جوتے مارنے کا کلچر

Shoe Thrower

Shoe Thrower

تحریر : ایم سرور صدیقی
قصور کے باسیوں کا کیا قصور کہ وہاں ”قیامت”آگئی خداکی پناہ 300 کے قریب معصوم بچوں کے ساتھ درندگی اور ان کے والدین کو بلیک میل کرنے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے یقینا مہذب معاشرہ کے چہرے پر ایسے واقعات بدنما داغ ہیں ان واقعات میں ملوث ہرملزم کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کی اخلاقی ،قانونی اور سماجی ذمہ داری ہے شنید ہے کہ معصوم بچوں کی غیراخلاقی ویڈیوپڑوسی ممالک کوفروخت کرنے کی اطلاعات بھی آرہی ہیں اوراس میں مرکزی کرداروں میں حکمران جماعت کا ایک ایم پی اے بھی ہے جس پر ملزموں کی پشت پناہی کرنے کا سنگین الزامات بھی ہیں یقینا ایسے درندوں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے۔۔۔ قصور میں مشتعل متاثرین نے احتجاج کے دوران IG پنجاب مشتاق سکھیرا پر جوتا بھی اچھال دیا لوگوں کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے جوتا اچھالنا کوئی اچھی روایت نہیں اس سے پہلے کئی نامی گرامی شخصیات جوتوں کی زد میں آچکی ہیں۔

گذشتہ سال وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاںشہبازشریف لاہورمیں سائوتھ ایشیا لیبرکانفرنس کی تقریب میں ابھی سٹیج پرآکر بیٹھے ہی تھے کہ پریس گیلری میںبیٹھے نجی ٹی وی چینل کے صحافی نے ان کی طرف جوتا اچھال دیاخوش قسمتی سے وزیر ِاعلیٰ اس کی زدمیںآنے سے بال بال بچ گئے اور جوتا سٹیج پر گرگیا۔ جوتااچھالنے کے بعد مذکورہ صحافی نے شورمچایا کہ حکومت صحافیوںپر حملے کرنے کے ذمہ داروںکے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان کی حمایت کررہی ہے۔ تقریب کے اختتام پرپولیس نے صحافی کو حراست میں لے لیا جسے بعدمیںوزیر ِاعلیٰ پنجاب میاںشہبازشریف کے حکم پررہا کردیا گیا اس سے پہلے سابق امریکی صدر جارج بش، برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون، امریکہ کی سابق خاتون ِ اول ہیلری کلنٹن، ایرانی صدر احمدنژاد، مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر ِ اعظم عمر عبداللہ، بھارتی عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال، سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اورسابق صدر پرویز مشرف بھی اس صورت ِ حال سے دو چارہوچکے ہیں۔

Ahmed Raza Kasuri

Ahmed Raza Kasuri

اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل معروف قانون دان احمد رضا قصوری کے چہرے پر کسی نے کالے رنگ کا سپرے کردیا تھا سابقہ وزیر مرحوم شیر افگن نیازی اورسینیٹر طارق عظیم کی بھی پٹائی ہو چکی ہے۔۔۔یہ سب واقعات معاشرہ میںعدم برداشت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ماضی میںکسی سیاسی جلسے یا جلوس کو ناکام بنانے کیلئے گندے انڈے یا ٹماٹر مارنے کا رواج تھا اسے بھی بڑا واقعہ شمار کیا جاتا تھا اب تو جوتے مارنے کا کلچر فروع پارہاہے جو انتہائی خوفناک رویے کا عکاس ہے میں تو اسے انتہا درجے کی بدتمیزی سے تعبیر کرتاہوںویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جوتا اچھالنے والے معاشرہ کون سی خدمت کررہے ہیں؟ غالب نے تو کہا تھا ہر اک بات پہ کہتے ہو تو کیا ہے؟
تمہی کہو ۔۔یہ انداز ِ گفتگو کیا ہے؟

آج غالب زندہ ہوتے تو اس بدتمیزی اور بد تہذیبی پر نہ جانے کتنے شعر لکھ ڈالتے لیکن بیشترلوگ جوتا مارنے کے واقعات کو یقینا چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں ایسے واقعات سے ظاہرہوتاہے کہ برداشت ،تحمل ، مروت ،بردباری اوردرگذرکرنا شاید پرانے زمانے کی باتیں ہیں اب تو زیادہ تر لوگوںمیں قوت ِ برداشت کم ہوتی جارہی ہے جس کے باعث بات بے بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیںمعمولی” تو تو میں میں”پر اسلحہ نکل آتاہے ۔۔ کبھی۔ برداشت ،تحمل ، مروت سیاستدانوں،صحافیوں ،سرکاری و غیرسرکاری افسران اوربیوروکریٹ کا خاصا ہوتا تھا دور ِ حاضر میں لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اس ماحول میں جس پرجوتا اچھالا جائے اس کے ضبط کاامتحان بھی ہوتاہے پر امن احتجاج ہر شخص کا جمہوری حق ہے سانحہ ٔ قصور کے متاثرین سے دنیا کے ہر درد کھنے والے کو ہمدردی ہے لیکن جوش میں ہوش کا دامن چھوڑ دینا اپنے آپ سے ظلم کے مترادف ہے۔

Media

Media

میڈیا سے تعلق رکھنے والوں سے بھی میری التماس ہے کہ وہ محض خبر بنانے کے چکر میں سنسنی نہ پھیلائیں قظور کا واقعہ بھی میڈیا سامنے لایا ہے وگرنہ ہو سکتا تھا بااثر لوگ اسے دبانے میں کامیاب ہو جاتے ۔۔۔ ۔۔ہم نے کئی پریس کانفرنسوںمیں مزاج کے خلاف سوال کرنے پر کئی سیاستدانوںکو سیخ پاہوتے دیکھاہے کئی اس قدر غصے میں آجاتے ہیں کہ وہیں کھڑے کھڑے صحافیوںکو بے نقط سنا دیتے ہیں۔پاکستان میں صحافیوںنے آزادی ٔ صحافت کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں اب تلک درجنوں صحافی پیشہ وارانہ ذمہ داریوںکو بجالاتے ہوئے شہیدہو چکے ہیں۔ آزادی ٔ صحافت کیلئے قربانیوںکا تقاضاہے کہ صحافی اپنی ذمہ داریوںسے انصاف کریں محض خبر بنانے کے چکرمیں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے۔

جس سے اس شعبہ کی سبکی ہو۔بہرحال مملکت ِ خدادادپاکستان میں جوتا مارنے کے کلچرکو سختی سے کچلنے کی ضرورت ہے اس مکروہ فعل سے آزادی ٔ صحافت کو بہت سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیںیہ کام اظہارِ رائے کی آزادی کا بھی دشمن ہے مذہبی نقطہ نظر سے انتہائی گھنائونا کام ۔۔۔پست اور گھٹیا سوچ کا مظہر۔ خوفناک بات یہ ہے کہ جوتے مارنے کی رسم چل نکلی تو کل کلاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا مذہبی رہنما، سیاستدان، سماجی شخصیات، صحافی یا پھر کوئی بھی اس جوتا گردی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ لوگ اپنے کسی بھی مخالف کو جوتے مارکر ذلیل کر سکتے ہیں اس صورت میں اتنی انارکی پھیلے کی جس کا اس وقت اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی