6 ستمبر کی بھارت کو دوبارہ ضرورت

1965 War

1965 War

تحریر: محمد قاسم حمدان
کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جوبڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں اور کتنی ہی بڑی جماعتیں ہیں جوچھوٹی جماعتوںسے شکست کھاجاتی ہیں۔ (البقرہ:249)

فتح وشکست کادارومدار کثرت وقلت پرنہیں بلکہ دلوں کی قوت پرہے اوراللہ کی مددانہی لوگوں کاساتھ دیتی ہے جو صابراور ثابت قدم ہوتے ہیں۔ 1965ء میں پاکستان اور بھارت میں بھی قلت و کثرت کا یہی معیارتھا۔ جوہدر واحد اور جنگ موتہ میں نظر آتاہے۔ ایک طرف ہندوستان کاٹڈی دل لشکرتھا جس کے پاس امریکہ’برطانیہ’فرانس اور روس کے دئیے ٹینکوں ‘ بحری بیٹروں’ جنگی طیاروں اورگولہ وبارود کے انبار تھے۔ دوسری طرف پاکستان کی محدود فوجی قوت تھی۔ اسلحہ وبارود ‘ ٹینکوں ‘طیاروں میں بھی زمین آسمان کافرق تھا۔ہمارے دوست اور اتحادی امریکہ نے اس موقع پر ہمارا ساتھ دینے کی بجائے آنکھیں پھیرلیں ۔بلکہ پاکستان کو اسلحہ کی ترسیل پرپابندی لگادی۔

آج جب پاکستان اور بھارت تنازعہ کشمیرکی وجہ سے ایک اورخوفناک جنگ کے دھانے پرکھڑے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کوانڈیاکے دباؤپر F-16 طیارے دینے سے انکار کردیاہے۔ جنگ کے آغاز پرصدرایوب خان کی بارعب آواز کازیروبم اوراس کا تاثر پورے ماحول پر چھایاہوا تھا۔ ہرطرف ان کی آواز کی گونج تھی۔ میر ے ہم وطنو!پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل کی دھڑکن میں لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونج رہی ہے۔اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے’ جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہوجائیں۔ ہندوستانی حکمران شاید ابھی تک نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کوللکارا ہے۔ ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین محکم ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم سچائی کی جنگ لڑرہے ہیں۔دشمن کو فناکرنے کے لیے ہمارے بہادر فوجیوں کی پیش قدمی جاری ہے ۔اللہ تعالیٰ نے افواج پاکستان کو اپنے جو ہردکھانے کاموقع عطاکیاہے۔میرے ہم وطنو!آگے بڑھو اوردشمن کامقابلہ کرو۔ اللہ تمہارا حامی وناصری ہو۔

جنرل ایوب خان کی جرأت وشجاعت اورولولہ وجوش وجذبہ سے بھرپورتقریر کے بعد لوگوں کے جوش و خروش کاعجب عالم تھا’جذبہ ایمان تازہ ہوا اور سرفروشی کی تمنا نے دلوں میں انگڑائی لی۔ پاک ائیرفورس نے اپنے سے کئی گنازیادہ فضائی قوت رکھنے والی بھارتی فوج کو بے بسی کردیا۔ یوایس اے ایوی ایشن نے دسمبر1965ء کے شمارے میں لکھا کہ پاک فضائیہ نے خود سے پانچ گنا بڑی فضائی طاقت پر فتح حاصل کی۔برطانوی اخبارگارجین کے نمائندے ہیٹرہرٹس نے 24ستمبر کواپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان نے اخلاقی ومادی اعتبار سے جنگ جیت لی ہے۔ دی آبزرور کے نمائندے پیٹرک سیل نے لکھا کہ فضامیں پاکستان کی کامیابی کامطلب ہے پاک فوج ہرمحاذ پربھارتی فوج کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
پاک فوج کے جوانوں میں ایک نام سکوارڈن لیدڑقابل فخر شاہین ایم ایم عالم کاہے۔ 7ستمبر 1965ء کادن فضائیہ کی عالمی تاریخ کایادگار دن ہے۔ جب ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ فائٹرطیاروں کومارگرایا۔
ایم ایم عالم نے اس جنگ میں کل گیارہ طیارے گرائے جبکہ چھ کو نقصان پہنچایا۔ان کا یہ ریکارڈ گینز بک آف ورلڈریکارڈ میں درج ہے۔ بعد ازاں انہیں لٹل ڈریگن کاخطاب دیاگیا۔

Israeli Aircraft

Israeli Aircraft

1973 ء میں عرب اسرائیل جنگ میں بھی ایم ایم عالم کو بطورشاہین ایک بارپھر جوہردکھانے کا موقع ملا۔ اسرائیل کے دوطیارے مارگرانے کے بعد وہ یہودیوں کے لیے موت کافرشتہ بن گئے۔ ایم ایم عالم نے قومی ڈائجسٹ کو دئیے ایک انٹرویو میں کہاتھابنگلہ دیش میں مجھے بنگلہ آرمی کاکمانڈرانچیف بننے کی پیشکش ہوئی لیکن میں نے یہ قبول نہیں کی۔ بنگلہ دیش کی فوج کاسالار بننے سے پاکستانی فوج کاایک ادنیٰ سپاہی بننا میرے لیے زیادہ قابل فخرتھا۔
پاک فضائیہ کے ایک اورجوان علاؤالدین شہید نے گورداس پور میں اپنی جان کانذرانہ دے کراسلحہ سے بھری ٹرین کو تباہ کر دیا۔انبالہ کے دفاعی انتظامات کی بڑی کہانیاں مشہور تھیں۔

انبالہ کے دفاعی انتظامات کاغروربھی آن واحد میںخاک میں مل گئی۔ ائیر مارشل شبیرحسن ‘ونگ کمانڈرطارق حبیب نے کلائی کنڈہ میں دشمن کے بیس پرکھڑے 14 کینبراطیاروں کو گولیوں کی بارش برساکرتباہ کردیا۔اسکواڈرن لیڈرسرفراز رفیق’ سجادحیدراوریونس حسین شہید نے پٹھان کوٹ میں دومگ اور بے شمارمیسٹرطیارے تباہ کیے۔سترہ روزہ جنگ میں پاکستان کے جرأت مندہوابازوں نے 35 طیارے دوبدومقابلے میں اور 43 کو زمین پر ہی تباہ کیا۔ 32 طیاروں کوطیارہ شکن توپوں نے مارگرایا۔ بھارت کے 110 طیارے تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ فضائیہ نے دشمن کے 149 ٹینک’ 200 بڑی گاڑیاں اور 20 توپیں تباہ کیں جبکہ پاکستان کے صرف 19 طیارے تباہ ہوئے۔

7 ستمبر کو یوم فضائیہ منایاجاتاہے جبکہ آٹھ ستمبر کو جنگ ستمبر کی مناسبت سے یوم بحریہ منایاجاتاہے۔ اس روز سومنات گجرات کے ساحلوں پر سبزہلالی پرچم کی برتری ثابت کی گئی۔ پاک بحریہ کے سات جہاز عالمگیر ‘بابر ‘بدر’خیبر’ٹیپو سلطان’ جہانگیر اور شاہ جہاں نے صرف ساڑھے چارمنٹ کے بعد دوارکاکا بحری اڈہ مع سازوسامان زمین بوس کر دیا۔دوارکا کے ہوائی اڈے کا رن وے بھی پروازوں کے لیے ناکارہ ہوگیا۔ اس آپریشن کوسومنات پراٹھارواں حملہ بھی کہاجاتا ہے۔اس سے کراچی پر حملے رک گئے۔ دوارکاکی کامیابی سے بھارتی پارلیمنٹ میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ بھارتی اخباروں نے تویہاں تک لکھ دیا کہ ہماری نیوی پاک بحریہ سے لڑنانہیں چاہتی۔ ممبئی بھارتی بحریہ کا ہیڈکوارٹرتھا جسے پاکستان کی صرف ایک آب دوز ”غازی” نے پوری جنگ کے دوران محاصرے میں لیے رکھااور بھارتی فریگیٹ کوکری کوممبئی ہاربرپرپاکستانی آب دوز نے میزائل مارکر تباہ کردیا۔ دوارکاآپریشن کی کامیابی سے سمندری جنگ میں بھی پاکستان کوبرتری حاصل ہوگئی۔

Pak Army

Pak Army

9ستمبر کو ہماری افواج نے موناپاؤ پرصرف سترہ گولے داغے تودشمن میں کھلبلی مچ گئی۔موناپاؤ پرقبضہ کرنے سے دشمن کی سپلائی لائن کٹ گئی۔اس معرکے میں سندھ کے مجاہدین بھی اپنی فوج کے دست وبازو بن گئے۔ سندھ کے محاذ پرروہڑی’کھاری اور مترا کی فوجی چوکیوں پر پاکستانی جوانوں نے قبضہ کرلیا۔لاہور کوفتح کرنے کے خواب دیکھنے والی بھارتی فوج ایک ہزار دوسومربع میل کا علاقہ گنوابیٹھی، 1965ء کی جنگ میں پاکستان نے اپنے جذبہ ایمان کی قوت سے اپنے وطن کانہ صرف دفاع کیا بلکہ لاہور اورسیالکوٹ میں دشمن کوکاری زخم پہنچائے۔ میجر عزیز بھٹی شہید اور میجر ضیاء الدین عباسی سمیت ہمارے شہیداء نے غزوہ ہند کے اس تسلسل میں اپنے خون سے عظیم تاریخ رقم کی نرنجن پرشادکی بزدلی کاذکران کے گھر کے بھیدیوں نے بھی کیاہے جنرل ہربخش سنگھ نے اپنی کتاب ” In The line of Duty” میں اس منظر کویوں بیان کیاہے ۔ ہمیں دیکھ کرجب وہ(نرنجن)کھیتوں سے باہر نکلا تواس کے جوتے کیچڑمیں لت پت تھے۔ چہرے پرہوائیاں اڑ رہی تھیں۔سرننگااور وردی سے تمام رینک بیجزغائب تھے۔ اس کی یہ حالت دیکھ ہر بخش سنگھ نے کہا تم کمانڈنگ آفیسر ہو یاقلی۔

ہربخش سنگھ نے لکھاکہ بھارتی کمانڈرنرنجن پرشاد دہشت زدہ ہوکر بھاگ کھڑاہوا۔وہ اس قدربدحواس تھاکہ جاتے جاتے اپنی جیپ چلتاہوا وائرلیس اور حساس نوعیت کی دستاویزات پرمشتمل بریف کیس بھی وہیں چھوڑ گیا۔بعدازاں جنگ کے دوران یہ دستاویزات ریڈیوپاکستان سے روزانہ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں۔ ان دی لائن آف ڈیوٹی میں جنرل ہربخش نے لکھا کہ اس جنگ کے دوران جنرل چوہدری اس قدر گھبراہٹ کاشکارتھا کہ اسے امرتسرسمیت نصف سے زیادہ بھارتی پنجاب پاکستان کے ہاتھوں ہارنے کاخدشہ تھا۔

ہندوستان کی شکست پردنیاکے میڈیا نے بھی خوب لکھا ۔برطانوی اخبار ڈیلی مررکی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے جلتے سورج تلے سوختہ لاشوں کی بو آرہی تھی اوریہ مقام حملہ آور بھارتی فوج کاقبرستان ثابت ہوا۔اسی طرح برطانیہ سے چھپنے والے دی ٹائمز کے ایک رپورٹر لوئیس کیررنے لکھاکہ ایسی قوم کوکون شکست دے سکتا ہے جو موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہے۔ یہ محض الفاظ کا گورکھ دھندا نہیں بلکہ حقائق ہیں کہ اس قوم کے جوانوں نے فتح یاشہادت سمجھ کر میدان کارِ زار میں ایسے ایسے معرکے لڑے’جرأت وشجاعت کی ایسے داستانیں رقم کیں کہ مسلم فاتحین کے دور اورسلطان غزنوی کے سومنات پرحملوں کی یادیں تازہ ہوگئیں۔

Raw

Raw

بھارت کی عسکری کمان اور سیاسی پردھان سبھی نے نفسیاتی طورپر پاکستان کی برتری کوتسلیم کیا لیکن بھارت نے پاکستان کو توڑنے اور ختم کرنے کی سازشیں جاری رکھیں۔ ان کا برملا اقرار مودی نے پہلے ڈھاکہ اورپھر 15 اگست 2016ء کو لال قلعہ دہلی میں بلوچستان میں راکی کارروائیوں سے کیا۔ بھارت کشمیرمیں مسلمانوں کواس لیے قتل کررہاہے کہ وہ پاکستان کاپرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔بھارت کو راہ راست پر لانے کاایک ہی حل ہے کہ پھرایک بار6ستمبر والا جذبہ زندہ کیاجائے کیونکہ آج بھارت کو6ستمبر جیسے تھپڑ کی ایک بار پھر ضرورت ہے۔

تحریر: محمد قاسم حمدان