بڈھ بیر کا سانحہ

Taleban Attack Pakistani Military Bas

Taleban Attack Pakistani Military Bas

تحریر: نعیم الرحمان شائق
جمعۃ المبارک کے بابرکت دن کو پاکستان میں ایک اور سانحہ ہوا پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ۔ جس کے نتیجے میں 30 افراد شہید اور 29 زخمی ہو گئے ۔ جب کہ دوسری طرف 13 حملہ آور ہلاک کر دیے گئے۔ حملہ آور وں نے ایف سی کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں ۔ یہ حملہ آور فجر کے وقت کیمپ میں داخل ہوئے۔ انھوں نے آتے ہی مسجد میں موجود نمازیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے ساتھ ساتھ دستی بموں سے حملہ بھی کیا۔ جس کی وجہ سے 16 نمازی شہید اور 10 زخمی ہو گئے۔ پھر پاک فوج کے جوانوں اور حملہ آوروں کے درمیان دست بدست لڑائی شروع ہوگئی۔ حملہ آوروں کے عزائم خطر ناک تھے۔

وہ پاک فضائیہ کے افسران کے گھروں تک پہنچ کر ان کے بچوں کو یر غمال بنانا چاہتے تھے ۔ اگر پاک سکیورٹی فورسز کے جوان بر وقت کارروائی نہ کرتے تو شاید یہ حملہ آور اپنے مقاصد میں کام یاب ہو جاتے ۔ قدرے توقف کے بعد کوئیک ریسپانس فورس کے دستوں نے پہنچ کر پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ اور حملہ آوروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا ۔ یہاں قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف پاک فضائیہ کے دو ٹیکنیشن بھی آخر وقت تک لڑتے رہے ۔ بالآخر دونوں نے جام ِ شہادت نوش کیا ۔ حالاں کہ ٹیکنیشن کا کام لڑنا نہیں ہوتا ۔ مگر آفرین ہے ان دو ٹیکنیشنز کو ، جنھوں نے لڑتے لڑتے جان دے دی۔

Asfandyar

Asfandyar

یہاں دو نوجوانوں کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہوگی ۔ ان میں سے ایک نوجوان کیپٹن اسفند یار بخاری ہیں ۔جو حملہ آوروں کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر لڑتے رہے ۔ بالآخرجام شہادت نوش کیا ۔ کیپٹن اسفندیا ر بخاری کا تعلق پاکستان کے علاقے ضلع اٹک سے تھا ۔ وہ 14 اگست 1988ء کو پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پی ایس کیڈٹ کالج حسن ابدال سے حاصل کی ۔ ان کا شمار بہترین کیڈٹس میں ہوتا تھا ۔انھیں 25 اکتوبر 2008ء کو پاسنگ آؤٹ پریڈ میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اعزازی شمشیر عطا کی ۔ کیپٹن اسفند یار بخاری بہترین کھلاڑی بھی تھے۔

وہ پنجاب انڈر 19 کی ہاکی ٹیم کے لیے بھی کھیلتے رہے ۔ اس کے علاوہ وہ زمانہ ِ طالب علمی میں کالج کی شطرنج ٹیم کے کپتان بھی رہے ۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے والد ڈاکٹر فیاض بخاری نے ان سے متعلق بڑی اچھی باتیں بتائیں ۔ انھوں نے بتایا کہ اسفند یار نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا تھا ۔ اسفند یار کو ملنے والی اعزازی تلوار حق کی تلوار تھی ، جو دشمن پر گر ی ۔ دوسرے شہید ہونے والے نوجوان شان علی شوکت ہیں ۔ شان علی شوکت کا تعلق فیصل آباد سے تھا ۔ وہ 1990 ء میں پیدا ہوئے ۔ ڈیڑھ ماہ قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی ۔ 6 سال قبل ائیر فورس جوائن کی تھی۔

7 ستمبر کو ایک ماہ کی چھٹیاں گزار کر گھر سے آئے تھے۔ یہ اگر چہ ٹیکنیشن تھے۔ لیکن حملہ آوروں کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے چھوٹے بھائی اسامہ کا کہنا تھا کہ انھیں اپنے بھائی کی شہادت پر فخر ہے۔ اس کے علاوہ جماعت ِ نہم کے اس طالب ِ علم نے اپنے بڑے بھائی کی طرح ملک و قوم کی خاطر اپنی جان تک وار دینے کے بلند پایہ عزم کا اظہار بھی کیا ۔ایسے نوجوان واقعی خراج ِ تحسین کے مستحق ہیں ۔ جو عین شباب کے عالم میں جان کی پروا کیے بغیر ملک و قوم کے لیے جان تک قربان کر دیتے ہیں۔

Terrorist

Terrorist

ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے کہ حملہ آور وں نے فوجیوں کی وردیاں پہن کر حملہ کیا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا ، جب حملہ آوروں نے اس طرح بھیس بدل کر حملہ کیا ۔ پاک فوج کو اس نکتے پر نظر مرکوز رکھنی چاہیے۔بڈھ بیر میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر ہونے والا حالیہ حملہ اس امر کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ ابھی تک یہ جنگ ختم نہیں ہوئی ۔یہ جنگ روایتی جنگ سے بھی زیادہ شدید ہے۔ یہ نظریات کی جنگ ہے۔ روایتی جنگ سے زیادہ شدید نظریا ت کی جنگ ہوتی ہے ۔ مجموعی طور پر 65 ء اور 71ء کی جنگ میں ہمارا اتنا نقصان نہیں ہوا ، جتنا اب کے ہوا ہے ۔ اس جنگ میں ہم ساٹھ ہزار سے زائد جانیں گنوا چکے ہیں ۔ ہماری معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

نہ جانے اور کیا کیا کرنا پڑے گا۔ یہ حملہ آور بہ آسانی اپنے ٹارگٹ تک پہنچ گئے۔ اس پر بھی کافی سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ کس طرح بہ آسانی پاک فضائیہ کے کیمپ تک پہنچ گئے ۔ نہ صرف پہنچ گئے ،بلکہ کافی سار ا جانی نقصان بھی کر دیا ۔بڈھ بیر میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر حملہ ہونے کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی۔

Pak Army

Pak Army

پاک فوج کے ترجمان کے اس بیان کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بہت سے دشمن بیرون ملک بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ بہ آسانی ہم پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ان سے نمٹنا از حد ضروری ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت خطرناک ہیں ۔مستقبل میں جب ہماری سکیورٹی فورسز کے افسران دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کریں تو یہ سب باتیں ملحوظ رکھ کر کریں ۔ تاکہ دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مکمل طور پر بچا جا سکے۔

تحریر: نعیم الرحمان شائق
ای میل :
shaaiq89@gmail.com
فیس بک:
fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq