شوز فرنچائزر کے کرشمے

Bata Shoes

Bata Shoes

تحریر: کے ایم خالد
بونگا بغلول رونی سی صورت بنائے اپنی بیوی اور ایک عدد جوتے کے ڈبے کے ہمراہ میرے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا میں صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھا بونگے کی حالت یوں تھی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کی شکایت لگانے اس کو گھر سے ہی تھپڑ لگا کر لائی ہو ۔”بھائی جی،یہ آپ کا دوست یہ جوتا لایا ہے پیسے بھی پورے باٹا ریٹ کے ہیں حالانکہ باٹا کی ستر فی صد سیل لگی ہوئی ہے۔بونگے نے ڈبہ کھول کر جوتا نکالا اور اس کو الٹا کر مجھے باٹا کے اسپیلنگ دکھانے لگا جوتے پر ”بابا” اس انداز سے لکھا تھا کہ باٹا ہی دکھائی دیتا تھا جس کو کوئی بونگے بغلول جیسے ذہن کا مالک باٹا سمجھ کر خرید سکتا تھا۔

”یہ پچھلے سال بھی کسی دوکان سے امپورٹڈ سمجھ کر چائنا کی جوتی لے آیا تھا جو چند دن ہی چلی تھی ایک دن بارش میں دوکان سے دودھ لینے گیا واپس آیا تو جوتے کا سول اور تلا ہی کہیں بارش کے پانی میں رہ گئے اوپر تسمے پائوں کے ساتھ بندھے رہ گئے تھے۔سال میں ہم غریبوں نے ایک ہی جوتی لینی ہوتی ہے اب کی بار” بابا ”کی اٹھا لایا ہے ”۔ ”تو بونگے اس دوکان پر واپس کر دو جہاں سے لائے ہو ”۔میں نے سر جھکائے بونگے بغلول سے کہا ”یہ گیا تھا، دوکان دار نے کہا یہ باٹا کی فرنچائز ہے جوتا تبدیل کر دیں گے واپس نہیں ہو گا ”۔بونگے کی بجائے اس کی بیوی نے کہا ”اچھا چلو میرے ساتھ دیکھتے ہیں اگر واپس کر لیا تو ٹھیک ورنہ کمپنی کا جوتا تو لیں گے ” ۔میں نے بونگے کے ساتھ اٹھتے ہوئے کہا ۔بونگا بغلول یوں میرے ساتھ نکلا جیسے کسی تھانے کے کر خت تھانیدار کی قید سے چھوٹا ہو۔

میں اور بونگا ایک موبی لنک کی فرنچائزر پر پہنچے میں نے گاڑی روکی اور اس سے کہا ”جائو اندر سے ایک یو فون کی سم لے کر آئو ”۔ ” آپ کا انگوٹھا ۔۔۔؟” ”اچھا پتہ تو کرو ، اگر مل گئی تو انگوٹھا میں ہی لگائوں گا،میں نے ایک دو ضروری فون کرنے ہیں تب تک میں وہ کر لوں ”۔ وہ گاڑی سے اتر کر موبی لنک کی فرنچائزر شاپ میں داخل ہوگیا متوقع طور پر اس کی واپسی جلدی ہو گئی ”نہیں ان کے پاس نہیں ہے ” بونگے نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہاتھ اور سر ہلاتے ہوئے کہا ۔میں نے گاڑی ایک یو فون کی فرنچائزر پر روکی اور اس سے کہا” جائو گیٹ پر سیکورٹی گارڈ سے ہی پوچھ آنا جاز کی سم مل جائے گی۔

میں نے دیکھا سیکورٹی گارڈ نے اس کے جاز کی سم پوچھنے پر مشکوک سی نظر اس کے حلیہ پر ڈالی تھی ۔”نہیں ان کے پاس نہیں ”۔”اچھا ۔۔۔!” ۔میں نے مصنوعی حیرت سے کہا ”چلو ،تمہیں تہذیب کا پیزا کھلائو ں ”۔ ”پہلے جوتا نہ واپس کر لیں وہ بیوی ”۔ بونگے کے اعصاب پر بیوی سوار تھی ۔میں اسے لے کر راحت بیکری پہنچا ”جائو میں گاڑی ہوں ایک دو کام ہی نبٹا لوں گا ان سے تہذیب بیکری کا پیزا لے کر آئو اور تہذیب بیکری کا ہی لے کر آنا ہے کوئی اور نہیں۔

Bata

Bata

بونگے نے میرے ہاتھ سے ہزار روپے کا نوٹ پکڑا اور راحت بیکری سے تہذیب بیکری کا پیزا لینے چلا گیا کوئی دس منٹ میں ہی اس کی واپسی ہو گئی گارڈ نے شائد اسے بازو سے پکڑ کر نکالا تھا کیونکہ وہ دروازے کی طرف منہ کرکے شائد گالیاں ہی نکال رہا تھا ۔اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ہنستے ہوئے کہنے لگا ”مجھے بات کی سمجھ آ گئی ہے ”۔ ”کس بات کی ۔۔۔؟ ”میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔ ”فرنچائزر کسی دوسری کمپنی کا مال فروخت نہیں کر سکتا ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ جو باٹا اور سروس کے نام پر لوکل جوتے فرنچائزر بیچ رہے ہیں یہ غریب عوام کے ساتھ دھوکہ دہی ہے ۔

ہم دونوں باٹا کی فرنچائز پر پہنچے ساری دوکان باٹا کے بڑے سائن بورڈ اور بینرز سے بھی ہوئی تھی ”آپ کی خوشیوں میں شریک باٹا ” کے خیر مقدمی بینر نے ہمارا استقبال کیا دوکان کے باہر سیل کے نام پر جوتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جن میں ملی،باکسر ،اور نہ پڑھے جانے والے برانڈز کے جوتے بڑی مقدار میں موجود تھے لوگ بے چارے ستر فیصد کا پڑھ اور سن کر آ رہے تھے اور بہت سے سادہ لوح انہی لوکل برانڈ کے جوتے باٹا سمجھ کر لے رہے تھے میں نے بھی ایک جوتا پکڑا یہ ملی شوز کا تھا سیل مین نے میری طرف دیکھا میں نے پوچھا ”یہ جوتا باٹا کا ہے۔

”جناب ! باٹا کی دوکان ہے تو انہی کا جوتا ہو گا ”۔میں نے جوتا واپس رکھ دیا میں اور بونگا بغلول دوکان کے اندر داخل ہو گئے دوکان کا مالک کاونٹر پر تھا حالانکہ باٹا کی دوکان پر مینجر ہوتے ہیںمیں میں نے رسید اورجوتا اس کے سامنے رکھا ۔اس نے کہا ”جی فرمایئے”۔ ”یہ جوتا باٹا کا ہے ۔۔۔؟”۔ اسنے جوتا ہاتھ میں پکڑا اور کہا ”نہیں ،یہ باٹا کا نہیں ہے کسی لوکل کمپنی کا ہے ”۔ ”آپ کی باٹا کی دوکان نہیں ہے۔۔۔؟”۔ ”نہیں ہمارے پاس باٹا کی فرنچائزہے اس لئے دوسری کمپنیوں کے جوتے بھی رکھے ہوئے ہیں آپ نے باٹا کا جوتا لینا ہے تو ادھر تشریف لے جائیں ”۔اس نے ایک جانب اشارہ کیا ”کیا کسی فرنچائزر کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کا مال بھی رکھ سکے اور لوکل جوتا بیچ کر رسید باٹا کے جوتے کی دے ”۔میرے سوال کا اس کے پاس جواب نہیں تھا کیونکہ اس کا موقف تھا کہ باٹا ،سروس سمیت ساری فرنچائز میں ایسا ہی کام ہو رہا ہے بہر حال اس نے بونگے بغلول کو ”بابا ”کے جوتے کے بدلے باٹا کا جوتا دے دیا اس بات پر بونگا بغلول بہت خوش تھا کیونکہ مزید تین سو روپے مجھے اپنی جیب سے ڈالنے پڑے تھے۔

وطن عزیز میں جہاں اس قدر اندھیر نگری ہو کہ لوگ جعلی ادویات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہوں جہاں خوراک کے نام پر ہر طرح کی بے ایمانی جاری ہو جہاں چند سالوں میں لاکھوں گدھے اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں کہ ان کی کھال پر تھوڑے سے کیمیائی تعاملات آزما کر گھوڑے کی کھال کے بھائو بیچا جا سکتا ہے جہاں ایک اچار اور کیچپ فیکٹری پر چھاپے کے دوران مالک پیکٹ پر ایکسپائری ڈیٹ نہ ہونے پر کہے کہ جناب ہماری کیچپ اور اچار خراب ہی نہیں ہوتے وہاں جوتوں کے شعبے کو کون پوچھے گا ؟،کون پوچھے گا کہ جناب آپ کی فیکٹری میں کتنا جوتا بنتا ہے اور کتنا جوتا آپ کے شوروم اور فرنچائزر بیچ رہے ہیں درمیان میں جو لاکھوں کا فرق ہے وہ جوتا کہاں سے آ رہا ہے۔

ستر فیصد سیل کے نام پر کیسے عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ کوئی دور تھا کہ باٹا ،سروس کے جوتے بارے مشہور تھا کہ پائوں ٹوٹ جائے جوتے نہ ٹوٹے لیکن اب لوگ شاکی ہیں کہ جوتا مشکل سے ہی سیزن نکالتا ہے ۔ کیاکسی حکومتی ادارے میں اتنی جرات ہے جو ان جوتا ساز کمپنیوں سے ان کے جوتوں کی ایکسپائری ڈیٹ کے متعلق جان سکے۔ ۔۔؟

KM Khalid

KM Khalid

تحریر: کے ایم خالد
kmkhalidphd@yahoo.com