خدمت انسانیت کے جذبے سے سر شار لوگ

Helping the Homeless

Helping the Homeless

تحریر : ایم ایم علی
بنی نوع انسان میں جو بات ایک انسان کو امتیازی حیثیت دیتی ہے وہ اس کا فہم شعور اور عقل ہے جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کیلئے کیا جذبات و احساسات رکھتا ہے اگر انسان میں دوسرے انسان کیلئے خیر کے جذبات ہوں تو وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتا ہے اور وہ اپنے شوق اور لگن کو اسی راہ پر ڈال کر خدمت انسانیت کا بیڑہ اُٹھا لیتا ہے ،اللہ کے بندوں کی خدمت ایک ایسا جذبہ ہے کہ اگر کسی انسان میں حلول کر جائے تو وہ اپنے آخر ی سانس تک خود کو خدمت انسانیت کیلئے وقف کر دیتا ہے ، ہمارے ملک میں اس کی سب سے بڑی مثال عبدالستار ایدھی مرحوم کی ہے جنہوں نے مرتے دم تک اپنا اوڑھنا بچھونا خدمت انسانیت کو بنا رکھا تھاآج کے اس نفسا نفسی کے دور میں ایسی مثالیںبہت کم ملتی ہیں کہ کوئی شخص اپنی ضرورتوں کو بالا ئے طاق رکھتے ہو ئے دوسروں کی ضرورتوں کا خیال رکھے یا کو ئی شخص ہر وقت دوسروں کی مدد کیلئے تیار ہو۔

ایسا شخص جو کسی دوسرے کا دکھ درد بانٹے جو کسی کو مصیبت میں دیکھ کا طلملا اٹھے اور دوسروں کی مدد کر نا اور انسانیت کی خدمت کر نا اپنا فرض سمجھتا ہوخال خال نظر آتا ہے اور یہ ساری باتیں آج کے اس دور میں صرف ڈرامائی یا افسانوی لگتی ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے آج کے اس دور میں بھی ایسے لوگ مو جود ہیں جو خدمت انسانیت کے جذبے سے سر شار ہیں۔ “راقم” ایک ایسے شادی شدہ جوڑے کو جانتا ہے جو دونوں میاں بیوی ملازمت کرتے ہیں ہفتہ وار چھٹیوں میں دو مختلف ہسپتالوں کو منتخب کر لیتے ہیں انہوں نے اپنے تائیں ایک خود ساختہ NGOبنا ئی ہوئی ہے جس کے ممبران صرف وہ خود میاں بیوی ہیں اور دونوں ہفتہ اور اتوار کے روز مختلف دو ہسپتالوں میں جا کر چار ،چار گھنٹے وہاں داخل مریضوں میں گذارتے ہیں ان کی بیمار پرسی کرتے ہیں ان سے باتیں کر کے ان کے غموں کو بانٹنے کی کو شش کرتے ہیں۔

اپنی تنخواہ میں سے ان کیلئے جو بھی ان کو میسر آئے کھانے پینے کیلئے اشیا ء خوردونوش بھی لے جاتے ہیں اور مریضوں کو دیتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ کوئی اتنا بڑا کام نہیں مگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ چار گھنٹے جو وہ دکھی انسانیت کیلئے صرف کرتے ہیں یہ ایک ایسی خدمت ہے کہ اگر اس دوران ایک مریض بھی دل سے ان کو دُعا دے دے اور روح تک خوش ہو جائے تو یقناً اللہ تعالی کی ذات بھی ان سے راضی ہو کر کس قدر انعام و اکرام سے نوازے گی یہ گنتی اور شمار سے باہر ہے ۔خدمت انسانیت کا شعبہ کسی ڈگری یا ڈپلومے کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ ہی بیش بہا مال و زر کا ہونا شرط ہے بلکہ نیک نیتی اور خدمت خلق کا جذبہ ایسی ڈگریاں ہیں جو ایک انسان کو دوسرے انسان کیلئے ایثار اور صلہ رحمی جیسے اسلوب سے آشنا کرواتی ہیں۔

Hafiz Mehmood

Hafiz Mehmood

قارئین کرام!گذشتہ دنوں “راقم “کا چھوٹا بھائی لاہور کے ایک مقامی ہسپتال میں بازو کی سرجری کروانے کی غرض سے داخل تھا تو کم پیش دس روز تک میرا ہسپتال آنا جانا رہا اس دوران میں نے چیچہ وطنی سے تعلق رکھنے والے ایک 15/16 سالہ لڑکے کے کو وہاں دیکھا جو اپنے دادا کی تیمار داری کیلئے ان کے پاس ہسپتال میں ہی موجود تھا اس کا نام حافظ محمود تھا حافظ قران ہونے کے ناطے اس نے قران مجید جیسی عظیم کتاب کو تو اپنے سینے میں سما ہی رکھا تھا ،اس کے علاوہ جب وہ قران پاک کی تلاوت اور نبی آخرالزماںۖ کی شان میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتا تو سننے والوں پہ رقت طاری ہو جاتی اس کے علاوہ وہ انتہائی فرمانبر دار ،حلیم طبع اور با اخلاق بچہ تھا ،کسی بھی مریض کے تیمار دارمیں سے کسی نے بھی کوئی دوائی ،منگوانے ہو ،رپوٹس لینے ،خون کا نمونہ دینے ،کھانا منگوانے یا مریض کی ضرورت کی کوئی بھی چیز منگوانے کیلئے اس بچے سے کہا تو فوراً حاضر پایا۔

بعض اوقات میں نے مشاہدہ کیا کہ وہ لڑکا کوئی چیز لے کر آیا اور دوسرے کسی مریض کے تیماردار نے کسی کام کیلئے کہہ دیا تو اس نے فوراً ہاں کر دی اس نے یہ نہیں کہا کہ میں تو ابھی لوٹا ہوں وہ بچہ خدمت کے جذبے سے اس قدر سر شار تھا کہ جس کی مثالیں دنیا میں بہت کم ملتی ہیں ،میں نے اس لڑکے کے چہرے پر کبھی ناگواری یا تھکاوٹ نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی مجھے جذبہ خدمت انسانیت سے سر شار وہ بچہ اتنا بھلا لگا کہ میں سوچتا ہوں اس کا خاندانی پس منظر کس قدر اعلی اقدار کا حامل ہوگا اور یقناً اس کی تربیت انتہائی اچھے اور سلجھے ہوئے ماحول میں ہو ئی ہوگی مجھے اس کو جنم دینے والی ماں پر رشک آتا ہے کہ اس نے ایک درد دل اور انسانی خدمت کا جذبہ رکھنے والے بچے کو جنم دیا ،اس بچے کو دیکھ کر یہ گمان پختہ ہوتا ہے کہ ضرور اس کی پرورش عین رزق حلال سے کی جارہی ہے اس میں اسلوب زندگی اور خدمت انسانیت کو ٹ کو ٹ کر بھری جارہی ہے اور اس کو مقصدِانسانیت عملی معنو ں میں سکھایا جارہاہے۔

قارئین کرام ! اس کالم کو لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم بھی اپنے بچوں کی پرورش اس انداز میں کریں کہ ہمارے بچے بھی انسانی خدمت کیلئے ہمہ وقت تیار ہوں اور آج جیسے اس ہسپتال کے مریض ،ان کے تیماردار اور ہسپتال کا عملہ اس بچے کو اچھے الفاظ میں یاد کر رہے ہیں ایسے ہی ہمارے بچے بھی ہماری نیک نامی کا اور آخرت میں ہماری نجات کا سبب بنیں اور ہم بھی اپنے بچوں پر فخر کر سکیں اور انسانیت ہم پر فخر کر سکے دل سے دعا نکلتی کے اللہ تعالی ہر کسی کو ایسی نیک اولاد دے جو نعمت خدا وندی ہے اور جو عبادت الہی کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت کا جذبہ بھی رکھتی ہو ، وہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب ہم بھی آپنے بچوں کی پرورش حافظ محمود جیسی کریں۔

MM ALI

MM ALI

تحریر : ایم ایم علی