شرمین عبید چنائے کی ہراساں بہن

Sharmeen Obaid Chinoy

Sharmeen Obaid Chinoy

تحریر : وقار احمد اعوان
بقول شرمین عبید چنائے کے کہ ”میری بہن جب کراچی کے ایک ہسپتال میں چیک اپ کے لئے گئی تو وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک ڈاکٹر نے چیک اپ کے دوران میری بہن کو فیس بک پر فرینڈ ریکورسٹ بھیج دی، میں تو اسے سیدھا سیدھا ہراساں کرنا کہوں گی’۔ چلئے جناب ہم اسے ہراساں کرنا ہی سمجھ لیں گے مگر کس زبان میں۔ کیونکہ ہم نے جہاں تک اردو لغت کا مطالعہ کیا ہے وہاں لفظ”ہراساں ”کے معنی کچھ اور ہی بنتے ہیں۔البتہ شرمین صاحبہ اگر زمانے کے ساتھ ساتھ نئی اردو لغت میڈیا کے سامنے پیش کر دیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔کہ جیسے ان کے مطابق فرینڈ ریکوسٹ بھیجنے سے کوئی ہراساں ہو جاتا ہے۔

اگر ایسا ہے تو جناب ہمیں تو دن بھر کئی یورپی لڑکیوں کی فرینڈ ریکوسٹ موصول ہوتی رہتی ہیں توکیا ہم بھی میڈیاکے سامنے کہتے پھریں کہ فلاں ملک کی فلاں لڑکی نے مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔لیکن جناب آپ بات کا بتنگڑ نہیں سمجھے۔شرمین عبید چنائے جوکہ پاکستان کا جھوٹا چہرہ مغربی دنیاکو دکھاکر نوبل انعام حاصل کرچکی ہیں۔دراصل اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی غرض سے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہیں۔حالانکہ یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں۔دن بھر لاکھوں،کروڑوں مر د خوبصورت ترین لڑکیوں کو فرینڈ ریکوسٹ بھیجتے رہتے ہیں کہ جن کا اپنا اپنا مقصد ہوتاہے۔دوسرا ہرانسان کی اپنی ذاتی زندگی ہے کہ جسے گزرانے کا اسے مذہبی،معاشرتی اورقومی حق حاصل ہے۔تاہم حقیقت سے ماورا ہوکر معاشرہ کی ایک تصویر دنیاکو دکھانا یقینا بے وقوفی کی انتہا تصور ہوگی۔بہرحال شرمین عبید چنائے کے لئے یہ کوئی نہیںبات نہ ہوگی کیونکہ ایسی حرکتیں کرنے سے آپ متنازعہ نوبل انعام پا سکتے ہیں۔بصورت دیگر آپ کی لاکھ کاوشیں ،قربانیاں یوں ہی رائیگاں چلی جائیںگی۔یہ بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ میڈیا میںآنے کے لئے اورخاص طورسے ٹا ک شوز میں ذاتی طور یا پھر تجزیہ کاروں کے ہاٹ ٹاک کاحصہ بننے کے لئے شرمین عبید چنائے نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ان کے مطابق ایسے ہی مواقع انہیں میڈیامیںاِن رکھ سکتے ہیں اور پھر خاص طورسے بین الاقوامی میڈیامیںآئے روزکی خبروںکا حصہ بننے کے لئے بھی ایسی حرکتیں بے حدضروری ہیں۔یہ بات ہم بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا میڈیا اور خاص طورسے بین الاقوامی روزمرہ معمولات زندگی کو کم کم ہی اپنی خبروں اور ٹاک شوزکا حصہ بنایا کرتاہے۔تاہم اگر کہیں معاشرہ کو ننگاکرنے کی ذرا سی بھی غلطی کردے ،بس انہیں بھرپورموقع مل جاتاہے اور پھر ساراسارا دن،اور کبھی کبھار تو پوراپوراہفتہ اسی ایک موضوع کو لے کر ہمارامیڈیا بیٹھ جاتاہے۔

یوں کسی کی معمولی غلطی اس کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔بہرحال اگر ہم ان پڑھ ،گوار کی بات کرتے تویقینا بات سمجھ میں آجاتی ۔مگر یہاں تو گنگا ہی کو الٹا بہا دیاگیاہے۔شرمین عبید چنائے جنہیں ہمارے بعض حلقے پاکستان کا فخر سمجھتے ہیں ان کی مذکورہ حرکت کی بدولت اپنے کہے ہوئے کو واپس لینے پر مجبور ہیں ،ان کے مطابق شرمین عبید آخر معمولی غلطی کو پاکستانی معاشرہ کی برائیاں کیوں گردان رہی ہیں۔کیا اسے کوئی بھی سمجھ دار یا تہذیب یافتہ معاشرہ ،معاشرتی برائی مان سکتاہے؟کیا اس سے کسی بھی معاشرہ کی عکاسی ہوتی ہے؟ہرگز نہیں۔بلکہ اسے کسی شخص کی غلطی ضرور تصور کیا جاسکتاہے۔

یہ تو شکر ہے کہ شرمین عبید نے مذکورہ ڈاکٹر کی معمولی غلطی کو مذہب کا رنگ نہیں دیا۔کیونکہ جب انسان اپنی ہی شناخت والے معاشرہ کو ننگا کرنے پر تل جاتاہے تو اس کا دوسرا ٹارگٹ اس کے معاشرہ میں ملنے والا مذہب ہوتاہے۔کہ جس پر وار کرکے وہ دشمن کو خوشی سے نڈھا ل کرنے سے بھی گریز نہیںکرتا۔حالانکہ دنیاکاکوئی بھی مذہب اپنے ماننے کو کسی دوسرے انسان کی تذلیل کرنے کی ہرگزاجازت نہیںدیتا۔البتہ اگر کوئی انسان غلطی یاگناہ کرتاہے تو یہ اس کا ذاتی یا پھر دوسرے الفاظ معاشرتی مسئلہ بن جاتاہے نا کہ مذہبی۔یہ اوربات ہے کہ ہمارے پاس آخری الفاظ صرف اور صرف مذاہب کے لئے بچ جاتے ہیں کہ جنہیں ہم بوقت ضرورت استعمال کرنے سے بھی گریز نہیںکرتے۔بہرحال بات ہورہی تھی شرمین عبید چنائے کہ جن کا شاید مقصد پاکستانی معاشرہ کے منفی پہلوئوںکو سامنے لانا ہے کہ جس سے شاید ان کی روزی روٹی بھی چل رہی ہے ،تاہم ان تمام باتوںکو بھی ملحوظ خاص رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ شرمین عبید کے اردگرد پروان چڑھنے والا معاشرہ پڑھالکھااوران سے زیادہ سمجھ دار ہے۔یہ دنیاکی کسی کتاب میںنہیںلکھا کہ یورپ جاکر انسان تہذیب یافتہ ہوجاتاہے۔

البتہ انسان کی اپنی ہی غلطیاں اسے تہذیب کے دائرے سے کوسوں دورلے جاتی ہیں۔چونکہ معاشرہ ہمارے ہی ہاتھوں پروان چڑھتاہے ،اسلئے اپنے ہی معاشرہ کو گالی دینا بجائے اس کے سنوارکے۔بے انتہا درجہ کی بے وقوفی تصورہوگی۔کیونکہ یہ باتیں اذکار رفتہ ہوچکی کہ پاکستانی معاشرہ تہذیب یافتہ نہیں۔دراصل دنیا نے پاکستان کا اصل ، بہترین اور دلفریب چہرہ دیکھا کہاں ہیں؟پاکستانی روایات دنیابھرمیں مشہور ہیں۔۔باقی ہم سب جانتے ہیں بس اللہ تعالیٰ سے دعائے خاص ہے کہ پاکستانی معاشرہ کے دشمنوںکے اذہان میںبھی یہ باتیں کوٹ کوٹ کر بھردے ۔کیونکہ ہدایت صرف اس پاک ذات کے ہاتھ میں ہے۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان