شارٹ کٹ یا چور دروازہ

Door

Door

تحریر: ممتازملک۔ پیرس
ہر آدمی ہی جلدی میں ہے۔ ہر انسان مصروف ہے۔ ہر کوئی بھاگ رہا ہے۔ لیکن کس چیز کے پیچھے ؟ ہر انسان کل بھی دو روٹی کھاتا تھا آج بھی دو روٹی ہی کھاتا ہے ۔ ہر انسان کے تن پر کل بھی تین کپڑے تھے آج بھی دو یا تین کپڑے ہی ایک وقت میں ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو سونے کے لیئے کل بھی ایک بستر کی جگہ چاہیئے تھی اور آج بھی اتنی ہی جگہ چاہیئے۔ ہر انسان کی قبر کل بھی دو گز کی تھی اور آج بھی دو گز ہی اس کا مقدر ہونا ہے۔ کفن کا سائز بھی ایک ساتھا اور ہے ۔ پھر ایسی کون سی بھوک ہے جسے مٹانے کے لیئے آج کا انسان ہر رشتے کو کاٹتا جا رہا ہے ، ہر حد کو پھلانگتا جا رہا ہے ، ہر دل کو کچلتا جا رہا ہے ، ہر حرمت کو پامال کرتا جا رہا ہے۔

قیامت کی کیا یہ وہی گھڑی یا نشانی نہیں ہے ،جس میں ہر آدمی دوڑ رہا ہے وقت کا ہر سال مہینہ ، مہینہ ہفتہ اور ہفتہ دن جیسا گزر رہا ہے ۔ لیکن کسی سے پوچھا جائے تو اتنی مصروفیات میں بھی نہ کسی کے دل کو قرار نصیب ہے ،نہ ہی کوئی مالی سکون کی بات کرتا ہے ،اور نہ ہی کوئی شکر گزار ہے، ہر ایک شاکی ہے کسی نہ کسی بات پر ۔ کیا وجہ ہے ؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم جن کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اصل میں ہم وہ ڈیزروو ہی نہیں کرتے۔ جب ہم کسی اور کا حق اپنے نام کرنے جاتے ہیں تو بے سکونی تو مقدر بننا ہی ہے ۔

Hard Work

Hard Work

ہمارے پاس محنت کرنے کا تو وقت نہیں ہے لیکن ہمیں عہدہ بھی دوسرے محنت کرنے والے سے بڑا چاہیئے۔ ہم دوڑ میں تیزی سے بھاگنا نہیں چاہتے لیکن گولڈ میڈل اپنے ہی گلے میں لٹکا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کھانا بنانا تو سیکھنا نہیں ہے ،لیکن ہمیں دوسرے کی پکاۓ ہوئے پکوان کو اپنے ہی نام سے پیش کرنے کا شوق بھی بہت ہے۔ گویا کہ ہر ایک مصروف تو ہے لیکن وہ محنت جو کر رہا ہے وہ کچھ سیکھنے کے بجائے شاید دوسرے سیکھے ہوؤں کا کام اپنے نام کرنے میں مصروف ہے ۔ کچھ لوگ محنت سے کچھ بنانے میں مصروف ہیں تو باقی اسی فیصد اس کی محنت پر اپنے نام کا ٹھپہ لگانے میں مصروف ہیں ۔ لیکن یہ سمجھنے میں اور کتنی دیر لگے گی کہ زندگی کسی بھی شارٹ کٹ کی اجازت نہیں دیتی ۔ یہاں جو کچھ کرنا ہے اگروہ اصل ہو گا جبھی اسکا انعام بھی سکون کی صورت میں ملے گا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم گندم بوئیں اور آم کی فصل کی اُمید کریں۔

امیدیں بھی جب تک حقیقت کے دائرے میں رہیں تبھی پوری ہونے کی اُمید بھی رہتی ہے۔ جب یہ اُمیدیں حقیقت کے دائرے سے باہر ہو جاتی ہیں تو پھر خواب بن جاتے ہیں اور خوابوں کا کیا ہے، ان کے نصیب میں تو ٹوٹنا لکھ ہی دیا گیا ہے محبتیں بھی اتنی ہی کی جانی چاہیئیں کہ جتنا اس کے ختم ہونے پر دکھ سہنے کا حوصلہ ہو، تبھی اگلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ شارٹ کٹ سے ملنے والی خوشی ہو یا کامیابی دونوں ہی شارٹ ہوتی ہیں۔ زندگی میں پائیدار کامیابی اور خوشی کے لیئے بھرپور محنت اور نیت کی اچھائی دونوں ہی اہمیت رکھتی ہیں ۔ شارٹ کٹ کو اسی لیئے ہم چور دروازہ کہتے ہیں۔ اور گھروں کے مالک چور دروازوں سے کبھی نہیں آیا کرتے ۔ سکون ہی تو دل کا مالک ہوتا ہے ۔ اور اس کا اصل داخلہ اصل دروازے ہی سے ہو سکتا ہے۔ مالک اور چور میں کوئی تو فرق ہونا ہی چاہیئے۔ کہ نہیں ؟

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر: ممتازملک۔ پیرس

Door

Door