ہیلپ۔ حصہ دوم

Children

Children

حصہ اول ۔
حصہ دوئم ۔
آخری حصہ ۔

تحریر: شاہد شکیل
پاکستان جانے سے قبل گھریلو ساز و سامان فروخت کیا اور اپارٹمنٹ کا ایگریمنٹ ختم کرنے کے بعد سابقہ بیوی سے رابطہ کیا کہ دو ماہ کیلئے پاکستان جا رہا ہوں مہربانی کرو دونوں بچوں کو اپنے گھر میں تھوڑی سی جگہ دے دو کیونکہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں کافی منت سماجت کے بعد اس نے حامی بھری ۔جرمنی واپس آنے اور رہائش نہ ہونے کی وجہ سے دونوں میاں بیوی کو شدید مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا کافی بھاگ دوڑ کے بعد دو کمروں کا اپارٹمنٹ حاصل ہوا اور وہاں شفٹ ہوگئے ،غیر ضروری واقعات کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے صرف مخصوص اور ٹو دی پوائنٹ تحریر کروں گا تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہو۔

میں اس بات سے بے خبر تھا کہ میری اہلیہ اپنے والدین اور بہنوں بھائیوں سے بے انتہا محبت کرتی ہے کیونکہ عام طور پر جب پاکستانی خواتین شادی کے بندھن میں بندھ جاتی اور اپنے اصلی گھر چلی جاتی ہیں تو وہی ان کا اپنا گھر بار ہوتا اور جینا مرنا شوہر کی دہلیز سے وابستہ ہوتا ہے ،میں آزادی پر یقین رکھتا اور روشن خیال انسان ہوں کبھی بال بچہ پر ناجائز دھونس جمانا یا پابندیوں کی قید میں رکھنے کے خلاف ہوں اپنی اہلیہ کو بھی ذہنی یا جسمانی طور پر یرغمال نہیں بنایا اور نہ اپنی ملکیت سمجھا، اسی لئے کالم کے پہلے حصے میں تحریر کیا تھا کہ شاید آزادی دینے سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے،اور اگر پابندیاں عائد کرتا تو شاید انسانی حقوق پامال کرتا بہر حال کچھ بھی ہو اہلیہ کا اپنے والدین سے والہانہ اظہار محبت دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی کہ میرے والدین تو حیات نہیں ہیں اور اگر اہلیہ کے دل میں بے پناہ محبت پائی جاتی ہے تو میرے خیال سے یہ ہی لازوال رشتے ہیں جن کے بل بوتے پر دنیا قائم ہے۔

کچھ ماہ بعد بڑا بیٹا بھی ہمارے پاس شفٹ ہو گیا اور ایک فرم میں ملازمت اختیار کر لی بڑی بیٹی نے بدستور اپنی سوتیلی ماں کے ہاں رہائش رکھی کیونکہ وہ چاہتی تھی اپنے دونوں چھوٹے بہن بھائی کے ساتھ ہی رہے اور میری سابقہ بیوی کو کوئی اعتراض نہیں تھا ،ہم تینوں کی زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی ہر ہفتے بذریعہ ٹیلیفون اہلیہ اپنے والدین سے بات چیت کرتی،ایک دن کہنے لگی میری والدہ کی خواہش ہے کہ میری چھوٹی ہمشیرہ کی شادی آپ کے بیٹے سے ہو جائے اگر آپ راضی ہوں میں نے سوال کیا ، کیا یہ ممکن ہے یا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ دو بہنوں کی شادی باپ اور بیٹے سے ہو کہنے لگی اسلام اجازت دیتا ہے میں نے بیٹے سے بات کی کہنے لگا پاپا آپ جیسا کہتے ہیں میں تیار ہوں اس بات پر فخر سے سر بلند ہوا کہ بیٹا فرمانبردار ہے

Wedding

Wedding

،اہلیہ کو بتایا تو وہ خوشی سے پاگل ہو گئی تب اس نے اپنے والدین کو خوشخبری سنائی لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ شادی کے بعد بیٹا اور بہو دو کمروں میں رہیں اور چار کمروں کے بڑے اپارٹمنٹ کی تلاش شروع کردی دوماہ بعد دوسرے شہر میں چار کمروں کا مکان بھی مل گیا اس دوران ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا پیدا ہوا اور نئے بڑے گھر میں شفٹ ہو گئے ایک ماہ بعد اہلیہ کی ہمشیرہ نے رشتے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ لوگ کیا کہیں گے ایک بہن باپ کے ساتھ اور دوسری بہن بیٹے سے بیاہی ہے لڑکی کے انکار سے بات ختم ہو گئی دو ماہ بعد اہلیہ کا بھائی بھی پاکستان سے آگیا جانا اس نے فرانس تھا لیکن وہ ہمارے پاس آگیا ایک ماہ کا شنیگن ویزہ ختم ہوا تو مجبوراً مجھے کہنا پڑا کہ بھائی جرمنی میں قوانین سخت ہیں اور تم غیر قانونی طور پر یہاں نہیں رہ سکتے ایسا نہ ہو کہ پولیس چیک کرلے تو مجھ پر جرمانہ عائد کرے گی

شاید جیل بھی ہو جائے اور تم لاکھوں روپے لگا کر آئے ہو فوراً ڈی پورٹ کر دئے جاؤ گے،میری ان باتوں میں سچائی تھی میں جانتا تھا کہ لڑکا مصیبت میں پھنس جائے گا اس لئے کہا کہ تمھارا ماموں فرانس میں ہے اس کے پاس چلے جاؤ اور ان باتوں کو اہلیہ نے نہایت منفی انداز سے لیا کہنے لگی تمھارے بیٹے میں کوئی عیب ہے جب ہی میری بہن نے رشتے سے انکار کیا ہے اور اب میرے بھائی کو یہاں سے نکال رہے ہو میں نے سمجھایا کہ تمہیں تین سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے یہاں کے قوانین میں بتا چکا ہوں اور خود بھی جانتی ہو پڑھی لکھی ہو کیوں سب کیلئے مصیبت کا سامان اکٹھا کر رہی ہو لیکن اس کے دل میں میری مثبت اور سچی باتیں کانٹا بن چکی تھیں،سسر صاحب سے بات کی تو کہنے لگے میں بندوبست کرتا ہوں اور دو ہفتوں بعد اسے پانچ سو کلو میٹر دور ایک شہر لے گیا جہاں ایک پاکستانی بھائی سے ملاقات ہوئی

اس نے بتایا کہ پاکستان سے تمھارے حالات کے بارے میں تمام رپورٹ مل چکی ہے شکر کرو کہ تمہیں آج کے دور میں ان جیسا بہنوئی نصیب ہوا ہے کوئی اور ہوتا تو چار قدم نہ چلتا اور دھکے دے کر نکال دیتا انہوں نے رات کو وہیں قیام کرنے پر بہت زور دیا میں نے کہا میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے گھر میں بیوی بچے اکیلے ہیں اس لئے معذرت خواہ ہوں اور ابھی دوسری ٹرین سے واپس جارہا ہوں اور رات بارہ بجے گھر پہنچا۔چھ ماہ بعد پتہ چلا کہ سالا صاحب ماموں کے پاس فرانس چلے گئے ہیں۔پاکستان میں کیس دیوانہ ہو گیا تھا کیونکہ تاریخ پر تاریخ ڈال دی جاتی بھائی نے روڑے اٹکائے اور کیس کو اتنا طویل اور مشکل بنا دیا

Depression

Depression

جس سے اہلیہ شدید ڈپریشن میں مبتلا ہو گئی کیونکہ سسر صاحب کو سردی گرمی ،بارش طوفان میں تاریخوں پر بلایا جاتا دوسری طرف بہنوئیوں نے بھی کیس میں دلچسپی لینی ختم کر دی ان کا کہنا تھا کیس چلنے دیں جب عدالت فیصلہ کرے گی تو سب کو اپنے اپنے حصے مل ہی جائیں گے میں نے کئی بار سسر صاحب سے عرض کی کہ وکیل صاحب سے فون پر بات کر لیا کریں کیوں اتنی دور ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہیں اور حاصل وصول بھی کچھ نہیں ہوتا ان کا کہنا تھا اگر نہیں جاؤں گا تو آپ کو حصے کے پیسے نہیں ملیں گے میں خاموش اسلئے رہتا کہ ہزاروں روپے وکیلوں ،منشیوں ،ریڈرز اور ٹرانسپورٹس پر خرچ ہو چکے ہیں اور بقول سسر صاحب اور بہنوئی کہ بس جی چند دنوں میں فیصلہ ہو جائے گا اسلئے زیادہ مداخلت نہیں کرتا تھا اور اس طرف اہلیہ نے میرا جینا حرام کر رکھا تھا کہ میں نے اور میرے خاندان والوں نے جان بوجھ کر اس کے والد کو پھنسایا ہے

پیسے تو تم سب لوگوں کو ملیں گے عیاشی تم سب لوگ کرو گے میرے باپ کو کیا ملے گا وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مجھے طعنے دیتی میں کئی بار سسرال والوں سے ٹیلی فونک التجا کر چکا تھا کہ اپنی بیٹی بہن کو سمجھائیں نہیں تو دراڑ پڑنے پر گھر خراب ہو جائے گا وہ اسے سمجھاتے کچھ دن خاموشی رہتی اور پھر ہر ہفتے جب بھی اپنے بہن بھائی سے سکائپ پر رابطہ ہوتا تو باتوں باتوں میں وہ کہتے کہ ابو تو کچہری گئے ہیں یہ سنتے ہی وہ آگ بگولا ہو جاتی اور میری مٹی پلید کرنے کے ساتھ ساتھ میرے بچوں اور خاندان والوں کو بھی نہیں بخشتی،ان حالات کے پیش نظر سوچا کہ کافی وقت بیت گیا ہے شاید اہلیہ والدین سے ملنا چاہتی ہے اور سب کے ساتھ مکمل بات چیت کرنے کے بعد پاکستان روانہ ہوگئے،جہاں مزید مسائل ہماری راہ دیکھ رہے تھے۔ جاری ہے۔

حصہ اول ۔
حصہ دوئم ۔
آخری حصہ ۔

Shahid Sakil

Shahid Sakil

تحریر: شاہد شکیل