ہو چکی تھیں ـ

اس انحراف کے بعد ارکان ایمان کے ایک رکن تقدیر کے مفہوم سے انحراف تھا ـ ایک جرمن مستشرق کے نزدیک تقدیر کے مفہوم نے آخری اادوار میں مسلمانوں میں جمود پیدا کر دیا تھا جس وجہ سے عالم اسلام پستی کا شکار ہوا ـ کوئی شک نہیں کہ اللہ کے ارادہ سے ہی کائنات میں سب کچھ ہوتا ہے اور اسکا علم ماضی و مستقبل کے لحاظ سے برابر ہے لیکن مسلمانوں نے اس مفہوم کو بدل ڈالا ـ ایمان بالقدر کو عاجزی اور پستی کا سبب بنا ڈالا اور یہ بھول گئے کہ اللہ کی تقدیر اللہ کی ثابت شدہ سنتوں کے مطابق جاری ہوتی ہے جن کو اللہ نے خوب واضح کر دیا ہے ـلیکن اس دور میں دین کے قواعد کو بھول کر عوام کو اپنے لکھے پر راضی ہونے کا درس دیا گیا ـ زہد کے مفہوم کو غلط لیا اور فقیری و ذلت کو ایمان بالقدر کے پردے میں چھپا دیا گیا ـ اس پسپائی کی اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تصور عام کر دیا گیا تھا کہ نیکی ہمیشہ فقیری اور فساد ہمیشہ دولت کا ساتھی ہوتا ہے ـ یہی بات جدید دور میں دوسری شکل اختیار کر گئی جس کے مطابق کفر اور دنیا ایک دوسرے کے ساتھی اور دین و پسماندگی ایک دوسرے کے ساتھی ہیں یعنی دنیا کی ترقی ہمیشہ کافروں کے لیے ہے اور دین دار پس ماندہ ہی رہتے ہیں ـ

اسلامی تصورات کا انحراف ہی وہ بنیادی مقام ہے جس سے سیکولرزم مسلمانوں میں داخل ہوا ـ مالک بن نبی کے مطابق ہم میں استعمار کو قبول کرنے کی اہلیت پیدا ہوئی تو ہم غلام بنے ـ مسلمانوں نے خارجی فکر کو کیسے قبول کیا اس کی ایک واضح دلیل جمال الدین افغانی اور ان کے شاگردوں کا کلام ہے ـ ان کے مطابق اشتراکیت دین اسلام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ـ یہ اہل اسلام کے اخلاق میں اس وقت سے شامل ہے جب وہ اہل دیہات اور اہل جاہلیت ہوتے تھے ـ اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلے جن لوگوں نے اشتراکیت پر عمل کیا وہ صحابہ رض اور اکابر خلفاء تھے ـ اشتراکیت پر عمل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ترغیب دینے والے بھی اکابر صحابہ تھے ـ اسی طرح جمال الدین افغانی کے شاگرد محمد عبدہ عوامی ڈیموکریٹک نظاموں کو اچھا قرار دیتے تھے ـ لہذا جب قوم کے اکابر لادین نظاموں کو اپنی امت میں جائز قرار دینے لگیں اور اسلامی نفسیات بھی اسے قبول کرنے کو تیار ہو جائے تو پھر ایسے مفاد پرست لوگ آئے جن کو اسلام کے خلاف قوتوں نے خوب استعمال کیا ـ سیکولرزم کے عالم اسلام میں داخل ہونے کے خارجی اسباب بھی تھے جن پر روشنی ڈالنا نہایت اہم ہے ـ اس پر مفصل بحث اگلی کسی تحریر میں ہو گیـ یہ داخلی اسباب پورے زور و شور سے آج بھی مسلمانوں میں موجود ہیں اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ اپنی اہمیت دوبارہ حاصل کرنے میں ناکام ہو کر لڑکھڑا رہی ہےـ

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر : علی عبد اللہ