شاہ جی کا جلال کر گیا

Firing

Firing

تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
قارئین یہ میرا دوسرا کالم ہے جو اسی ایک موضوع پر لکھا گیا ہے مقصد یہی ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے حقائق بھی وہ جو 100% سچ ہوں ہمارے ملک میں المیہ ہے کہ کوئی بھی ظلم کت خلاف بولتا نہیں اکثریت لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ذمہ داری صرف صحافیوں کی ہے کہ وہی معاشرے کی برائیوں کے خلاف آواز بلد کرتے رہیں خیر ہم تو اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہی رہتے ہیں گذشتہ دنوں بوچھال کلاں میں ہونے والا جھگڑا طوالت اختیار کر چکا ہے ایک مقدمہ ملزمان کو مدعی بنا کر درج کیا گیا اور دوسرا مقدمہ پولیس نے اپنی مدعیت میں درج کرایا جبکہ تیسرا مقدمہ اس وقت درج ہوا جب سرگودہا کے رہائشی بوچھال کلاں میں مقیم مزوروں کے گھر فائرنگ کی گئی۔

یہ سارے واقعات یک بعد دیگرے ہوئے جن میں 38افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ جھگڑا ہوا اس وقت وہاں کتنے افراد موجود تھے اور مقدمہ 29 کے قریب افراد پر درج ہوا جبکہ پولیس طوکی پر آنے والے افراد کتبے تھے اور مقدمہ میں ان لوگوں کو کیوں شامل کیا گیا جو مساجد میں نماز ادا کر رہے تھے یہ ایک لمبی داستان ہے پھر جب زخمی ہونے والے افراد MLCکے لئے دودل ہیلتھ سینٹر بوچھال کلاں لائے گئے تو پولیس نے وہاں سے لوگوں کو اٹھایا ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا اس جھگڑا سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں تھا یا تو یہ لوگ زخمیوں کی تیماداری کے لئے وہاں آئے تھے یا پھر اپنے کسی کام کے لئے وہاں موجود تھے حوالات میں بند ایک لڑکے کے والدین نے بتایا کہ ہمارا بیٹا ایک مہمان کوے کر ہسپتال گیا تھا۔

Arrested

Arrested

چونکہ وہ شخص زخمی تھا اور چل نہیں سکتا تھا اس لئے ہمارا بیٹا ویل چئیر لینے ہسپتال گیا اور اسے وہیں سے پولیس نے دھر لیا مجھے گذشتہ رات ایک شخص کا فون ملا کو اس بات پر ناراض تھا کہ ہم SHOتھانہ کلر کہار اظہر شاہ کے حق میں کیوں نہیں لکھ رہے حالانکہ ہم ہر اس بات کو اپنا موضوع بنا کر لکھتے ہیں جو صاف اور سچ ہو اس بات میں کوئی غلطی نہیں کہ جب سے اظہر شاہ نے تھانے کا چارج سمبھالا ہے متعدد کرائم پیشہ افراد ان کی گرفت میں آئے اور علاقے میں جرائم پیشہ افراد ان کی گرفت میں آئے اور علاقہ میںجرائم کی شرح میں بھی کمی ہوئیمگر اب ہم اسی بات کو پکڑ کر بیٹھ جائیں ان کی کارکردگی کو خیراج تحسین پیش کرتے رہیں اور ان کی غلطیوں یا کوتایہوں کو چھوڑتے رہیں تو یہ بھی نا انصافی ہو گیاب مسلہ یہ نہیں کہ انہوں نے کاروائی کیوں کی مسلہ ہے کہ کاروائی کو ایمانداری سے کیا جاتا اس میں ملوث افراد کو نہ چھوڑا جاتا اور بے گناہ افراد کو جرم کی ترغیب نہ دی جایی میں واضع کرتا چلوں کہ شائد کہیں جیل میں جانے والے سلجھ جاتے ہوں گے مگر ہمارے ہاں جو تھانے کی حوالات سے ہو آتا ہے بڑا نہ سہی چھوٹا مجرم ضرور بن جاتا ہے ہمارے سامنے کافی لوگوں کی مثال موجود ہے مگر یہاں تو درجن بھر کے قریب بچوں کو جن میں آرمی اور نیوی کے ملازم بھی بتائے جا رہے ہیں آج بھی حوالات میں بند ہیں ایسا کیوں ہوا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اب بھی وقت ہے کہ اس بات کی تفتیش کی جائے اور انہیں چھڑ دیا جائے اس سے قبل کہ ہمارے معاشرہ میں جرائم پیشہ افراد میںکوئی اضافہ ہو پھر اس گلظی نے جہاں بچوں کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنایاوہاں سیاست سے وابسطہ افراد کی سیاست کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے یہاں سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ایک گروپ اگر انہیں چگوڑ جائے تو دوسرا گروپ ان سے آ ملتا ہے کیا۔

اسی خیال پر وہ صرف ووٹ لینے کی حد تک عوام ست نے حد پیار کرتے ہیں جب وہ پانچ سال کے لئے لاہور یا اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں تو ان کے ووٹروں کے آنسو پونچنے والا کوئی نہیں ہوتا ہوا ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے حوالات جانے والے لڑکوں کی بڑی تعداد مسلم لیگ ن کی ہے اور کچھ لوگ پی ٹی آئی سے بھی تعلق رکھتے ہیں اس سارے واقعہ کو دس دن ہونے والے ہیں نہ رو پی ٹی آئی کے لیڈران نے حرکت کی اور نہ ہی مسلم لیگ ن کے قائدین نے کچھ کیا حقیقت تو یہ ہے کہ دو پارٹیوں کے درمیاں مرغی حرام ہوتی نظر آ رہی ہے۔

PML-N

PML-N

میں اب صرف مسلم لیگ ن کے مقامی قائدین کا ہی ذکر کروں گا عوام کا ان سے کوئی کام نہیں ہوتا وہ ووٹ دیتے ہی اس لئے ہیں کہ جب ان پر کوئی مصینت آئے تو حکومتی چھتری ان پر ہو اب صونائی وزیر ملک تنویر اسلم یہ کام تو کر سکتے تھے وہ عوام میں آکر پولیس کو میرٹ پر کام کرنے کی ہدایت کرتے جو بے گناہ افراد اس مصیبت سے نکلتے وہ ہمیشہ ان کے ممنون ہوتے یا وہ نکل کر اپنا کردار ادا کرتے جس سے یہ جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ان کے علم میں ہے کہ کن حالات میں وہ لوگ جو حوالات کی ہوا کھا رہے ہیں انبہوں نے ان کا ساتھ دیا اب جب بوچھال کلاں میں ان کا ایک مقام بن گیا تو ان کی ذرا سی غلطی نے کیا کر دیا اب ان کے حامی کس منہ سے ووٹ مانگنیں عوام کے پاس جائیں گے یہ میں دوسری پارٹی سے بھی مخاطب ہوں اور جب یہ لوگ باہر آئیں گے تو کیا وہ ایک ورکر کی حثیت سے ان کے ساتھ ہونگے یہی سب سے بڑا مسلئہ ہے جو اس کے بعد کھڑا ہو گا۔

اب وقت ہاتھ سے جس تیزی سے نکل رہا ہے وہ بڑا کرب ناک ہے اور اس کے جو نتائج نکلیں گے وہ دیکھنے کے قابل ہونگے کاموں پر ووٹ ملتے تو ملک شہبا خان مرحوم نے بھی بہت کام کرائے تھے انہوں نے کالج بنوایا تو تعلیم کی بنیاد تو ملک شہباز مرحوم کے والد بابا مہدی خان نے رکھی تھی اور وہ سکول اس کالج سے بھاری ہے پھر ہمیں اپنے گھر کو چھوڑ کو جو تو قعات باہر سے ہوتی ہیں ان کا تجربہ بھی ہو چکا ہے یہ ساری باتیں اس سے پہلت کی سیاست کے اوراق پڑھ پر اندازا کر سکتے ہیں پھر سب باتوں کو چھوڑ کر یہ کونسا قانوں ہے کہ کسی گھر میں داخل ہو کو پولیس توڑ پھوڑ کرئے خواتین سے بدتمیزی کرئیاور پھر وہ لوگ بھی حکومتی جماعت سے ہوں اس کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے ملک عادل کے گھر میں کیا ہوا ملک نور حسین کے گھر میں کیا ہوا صوبائی وزیر اگر اس بات سے لاعلم ہیں تو ان کا خدا ہی حافظ ہے اور اگر انہوں نے اس خیال سے کہ اور لوگ ان کے ساتھ ہونگے میرے خیال میں یہی بھی ان کی خام خیالی ہی ہو گی انہیں چائیے کہ وہ میدان میں آئیں اور جائز کام کے لئے اپنا ساتھ ان لوگوں کو پیش کر دیں جنہوں نے نا مناسب حالات میں ان کا ساتھ دیا اگر اب انہوں نے وقت ضائع کر دیا تو ،،،،َ؟پھر میں یہ بات کہوں گا کہ شاہ جی کا جلال کر گیا کمال اور یہ کالم لے کر موصوف پو پیش کروں گا یہ میرا وعدہ رہا۔

Riaz Ahmed Malik

Riaz Ahmed Malik

تحریر: ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
03348732994
malikriaz57@gmail.com