ایک بزرگ شہری اور انصاف کے تقاضے

Property Law

Property Law

تحریر : صہیب سلمان
میراآج کا کالم ایک ایسے بزرگ کی کہانی پر ہے جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو ستر سال سے زائد عمر کے ہیں اوراب اپنی ریٹائر منٹ کی زندگی میںاپنے وراثتی و شرعی حق کے لئے دربدر ہورہے ہیں۔محمد اسلممحکمہ TIPسے گریڈ20 کا ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں اُن کے والدہجرت کے بعد پاکستان ریلوے میںڈپٹی چیف اکائونٹس آفیسرتھے جن کا انتقال 1976 میں ہواتھااور وارثان میںمحمد اسلم علاوہ 4سگی بہنیںاوراُن کے والد کی دوسری بیوی کے علاوہ ان کے2 بیٹے اور تین بیٹیاں جن میںسے ایک بیٹی حمیرا نذر جوکہ پیدائشی فاترالعقل تھی اور کنواری ہی فوت ہوگئی تھی شامل ہیں۔محمد اسلم کے سوتیلے بھائی امتیاز احمد MCB بنک کا سابقہ Dispatch Clerkاوراعجاز احمدواپڈاکاسابقہ لا ئن سپرٹینڈنٹ کچھ عرصہ کے لئے رہا ہے۔محمد اسلم کو1962 میںTIPمیں سرکاری ملازمت مل گئی تھی جس وجہ سے اُن کو اپنے گھر سے ہری پور منتقل ہونا پڑاپھر وہ واپس اپنے گھر نہ آسکے جس کا بھرپور فائدہ امتیاز احمدا ور اعجاز احمدسمیت ان کی والدہ خاتون بیگم نے خوب اٹھایاکیونکہ تمام تر غیر منقولہ جائیدادوں کے کاغذات اورمنقولہ جائیدادان کے قبضہ میں آگئیںتھیں۔

محمد اسلم نے اپنے وراثتی حصہ کے حصّول کے لئے بر خلاف امتیاز احمدا ور اعجاز احمدمورخہ22 فروری 2008 سے مختلف معزز عدالتوں میںمقدمہ بازی شروع کی جن میںمندرجہ ذیل چار عدد غیر منقولہ جائیدادیںجو اُن کی معلومات کے مطابق اُن کے مرحوم والد کے نام پر تھیں ۔محمد اسلم نے کبھی انتقال جائیداد کے بارے میں پیروی نہ کی تھی کیونکہ ایک وراثتی جائیداد کے علاوہ باقی تمام جائیدادیںاپنی اصل حالت میں نظر آرہی تھیں۔ مگر جب بھی انہوں نے مذکورہ وراثتی جائیدادوںمیںسے ا پنے حصّہ کی بابت امتیاز احمدسے رابطہ کیاتو ہمیشہ امتیاز احمدنے لیت ولعل سے کام لیاجس پر محمد اسلم کو شک گزرا اور متعلقہ محکمہ جات سے رابطہ کرنے اور مورخہ 28-6-2013کواُن کے دعویٰ برائے انتظام وانصرام میں محمد اسلم ہی کی ایک درخواست کے جواب کے ساتھ ایک عدد فوٹوکاپی جعلی مختار نامہ عام لف کیا جس کو ملاحظہ کرنے پرپتاچلاکہ مذکورہ بالادو جائیدادوں کوجعلی مختار نامہ عام مورخہ 29جولائی1986، بحق اعجاز احمد، اندراج کردہ سب رجسٹرار لاہور کینٹ کی بنیاد پرمنتقل کروایا گیا۔

جن میں جائیداد نمبر(1) کی بابت پہلے رجسٹری کی بنیاد پرمورخہ 4اپریل 1994، بحق امتیاز احمد، اندراج کردہ سب رجسٹرار لاہوراورپھرہبہ نامہ جسکی شناخت کنندہ امتیاز احمدکی بیوی ہے،مورخہ 3دسمبر2001، بحق اعجاز احمد (نصف حصہّ) اندراج کردہ سب رجسٹرارماڈل ٹائون لاہورتیار کیاگیااورجائیداد نمبر(3)کی بابتPTD بحق حکیم عبدالرشید تیار کیاگیا۔محمد اسلم کے مطابق انہوں نے آج تک کوئی مختار نامہ عام یادستبرداری نامہ اعجاز احمدسمیت کسی دیگر شخص کو نہ دیا بذریعہ سرسری رپورٹ منجانب سب رجسٹرارعزیز بھٹی ٹائون لاہور مزید پتا چلا کہ اس جعلسازی سے مستفید ہونے کے بعد محکمہ ہذا سے مذکورہ جعلی مختار نامہ عام کا ریکارڈ بھی غائب کروادیا گیا ہے جس پر بحکم معزز عدالتِ عالیہ اب حتمی رپورٹ بھی آچکی ہے۔

Authority Letter

Authority Letter

مذکورہ جعلی مختار نامہ عام کو ملاحظہ کرنے پر مزیدپتا چلاکہ اس پر موجودمحمد اسلم اوراُن کی ایک سوتیلی پیدائشی فاتر العقل بہن حمیرانذر(مرحومہ) کے جعلی دستخط اور نشانِ انگوٹھا جات موجود ہیںکیونکہ حمیرانذر(مرحومہ) کبھی بھی سکول نہ گئی تھی مزید یہ کہ امتیاز احمد نے قبل از ایں تیاری مذکورہ جعلی مختار نامہ عام اپنے وراثتی حصّہ سے بحق اعجاز احمد دستبراری دی اور بعد ازاںدونوں نے جائیداد نمبر(1) کی بابت آپس میںرجسٹری اور ہبہ نامہ تیار کرکے برابری کی بنیاد پر تقسیم کرلی اورجائیداد نمبر(3)اپنے مّحلے دارکوفروخت کردی لہٰذا امتیاز احمدا ور اعجاز احمد نے ملی بھگت سے جعلی اور بوگس مختار نامہ عام تیار کیا اور اسے استعمال کرتے ہوئے متذکرہ بالاجائیداد نمبر (3) فروخت کی اور جائیداد نمبر(1)پر تاحال خود ہی قابض ہیںجس میں LDAکا کردار بھی بہت اہم ہے۔

اس کے علاوہ جائیداد نمبر(4)کو بھی جعلسازی کے ساتھ فروخت کیا گیاان تمام جعلسازیوں پر محمد اسلم کی طرف سے بر خلاف امتیاز احمدا ور اعجاز احمددو عدد دعویٰ برائے منسوخی ِدستاویزمعزز عدالتوںمیں زیرِ سماعت ہیں ۔جائیداد نمبر(4) جس میںمحمد اسلم اپنے والد نے اپنی طرف سے Nomineeمقرر تھے اور اُس وقت کے By-Lawsکے مطابق مالک کی وفات کے بعد ٹرانسفر صرف اورصرف Nomineeکے نام ہی ہوسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ امتیاز احمدا ور اعجاز احمد نے سوسائٹی کے ایگزیکٹو ممبر محمد یوسف بھٹی جوکہمحمد اسلم کا سگا بہنوئی ہے کے ساتھ ملی بھگت سے جعلی دستبرداری نامہ بناکر اپنی والدہ خاتون بیگم کے نام ٹرانسفر کرواکر فروخت کیا جس کامحمد اسلم کو مورخہ 18-12-2012کواپنے دعویٰ میں امتیاز احمدا ور اعجاز احمد کے جواب دعویٰ کے ساتھ لف ہونے پر پتا چلاتھا۔

محمد اسلم کی درخواست پرجعلی مختار نامہ عام بنانے اور استعمال کرنے پر پولیس تھانہ شمالی چھائونی نے بحکم معزز عدالتِ عالیہ مورخہ 15-4-2014کو برخلاف امتیاز احمدا ور اعجاز احمدایک FIR نمبری 374/2014، بجرم 420,468,471 ت پ درج کی جس کی تفتیش مقدمہ عارف خان SIکے سپرد ہوئی محمد اسلم نے ہر طریقے سے اپنے گواہان تفتیشی افسر کے سامنے پیش کیے چونکہ تفتیشی افسردبائو کا شکار تھا کیونکہ اس مقدمہ کی تفتیش میں اس وقت کے ایس پی (آپریشن) عمر ریاض چیمہ، ایس پی (انویسٹی گیشن)اسد سرفراز خان اورڈی ایس پی (انویسٹی گیشن)فرحت عباس کی بے جا مداخلت شامل تھی جس کی اہم وجہ موجودہ حکومت میں شامل ڈی جی پاکستان ڈاکومنٹیشن سنٹرخان قمر الزمان، Comptrollerپنجاب ہائوس اسلام آبادعبدالرشیداورخرم منشاء (سب انسپکٹر۔جعلی PSO to DIG)ہیں جوکہ ہر غلط کام میں امتیاز احمدا ور اعجاز احمد کے ساتھی ہیں۔اس وجہ سے گناہگار ملزمان کو بے گناہ قرار دیاگیامگر مقدمہ خارج نہ کیا گیا۔

Lawyer with Client

Lawyer with Client

خان قمر الزمان اورعبدالرشیدکا نام پولیس والوںاور سرکاری وکیلوں نے محمد اسلم کے صاحبزادے شہزادعمران رانا کو بتایا جو پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہے مگر خرم منشاء ملزمان کے ساتھ آیا کرتا تھاجس کی تصاویرشہزادعمران رانا ایڈووکیٹ کے پاس ہیں۔شہزادعمران رانا ایڈووکیٹ نے پولیس والوں کے خلاف پولیس میں اور حکومتی لوگوں کے خلاف وزیراعظم پاکستان کے نام اپنے والد کی طرف سے خط اور درخواستیں دیں مگر کسی نے اِن کی داد رسی نہ کی۔ مذکورہFIR درج ہونے کے بعد مذکورہ جعلی مختار نامہ عام کے لوکل کمیشن نسیم احمد ایڈووکیٹ نے بھی اس مختار نامہ عام کو جعلی قرار دیا اور اس بابت محمد اسلم کو تحریری بیانِ حلفی دیااورخودمعزز عدالت عالیہ سے علاقہ پولیس کو تحریری بیان قلم بند کروانے کے لئے حکم بھی حاصل کیامگر متعلقہ پولیس نے مقدمہ ہذا کے چالان میں محمد اسلم کے کسی گواہ کا ذکر نہ کیا ہے اور بلاوجہ محمد اسلم کی تبدیلیِ تفتیش کی درخواست بھی خارج کردی گئی۔

مذکورہFIR درج ہونے سے قبل مذکورہ جعلی مختار نامہ عام کے گواہ نمبر 2 محمد یوسف بھٹی نے اس سے لاتعلقی کا اظہارکیا اور اس نے شہزادعمران رانا ایڈووکیٹ کوامتیاز احمدا ور اعجاز احمدکی جعلسازیوں کی بابت دوعدد تحریری بیانات ِحلفی دیئے مگرFIR درج ہونے کے بعد محمد یوسف بھٹی نے امتیاز احمدا ور اعجاز احمد سے گٹھ جوڑ کرلیا۔اس گٹھ جوڑکی خاص بات محمد اسلم کی ملازمت کے دوران لاہور میں غیر موجودگی تھی جس دوران محمد اسلم کے تمام سوتیلے اور سگے بہن بھائیوں نے آپس میں رشتہ داریاں کرلیں اس وجہ سے کوئی بھی اب اِن کے ساتھ نہ ہے مگر محمد اسلم کو اس سے کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ انہوں نے صرف اپنے جعلی دستخطوں کا چیلنج کیا ہے اور وہ پرُامید ہیںکہ ایک دن تمام ترجعلسازیاں بے نقاب ہونگیں۔ امتیاز احمد نے محمد اسلم کے دوسرے بیٹے سلمان شاہد کواپنے والد کے خلاف اُکسایا اور اُسے اپنے والد کے خلاف جھوٹی شہادت کے لئے کہا مگرسلمان شاہد نے ایسا نہ کیا اور معزز عدالت میں جاکر امتیاز احمد کے خلاف ہی بیانِ حلفی جمع کروادیا۔

مقدمہ بازی کی پاداش میں امتیاز احمدا ور اعجاز احمدنیمحمد اسلم کے خلاف پولیس میں اور شہزادعمران رانا ایڈووکیٹ کے خلاف لاہور بار اور پنجاب بار میںجھوٹی درخواستیں دیں کیونکہ شہزادعمران رانا ایڈووکیٹ اِن کی طرف سے اِن کامختارِ خاص برائے مقدمہ بازی بھی ہے مگر امتیاز احمدا ور اعجاز احمداپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس وقت بھی امتیاز احمدا ور اعجاز احمدمحمد اسلم کی وراثتی جائیداد پر اپنا کیٹر نگ سروس کا کاروبار” نذر سنز ”کے نام سے کررہے ہیںجو کافی مشہور کمپنی ہے اور پنجاب حکومت کے Functionsبھی کر تی ہے جس کی وجہ سے ان جعلسازوں کا کا فی اثرورسوخ ہے دراصل امتیاز احمد ا ور اعجاز احمد چاہتے ہیں کہ محمد اسلم اپناوراثتی حق چھوڑ دیںیا پھر اونے پونے میں ان کے ساتھ سودا بازی کرلیں جووہ اُن کو دو تین بار آفر بھی کر چکے ہیں۔ محمد اسلم کاماضی بے داغ ہے انہوں نے اپنے 36سالہ دورِ ملازمت میں پاکستان کی نیک نیتی سے خدمت کی ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے مگراُن کو یہ نہیں پتہ تھاکہ وقت آنے پر اُن کو اپنے شرعی و وراثتی حصّہ کے حصّول کے لئے در بدر ہونا پڑے گا۔اس صورتحال کے بعد اب محمد اسلم کو صرف اور صرف معزز عدالت عالیہ کے حکم مورخہ 27-11-2015کی وجہ سے ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے کہ اُن کیFIRکی دوبارہ تفتیش کوئی ایماندار پولیس آفیسر کرے گا جس سے امتیاز احمدا ور اعجاز احمدکی تمام تر جعلساریاں بے نقاب ہونگی اور انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں گے۔

Sohaib Salman

Sohaib Salman

تحریر : صہیب سلمان